میرا بچپن

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

میری پرورش اور تعلیم و تربیت میں میرے والد محترم جناب محمد شفیع خاں صاحب کا غیر معمولی کردار ہے۔ جس طرح ایک مصوّر ہاتھ میں برش لے کر رنگوں کے ذریعے جیسی چاہتا ہے تصویر بناتا ہے، جس طرح ایک کمہار پاٹ پر مٹی رکھ ہاتھوں کی جنبش سے جیسے چاہتا ہے برتن بناتا ہے، اسی طرح میرے ابو جان نے میری شخصیت کی جیسی چاہی صورت گری کی اور اس میں وہ بڑی حد تک کام یاب رہے۔ برادر مکرم مولانا عنایت اللہ فلاحی مدیر ’جنت کے پھول‘(بھیونڈی) کی خواہش پر میں اپنے بچپن کی یادوں پر مشتمل یہ تحریر اس امید پر لکھ رہا ہوں کہ اس میں والدین اور سرپرستوں کے لیے عبرت و نصیحت کا بڑا سامان ہے۔

میرا وطن ضلع بہرائچ (اتر پردیش) کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہے۔ میرا گاؤں راجہ پور قصبہ نان پارہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ میرے بچپن میں یہ تمدنی سہولیات سے یک سر محروم تھا۔ گاؤں میں نہ بجلی آئی تھی نہ پکی سڑکیں تھیں۔ گاؤں والوں کو دینی اور عصری کسی طرح کی تعلیم سے سروکار نہ تھا۔ کوئی مکتب تک نہ تھا، جہاں بچے ناظرہ اور اردو وغیرہ پڑھ سکیں۔

میری ایک بہن مجھ سے دو برس بڑی تھیں۔ ان کی ناظرہ کی تعلیم کے لیے ابو جان نے ایک مولوی صاحب کو لگا رکھا تھا، جو روزانہ شام کو کچھ دیر انھیں پڑھانے کے لیے آتے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ جایا کرتا تھا۔ اس طرح میری بھی الف ب کی تعلیم شروع ہو گئی۔

اس زمانے میں غالباً مکتبہ الحسنات رام پور نے چھوٹے بچوں کی حروف شناسی کے لیے ایک بہت دل چسپ اور عمدہ چیز تیار کی تھی۔ لکڑی کے مربع شکل کے ٹکڑے، جن پر اردو کے حروف اور گنتیاں لکھی ہوتی تھیں۔ بچے ان سے کھیلتے تھے اور کھیل کھیل میں ان سے آشنا ہو جاتے تھے۔ ابو جان نے میرے لیے وہ بکس منگوا دیا۔ میں حروف پہچاننے لگا تو میرے ہاتھ میں ’نورانی قاعدہ‘ تھما دیا گیا۔ چند دنوں میں وہ ختم ہو گیا تو’ یسّرنا القرآن‘ نامی کتاب آگئی۔ بہت جلد ’پارۂ عم‘، پھر ترتیب سے قرآن پڑھنے لگا۔ ابو جان نے میرے لیے ’تعلیمی تاش‘ بھی منگوا دیا، جس پر اردو اور انگریزی کے حروف تہجی لکھے ہوئے تھے۔ تاش کے پتوں کے ذریعے وہ دو حرفی، سہ حرفی، چہار حرفی اور پنج حرفی الفاظ بنانا سکھاتے تھے اور اس کی مشق کرواتے رہتے تھے۔ میرے ساتھ تعلیمی تاش کھیلنے کے لیے وہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکال لیا کرتے تھے۔

کچھ دنوں کے بعد ابو جان کو میری ابتدائی تعلیم کی فکر ہوئی۔ انھوں نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ گھر کے بیرونی کمرے کو، جس کی حیثیت بیٹھک (Drawing Room)کی تھی، انھوں نے اسکول میں تبدیل کر دیا۔ ایک ریٹائرڈ ٹیچر کی خدمات حاصل کیں، جو میری بڑی بہن اورمجھے پڑھانے کے ساتھ خاندان اور گاؤں کے دوسرے بچوں کو بھی پڑھاتے تھے۔ باقاعدہ اسکول چلنے لگا، جو دوسرے مروجہ اسکولوں سے مختلف تھا۔ ابو جان جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے۔ انھیں جماعت کی تعلیمی سرگرمیوں اور اس کے تیار کردہ نصاب سے پوری واقفیت تھی۔ انھوں نے ابتدائی درجات کی تمام نصابی کتابیں منگوائیں اور مولوی صاحب کے حوالے کر دیں کہ انھیں ترتیب کے ساتھ بچوں کو پڑھائیں۔ اس اسکول میں درجات تو تھے، مگر وہ ماہ و سال کے پابند نہ تھے۔ ایک کتاب ختم کرانے کے بعد دوسری کتاب شروع کرا دی جاتی تھی۔ اس طرح میں نے چار سال کا نصاب دو سال ہی میں مکمل کر لیا۔

ابو جان وقت کے بہت پابند تھے۔ ناغہ بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ گھر ہی میں اسکول ہونے کی وجہ سے یوں بھی چھٹیوں کا کوئی تصور نہ تھا۔ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ کسی وجہ سے میرا اسکول جانے کا جی نہ چاہا۔ ابو جان کو معلوم ہوا تو سخت طیش میں آگئے۔ مجھے اپنے برابر اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ میرا پیشاب خطا ہو گیا اور میرے سر میں ورم آگیا، مگر انھیں ترس نہ آیا۔ میرا ہاتھ پکڑا اور اسکول چھوڑ آئے۔

ان دنوں رام پور میں جماعت اسلامی ہند کی قائم کر دہ درس گاہ جماعت کے حلقے میں بہت مشہور تھی۔ وہ جماعت کی براہ راست نگرانی میں تھی، اسی لیے اس کا نام ’مرکزی درس گاہ جماعت اسلامی ہند رام پور‘ تھا۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پورے ملک سے بچے آتے تھے۔ زیادہ تر بچے جماعت کے ارکان و کارکنان و متفقین اور کچھ دوسروں کے ہوتے تھے۔ اساتذہ تقریباً تمام ہی جماعت کے ا رکان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگیاں جماعت کے تعلیمی مشن کو پورا کرنے کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔ بڑے مہربان اور شفیق اساتذہ تھے۔

ابو جان نے درس گاہ میں میرے داخلے کے لیے خط و کتابت کی۔ منظوری ملنے پر وہ مجھے درس گاہ پہنچا آئے۔ اس وقت میری عمر چھ برس تھی۔ مجھے یاد ہے، میرے چچا مجھے اپنے کندھے پر بٹھا کر قریبی اسٹیشن ’مٹیرا‘ تک لے گئے تھے، جو گاؤں سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں سے گونڈا، گونڈا سے لکھنؤ اور لکھنؤ سے رام پور کا سفر ہوا۔ درس گاہ میں درجۂ پنجم کے لیے میرا ٹیسٹ ہوا۔ میں کام یاب بھی ہو گیا، لیکن اتنا چھوٹا تھا کہ محض عمر کم ہونے کی وجہ سے میرا داخلہ درجۂ چہارم میں کر دیا گیا۔ اس درجہ میں بھی میں سب سے کم عمر تھا۔ ٹیسٹ لیتے وقت مجھ سے بلیک بورڈ پر کچھ لکھنے کو کہا گیا تو قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے میرا ہاتھ بلیک بورڈ تک نہ پہنچ سکا، چنانچہ مجھے اسٹول پر کھڑا کر دیا گیا۔

درس گاہ میں میرا داخلہ 1970 میں ہوا تھا۔ وہاں میں نے پانچ برس گزارے۔ اس عرصے میں ابو جان مجھ سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہوئے۔ وہ برابر مجھے خط لکھتے، درس گاہ کی ہر ماہ فیس بھیجتے، ہر دو تین ماہ میں مجھے دیکھنے اور میری تعلیمی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اپنا کاروبار چھوڑ کر اور طویل مسافت طے کر کے رام پور آتے۔ درس گاہ کے ناظم صاحب اور اساتذہ اور بورڈنگ ہاؤس کے نگراں حضرات سے ملتے اور میرے بارے میں دریافت کرتے، میرے سامان، کپڑوں، کتابوں، کاپیوں، غرض ایک ایک چیز کا جائزہ لیتے، ضرورت کی چیزیں فراہم کرتے، اپنے بھیجے ہوئے خطوط، پرانی کتابوں اور کاپیوں کو سمیٹ کر واپس گھر لے جاتے۔

ابو جان میرے کھانے پینے کا بہت زیادہ دھیان رکھتے تھے۔ جب بھی مجھے گھر سے درس گاہ چھوڑنے کے لیے جاتے، میں لدا پھندا ہوا وہاں پہنچتا تھا۔ گھی، شہد، کئی طرح کے حلوے، چھوہارے، بسکٹ، نمکین اور نہ جانے کیا کیا وہ میرے ساتھ کر دیتے تھے۔ بورڈنگ ہاؤس میں کھانا اجتماعی ہوتا تھا۔ میں ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک چمچہ گھی لے جاتا تھا، جسے دال میں ڈال کر کھایا کرتا تھا۔

ابو جان شش ماہی اور سالانہ امتحانات، عید الفطر اور عید الاضحیٰ یا موسم گرما اور موسم سرما کی تعطیلات کے موقع پر ہمیشہ وقت سے پہلے درس گاہ پہنچ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی وجہ سے رام پور میں کرفیو لگا ہوا تھا۔ لکھنؤ سے کوئی ٹرین رام پور کی طرف نہیں جا رہی تھی۔ ابو جان لکھنؤ تک پہنچ گئے۔ آگے جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ایک ٹرین فوجیوں کو لے کر جا رہی تھی۔ ابو چند مسافروں کے ساتھ اسی میں گھس گئے۔ پولیس نے ڈبوں کا جائزہ لیا تو فوجیوں کے علاوہ دوسرے مسافروں کو اتار دیا۔ ابو تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ گھس گئے اور ایک فوجی نے انھیں اپنی سیٹ کے نیچے چھپا لیا۔ اس طرح وہ رام پور پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر اترنے کے بعد ایک پولیس جیپ نے انھیں درس گاہ کی بورڈنگ ہاؤس تک پہنچا دیا۔ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ اس موقع پر وہاں کا اسٹاف ابو کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔

درس گاہ کے اساتذہ اور خاص طور پر نگراں حضرات کو میں نے بہت زیادہ محبت کرنے والا اور تربیت پر زور دینے والا پایا۔ ابتدا میں میرے نگراں جناب اسلام اللہ پریمی صاحب تھے۔ وہ بورڈنگ ہاؤس کے کنارے فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔ بچوں کے ساتھ انتہائی شفیق تھے۔ ہومیو پیتھک پریکٹس کی وجہ سے بچوں کے علاج معالجہ کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔ میرا ان کے گھر اس قدر آنا جانا تھا کہ ان کے گھر کا ایک فرد معلوم ہوتا تھا۔ بعد میں دوسری بورڈنگ ہاؤس میں منتقل ہوا، جس کے نگراں جناب عرفان خلیلی تھے۔ وہ بھی بڑے مہربان تھے۔ ان کی مہربانی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں اکثر رات میں بستر پر پیشاب کر دیا کرتا تھا۔ وہ نصف شب میں آتے۔ میرا بستر چیک کرتے۔ اگر میں نے پیشاب کر دیا ہوتا تو بستر اور کپڑے بدلواتے، ہینڈ پمپ پر لے جاتے، کمر سے نیچے تک میرا جسم دھلواتے، پھر دوسرے کپڑے پہنا کر سلاتے۔

بورڈنگ ہاؤس میں نماز کے معاملے میں نگرانی رکھی جاتی تھی۔ چھوٹے بچے بورڈنگ ہاؤس میں ہی باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ وہ تمام نمازیں، چاہے جہری ہوں یا سرّی، اور ان میں پڑھی جانے والی تمام سورتیں اور اذکار زور زور سے پڑھتے تھے، تاکہ ازبر ہو جائیں اور جن بچوں کو یاد نہ ہوانھیں بھی یاد ہو جائیں۔ بڑے بچے قریب کی مسجد میں، جس کا نام ’اونچی مسجد‘ تھا، نماز کے لیے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی وجہ سے عشاء کی نماز میں کچھ بچے، جن میں میں بھی شامل تھا، مسجد نہیں گئے۔ چچا میاں عرفان صاحب، نماز پڑھ کر آئے تو ہم سب کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ہر ایک کے ہاتھ پر ایک ایک بید رسید کیا۔ ان کی وہ تنبیہ آج تک یاد ہے اور مار کھانے کا وہ نقشہ بھی ذہن میں تازہ ہے۔

مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراج پوری، مولانا محمد سلیمان قاسمی، جناب اقبال حسین، جناب منظور فاخر، جناب ابو المجاہد زاہد، جناب یونس عثمانی، جناب رئیس عثمانی، جناب رونق علی اور بھی دیگر اساتذہ تھے جو اپنی شفقتیں ہم پر نچھاور کرتے تھے۔ جناب منظور الحسن ہاشمی، جن کا تعلق حیدرآباد سے تھا، اس زمانے میں درس گاہ کے پرنسپل تھے۔ ان سے ہم نے وقت کی پابندی سیکھی۔ درس گاہ سے کچھ فاصلے پر ان کی رہائش گاہ تھی۔ درس گاہ کا وقت اگر صبح سات بجے ہوتا تو ٹھیک اسی وقت ان کا ایک قدم مین گیٹ کے اندر ہوتا۔ نہ ایک منٹ کم نہ ایک منٹ زیادہ۔ جناب رونق علی صاحب سے آج بھی ملاقات ہوتی ہے تو اتنی ہی محبت اور اپنائیت سے ملتے ہیں جیسے آج سے چالیس پینتالیس سال برس قبل ان کا معمول تھا۔ میری تحریریں پڑھ کر بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں : ’ میں پہلے تمھارا استاد تھا، آج کل تم میرے استاد ہو۔ میں تمہاری تحریریں بہت شوق سے پڑھتا ہوں ‘‘۔ ان کی یہ بات سن کر میرا سینہ خوشی سے پھول جاتا ہے۔

میرے اندر مطالعہ و تحریر کا شوق ابو جان ہی کی بدولت پیدا ہوا۔ ان کے پاس جماعت اسلامی کا بنیادی لٹریچر اور اہم کتابیں موجود تھیں۔ انھوں نے چچا میاں جناب عبد السلام بستوی سے، جو ان دنوں درس گاہ میں استاد تھے، کہہ رکھا تھا کہ جماعت کے مکتبہ سے جو نئی اور اہم کتابیں طبع ہوں وہ خرید کر مجھے دے دیا کریں۔ چنانچہ وہ پابندی سے ایسا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ رام پور سے طبع ہونے والے رسائل: نور، الحسنات، حجاب اور ذکریٰ انھوں نے میرے نام جاری کروا رکھے تھے۔ چنانچہ میرے پاس غیر درسی مطالعہ کے لیے کتابیں اور رسائل وافر مقدار میں موجود رہتے تھے اور میں ان کا خوب مطالعہ کیا کرتا تھا۔ ابو جان تھوڑے تھوڑے وقفے سے میرے پاس آتے اور پرانے رسائل کو اکٹھا کرکے گھر لے جاتے اور پرانی کاپیوں سے دفتیاں نکال کر ایک ایک رسالے پر چڑھاتے۔ اس طرح انھوں نے ان رسائل کی فائلیں گھر پر محفوظ کر رکھی تھیں۔

ابو جان سے میں نے اپنے بچپن میں ایک اور چیز سیکھی، جو آئندہ بہت کام آئی اور اب بھی میں اس سے بہت فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ وہ ہے مختلف سامانوں، چیزوں، کتابوں، نوٹس اور دیگر تحریری مواد کو سلیقے سے رکھنا۔ وہ مجھ سے ملنے آتے تو میری ایک ایک چیز کو سمیٹتے، پرانی کتابیں، کاپیاں، میرے نام ان کے لکھے ہوئے خطوط، شش ماہی اور سالانہ امتحانات کے پرچے، اسکول سے ملے ہوئے اعلانات وغیرہ۔ وہ کاغذ کا ایک پرزہ بھی ضائع نہ ہونے دیتے تھے۔ سب کو باندھ کر گھر لے جاتے اور ان کی الگ الگ فائلیں بنا کر ہر فائل کو سوئی دھاگہ سے سل کر محفوظ کر دیتے۔ اسی طرح اسکول سے موصول ہونے والے ماہانہ فیس کے بل، ان کے ادائیگی کے لیے منی آرڈرس کی رسیدیں، امتحانات کی مارشیٹس، غرض اسکول کے زمانے کا کوئی کاغذ انھوں نے ضائع نہ ہونے دیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے کچھ کاغذات کی ورق گردانی کی تو اس میں اپنا وہ خط پاکر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جو میں نے انھیں سب سے پہلے رام پور سے لکھا تھا۔ اس میں رسمی خیریت کے چند جملے تھے، لیکن اسے انھوں نے کتنی محبت سے محفوظ کر رکھا تھا۔ انہی کی ڈالی ہوئی عادت ہے کہ میں آج بھی اپنے تمام کاغذات چھوٹی بڑی فائلوں میں سلیقے سے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اپنے بچپن کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو یادیں ہیں کہ امڈ امڈ کر سامنے آرہی ہیں اور تقاضا کر رہی ہیں کہ میرا بھی تذکرہ کرو، لیکن مصروفیات حائل ہیں اور ماہ نامہ’ جنت کے پھول‘ کی تنگ دامانی کا بھی احساس ہے۔ بہر حال مدیر محترم کا شکر یہ کہ ان کی تحریک پر یہ سطریں زینتِ قرطاس بنیں۔

تبصرے بند ہیں۔