علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ابتدائی نقوش

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا قیام 1920 میں ہوا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کی خشتِ اوّل 1875 میں رکھی گئی تھی اور اس کا نام ‘مدرسۃ العلوم مسلمانان علی گڑھ’ تجویز ہوا تھا۔ یہ محض نام کا مدرسہ نہ تھا ، بلکہ سر سید کا منصوبہ یہ تھا کہ اس میں اعلٰی دینی تعلیم اور اعلٰی عصری تعلیم ، دونوں کو جمع کیا جائے گا۔ سر سید نے اپنی تحریروں میں اس کا خاکہ تفصیل سے پیش کیا تھا۔ افسوس کہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا اور بعد میں وہ عصری تعلیم کا ادارہ بن کر رہ گیا۔ دو سال کے بعد اس مدرسے کا نام ‘محمڈن اینگلو اورینٹل کالج’ ہوگیا اور آگے چل کر یہی اس کی شناخت بن گیا۔

پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی ، سابق صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز ، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے مسلم یونی ورسٹی کی دینی شناخت کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ یوں تو ان کا اختصاص تاریخِ ہند کا عہدِ سلطنت ہے۔ قرآنیات پر بھی ان کی متعدد تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ وہ عالمی شہرت کے شش ماہی مجلہ علوم القرآن علی گڑھ کے شریک مدیر ہیں۔ لیکن علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ابتدائی تاریخ سے بھی انہیں خصوصی دل چسپی ہے۔ اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں طبع ہوچکی ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف ‘مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا قیام اور اس کے اوّلین نقوش’ اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔

یہ کتاب سات (7)مضامین پر مشتمل ہے۔ پہلے مضمون میں سر سید کے تصوّرِ تعلیم و تربیت پر بہت تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ایک مضمون میں یہ بحث کی گئی ہے کہ تعلیمی ادارہ قائم کرنے کے لیے علی گڑھ کا انتخاب کن وجوہ سے کیا گیا؟ دیگر مضامین میں مدرسۃ العلوم کی ابتدائی عہد کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بہ طور ضمیمہ مدرسۃ العلوم کے اولین ممبران انتظامی و تعلیمی کمیٹی کی فہرست درج کی گئی ہے۔

اس کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ان مضامین کی فہرست بھی شامل کردی ہے جو انھوں نے سرسید اور ان کے رفقاء اور مدرسۃ العلوم اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے بارے میں لکھے ہیں اور وہ مختلف مجلات میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کی تعداد 39 ہے۔

تبصرے بند ہیں۔