کودرا: شیعہ سُنّی مفاہمہ پر ایک تقلیب انگیز روداد

عالم نقوی

یہ مفکر جلیل راشد شاز کی تازہ ترین کتاب (مطبوعہ ۲۰۱۸) کا نام ہےجو افغان نژاد امریکی شہری  تمیم انصاری کی کتاب ’ڈِسٹِنی ڈِسرَپٹِڈ‘(۲۰۰۹) جسے محمد ذکی کرمانی نے ’قافلہ کیوں لُٹا ‘ کے نام سے ۲۰۱۷ میں اردو کا جامہ پہنایا ہے اور مفکرِ عصر، عالم و دانشور اَسرار عالَم کی کتاب ’اُمّت کا بحران ‘(۲۰۰۶)کے بعدقرآن فہمی اور ’حبل اللہ ا لمتین ‘ سے غیر مشروط وابستگی  کے موضوع پر  ایک اور  فکر انگیز کتاب ہےجسے ہر اُس مسلمان کو پڑھنا چاہئیے جو اپنا شمار۔ ۔ ’’من الذین فرقوا دینھم و کانو شیعاً۔ کل حزب مما لدیھم فرحون(عنکبوت ۶۹)اور  قرآن کو مہجور بنا دینے والے اُمتیوں۔ ۔ وقال الرسول یٰرب ان قومی ا تخذوا ھٰذ ا لقرآن مھجوراً(فرقان۔ ۳۰) میں نہیں کرانا چاہتا !

متعدد غیر معمولی علمی، تحقیقی و تاریخی کتابوں کے مصنف راشد شاز کی سابقہ تصنیف ’لستم پوخ‘ کی طرح’ کودرا ‘کی ظاہری ہیئت بھی ایک سفر نامے کی ہے۔ کتاب کے اوپر ہی نام کے نیچے درج ہے: ’پارسی فال کے اساطیری قلعے میں گیارہ دن‘۔

متن کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قدیم  پُر ہَیبت اور پُر شِکُوہ قلعہ مشرقی یورپ کے خطہ بلقان میں ’دراوا‘ ندی کے کنارے کسی مقام پر صدیوں سے سراُٹھائے کھڑا ہےلیکن کہاں؟ یہ پتہ نہیں چلتا۔ شیخ گوگل بھی اس سلسلے میں  ہماری کوئی مدد نہ کر سکے۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ ’دراوا  ‘ ندی یورپ کے مشہور دریائے ’ڈینیوب ‘ کی سب سے بڑی معاون ندی ہے جو ۷۲۵ کلو میٹر طویل  ہے اورمشرقی یورپ کے  پانچ ملکوں  آسٹریا، کروشیا، ہنگری، سربیا (بوسنیا۔ ہرزے گووینا، کوسوفا) اور سلو وینیا کو سیراب کرتی   ہے۔ بس اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ ’پارسی فال ‘ کا  یہ ’اساطیری  قلعہ‘ بوسنیا، کروشیا یا سلو وینیا کے جنگلوں میں دراوا ندی کے کنارے کہیں واقع ہے۔

 کتاب کا نام بنیادی کردار ’علی کودرا‘  سے مستعار ہے جو مصنف ہی کی طرح ایک محقق دانشور عالِم ہیں اورخطہ بلقان کے مشہور مسلم کودرا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ البانیہ کے معروف پینٹر ابراہیم کودرا (۱۹۱۸۔ ۲۰۰۶)کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا جو علی کودرا کے بقول پکاسو سے بڑے پینٹر تھے۔ ہم یہاں خود کچھ لکھنے کے بجائے کتاب کے صفحہ ۱ٹھارہ انیس سے ایک اقتباس درج کرتے ہیں جس سے  ’’کتاب کے ’تھیم ‘کی تفہیم ‘‘بہت آسان ہو جاتی ہے:

’’۔ ۔ جب پکاسو شہرت کے بام عروج پر تھا، اُس کی عمر ڈھل چکی تھی، اُس وقت ابراہیم کودرا کے برش نے روم اور میلان (اٹلی) کے آرٹ ایگزی بیشنز میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ اُس نے پکاسو، ڈوفی، ڈالی، اور مِٹّا جیسے فنکاروں کے ساتھ دسیوں اجتماعی نمائشیں منعقد کیں۔ پھر نہ جانے کیا بات ہے کہ تمام اعزازات و اکرام کے باوجود ابراہیم، کودرا کی شہرت صرف  ایک البانی آرٹسٹ ہی کی رہی اور پکاسو جدید دنیائے فن کا امام بن گیا !۔ ۔ (دراصل ) یہ کسی کودرا کی توہین نہیں۔ ۔ بلکہ اس کا تعلق اس اُمّت کی بے توقیری سے ہے جس کے لعل و گہر، جس کی قیمتی صلاحیتیں اقوام عالم کی نگاہوں میں آج کوئی وزن نہیں رکھتیں۔ ابراہیم کودرا کو چھوڑئیے، آپ ابن بطوطہ اور ابن جبیر جیسے مہم جو سیاحوں سے واقف ہوں گے اور علوم ا لبحر پر عہد وسطیٰ کی اتھارٹی ابن ماجد کی انسائکلو پیڈک نوعیت کی کتابیں بھی شاید آپ کی نگاہوں سے گزری ہوں گی اور یقیناً آپ مارکو پولو کی سیاحی اور واسکوڈی گاما کے بحری سفر سے بھی واقف ہوں گے۔ (اگر چہ)۔ کہاں ابن بطوطہ اور کہاں مارکو پولو، کہاں ابن ماجد جیسا تجربہ کار سیاح اور کہاں واسکوڈی گاما اور کولمبس جیسا مسکین سا مسافر ! لیکن ان مغربیوں کی بے حیائی(اور ڈھٹائی)  کی داد دیجیے کہ وہ ابن بطوطہ کو ’عالَمِ عرب کا مارکو پولو ‘ کہتے ہیں اور ابن ماجد کو ’مشرق کا کولمبس ‘ گردانتے ہیں !

 اگر ان میں ذرا بھی انصاف کی خو بو ہوتی تو وہ مارکو پولو کو ’یورپ کا ابن بطوطہ ‘ اور کولمبس کو ’یورپ کا ابن ماجد ‘ بتانے میں فخر محسوس کرتے۔

لیکن کیا کیجے کہ جب کسی قوم کا مِلّی وَجود خود اُس کے اپنے اَندر منہدم ہو جاتا ہے تو ایک عمومی بے توقیری اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ (اگر) وہ عزت نفس، وہ غیرت، اپنے آپ میں ہونے کا وہ عمل بلکہ کہہ لیجیے کہ ’عرفانِ ذات ‘ اگر نہ ہو اور فرد اپنے آپ کو دوسروں کے عکس میں دیکھنے کا عادی ہو جائے تو پھر اسے اپنی اصل حیثیت کا احساس  ہی نہیں رہتا۔ ‘‘

مصنف نے شروع ہی میں لکھ دیا ہے کہ ’’اے گرفتارِ اَبو بکر و علی ہشیار باش ! اِس بیانیہ (یعنی کتاب ’کودرا‘) کا راوی نہ تو سُنّی مؤقف کا ترجمان ہے اور نہ ہی شیعہ نقطہ نظر کا وکیل (ص۶)‘‘۔ ’’روایات کی تمام سنی کتابوں میں نہ صرف یہ کہ شیعہ مؤقف کی حدیثیں موجود ہیں بلکہ شیعہ راویوں پر اعتماد کیے بغیر محدّثین کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ کوئی ایسی سُنّیت جو شیعہ مداخلت سے ماورا ہو، اُس کا وجود نہیں پایا جاتا۔ دوسری طرف۔ کتب اربعہ، نہج ا لبلاغہ اور تفسیر و تعبیر کے شیعہ لٹریچر میں حضرت علی اور دوسرے ائمہ خاص طور پر امام  محمد باقر اور اما م جعفر صادق  سے بکثرت ایسے اقوال منقول ہیں جو۔ ۔ ہاشمی و اموی خاندانوں میں خوشگوار تعلقات اور۔ ۔ باہمی رشتہ داریوں پر شواہد فراہم کرتی ہیں (ص ۲۳۲)۔

(در اصل ) شیعہ اور سُنّی دونوں فرقے۔ ۔ ’تراشیدہ  تاریخی واقعات ‘کے اسیر ہیں۔ ان کے سحر سے دونوں کو نجات دلائے (بغیر اب کچھ نہیں ہونے والا )۔  تاریخ و تعبیر کی کتابوں میں گمراہ کن بیانات اس طرح سمو دیے گئے (ہیں )گویا یہ مذہبی کتابیں نہ ہوں، بارود بھرے ہوئے خود کش اسلحے ہوں۔ جب تک دونوں فرقے زہریلے بیانات کو اپنے مذہبی ڈسکورس سے خارج نہیں کرتے اور جب تک اللہ کی نازل کردہ کتاب (قرآن ) متبعین محمدﷺ کے لیے واحد حوالہ نہیں بنتی (ص۲۳۹)‘‘۔  امت مقہوری و  مظلومی اور ذلت و بے توقیری  کے  موجودہ گرداب ِ شر سے باہر نہیں آسکتی۔ فھل من مدکر؟

تبصرے بند ہیں۔