بچوں کی نفسیات اور والدین اور اساتذہ کا کردار

قمر فلاحی

بچوں کی نفسیات سے مراد بچوں کی فطرتیں ہیں جو ان میں پیدائشی طور پر پائ جاتی ہیں، یہ فطرتیں قدرت کی عکاس ہوتی ہیں، جنہیں تبدیل کرنے کےبجائے صحیح سمت دینے کی ضرورت  ہوتی ہے، کل مولود یولد علی الفطرۃ میں بھی اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خواہ  امیرو  غریب، مسلمان و کافر، یہود و نصاری، آتش پرست یا مجوسی جس گھرانے میں  بھی پیدا ہوں  ان تمام کی فطرت یکساں ہوتی ہے،ہر ایک میں وحدت الہہ کےماننے کا عنصر موجزن ہوتاہے جسے  والدین، معاشرہ، اور قرب وجوار کے افراد اپنی کالی کرتوتوں کی کالی سیاہی لگاکر پراگندہ کر دیتے ہیں۔ ایک مرحلہ تک بچہ اس سے جنگ کرتا رہتاہے مگر جب اپنا مددگار کسی کو نہیں پاتا تو بودی چھری بن جاتا ہے، حالات سے سمجھوتا کرلیتاہےاور ناسمجھ لوگ ایسوں کو بد اخلاق بد دین اور بد کردار کا نام دیکر گزر جاتے ہیں۔

آپ دیکھتے ہیں کہ یہی بد اخلاق و بدکردار کہلانے والے جوفطرت کے خلاف کوئ منظر اپنے سامنے ہوتا ہوتا ہوا دیکھتا ہے مثلا کسی  کو آگ میں جھلستا اور پانی میں غرق ہوتا دیکھتا ہے تو کسی مولوی و ملا سے فتوی پوچھے بغیر اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دیتاہے اور اپنی جیسی ایک مخلوق کو بچا لیتاہے یہ اس کی فطرت میں موجود مادہ رحم ہے  جسے اللہ نے اول روز سے ڈال  رکھا ہے۔

عام بول چال میں کئ جملے بچوں سے متعلق بولے جاتے ہیں مثلا بچے پھول کی طرح ہیں، کلی کی طرح نازک ہیں، کھلی کتاب ہیں، کورا کاغذ ہیں، گیلی مٹی اور گوندے ہوئے آٹے کی طرح ہیں، یہ سارے جملے بچوں کی تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بنائو یا بگاڑ میں بچوں کا قصور ہر گز نہیں  ہوتا بلکہ قصور انکا ہوتا ہے جو انہیں برتتے  ہیں  یا جن کے زیر اثر یہ بچے ہوتے ہیں۔

قرآن مجید میں مال اور اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے، یہ ایک لطیف اشارہ ہے جو بچوں کو مال کے بالمقابل لاکر کیا گیا ہے بچے کیا ہیں اسے سمجھنے کے لیے انسان کو مال کے متعلق غور کرنا چاہیے جس میں کئی پہلوہیں :

مال کی طلب ہر ایک کو ہوتی ہے، اور یہ طلب بڑھاپے میں بڑھ جاتی ہے،مال دنیاوی زیینت ہے، مال خرچ کرنے کا جذبہ کم پایا جاتا ہے اور مال ایک طاقت ہے جسے اپنی دفاع میں خرچ کیا جاتاہے۔ بس یہی کچھ اوصاف بچوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہم جس قدر غور کریں گے یہ مماثلت قائم ہوتی جائے گی۔

ہر کسی کو صاحب اولاد ہونے کی تمنا ہوتی ہے، ایک اولاد پہ کوئی قانع نہیں ہوتا،بڑھاپے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ان کے پاس رہیں اور زیادہ تعداد میں رہیں، مال کی طرح انہیں بچوں کو برتنے اور اس پہ حکم چلانے کا اختیار ہو کوئی ان سے یہ نہ کہے کہ یہ مال آپ کا نہیں ہے۔جن کی اولاد نہیں وہ اپنی لاولدی فخر سے نہیں بیان کرتے، اور اپنے بچوں کو عموما سماجی کاموں میں نہیں لگاتے۔ یہ سارے امور فتنہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو اسلامی ہدایات کے خلا ف جاتے ہیں۔ چنانچہ مال کے فتنہ سے بچنے کا استعمال اس کاجائز استعمال ہے، صدقات و خیرات اور زکوٰۃ میں اسے صرف کرنا ہے،اہل خانہ کی جائز ضروریات پہ اسے صرف کرنا ہے اور مال تو صرف اسے کہا گیا ہے جسے کھا لیا پہن لیا یا اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔اسی طرح اولاد کے فتنہ سے بچنے کا ذریعہ اس کی مناسب تربیت کرنا، اس کے لیے اچھے دوست مہیا کرانا، اچھے استاد اور مربی کا انتخاب کرنا،مناسب ادارہ میں داخلہ کرانا،اور اچھے اطوار سکھاناہے۔ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ”اولاد وہ کتاب ہے جسے لکھتے تم ہو اور پڑھ کر تمہاری اولاد سناتی ہے "

بچوں کی صحیح سمت میں تربیت کیلئے کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، اور اس کے لئے بنیادی شرط بچوں سے قربت ہے اور اس قربت کے ساتھ ساتھ ان سے بے پناہ لگائو بھی ہے۔ آئیے ہم بچوں کی چند نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں :

1۔ پٹنہ میں میرے ایک فلاحی دوست ہیں ان کی گود میں بچیوں کا کھیلنا اور شمع کی طرح اپنے والد کے گرد چکر لگانا اگر دیکھنا ہو تو ان کے گھر میں دیکھا جاسکتاہے، لوگ کہتے ہیں کہ بچے اپنی ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں یہ غلط ہے، ماں سے قربت کی وجہ والد کی محبت سے محرومی ہوتی  ہے، جب والدیہ محبت دینے کو تیار ہوجائے تو بچے قطعی یہ فرق نہیں سمجھتے ہیں، یہ ہمارے ذہنوں کا فطور ہے۔ بچے آئے دن یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ابو ہمارے لیے مٹھائیاں لاتے ہیں، کپڑے اور کھلونے لاتے ہیں، ہماری ساری ضروریات پوری کرتے ہیں لہذا وہ ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں  خود چند گھنٹوں کیلئے جب اپنے بچوں سے دور ہوتا ہوں تو بچے میری کمی کا تذکرہ اپنی ماں سے بار بار کرتے ہیں اور جب اپنے دروازے کے قریب آتاہوں تو والہانہ استقبا ل کرتے ہیں اور ایسا احساس دلاتے ہیں کہ آپ بہت دنوں سے ہم سے دور رہے ہیں۔

میں عرض کر رہا تھاکہ پٹنہ کے اس فلاحی دوست نے اپنی چار پانچ سال کی بچی کی فراک سرکاکر یہ پوچھا کہ آپ نے اندر کپڑا پہن رکھا ہے ؟اس پہ بلا تاخیر اس پیاری سی معصوم سی بچی نے جو جواب دیا وہ قابل غور ہے بچی نے جواب دیا”کیا آپ یہ بات اپنی زبان سے نہیں پوچھ سکتے تھے، کیا اس کے لیے کپڑا سرکا نا ضروری تھا؟” یہ چھوٹے سے جملہ میں بچوں کی ایک خاص نفسیات پوشیدہ ہے کہ بچے بھی شرم کا پتلا ہوا کرتے ہیں جنہیں ہم والدین بے پردگی سکھا دیتے ہیں۔

2۔  المنار ایجو کیئر ارریہ کے ایک مہذب اور منکسر المزاج استاد قاری اطہر صاحب ایک دفعہ اپنے بچے کو نصیحت کر رہے تھے کہ بابو پڑھنا لکھنا چاہیے، شرارت نہیں کرنی چاہیے وغیرہ۔۔۔ اور اس جملہ کو کئ دفعہ دہرادیا  تو اس پہ وہ بچہ گویا ہوا کہ” ابو زیادہ تیز مت بولیے نہیں تو عبداللہ [اس کا چھوٹا بھائ ]جگ جائے گا۔” یہاں بچہ اپنے جملے سے یہ سگنل دے رہا ہے ایک ہی بات کو بار بار نا دہرائیں میں سمجھ چکا جو آپ کہنا چاہتے ہیں۔ ایک ہی بات کو باربار دہرانے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔اور یہاں میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بچے اس عمر میں باتوں کو مان کر دینے والے نہیں  ہوتے، یہ انکے شوخی کرنے کی عمر ہے اگر آپ کوئ بات منوانا چاہتے ہیں تو انہیں ساتھ لیکر بیٹھیں وہ سارا کام کریں گے۔

3۔ الحراء بپلک اسکول سلطان گنج پٹنہ کی بات ہے میں سیڑھیوں سے اوپر جارہا تھا اور ایک چار پانچ سال کا بچہ نیچے اتر رہا تھا اس کے جوتے کا تسمہ کھلا ہوا تھا جو اسے تکلیف دے رہا تھا، جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا بلا جھجک بول اٹھا سر ذرا میرا فیتا باندھ دیجئے نا اور میں نے بلا جھجھک ایسا کردیا۔ یہ بچوں کی وہ نفسیات ہے جس میں بچہ اپنے علاوہ تمام لوگوں کو اپنا خادم سمجھتا ہے اور ہر ایک سے خدمت لینا اپنا بنیادی حق خیال کرتاہے، یہ فطرت اللہ تعالی نے اس لیے  ان کے اندر رکھی ہے تاکہ محتاجی کے وقت وہ پریشان ہونے کے بجائے اپنے ارد گرد موجود افراد سے اپنی حاجت دور کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ڈانٹ ڈپٹ کرکے یہ فطرت دبائی نہ گئ ہو تو بچہ ہر مانوس و غیر مانوس سے مدد لینا چاہتا ہے اور اگر انہیں ڈانٹا دبایا گیا ہو وہ تو اپنی مصیبتوں میں جوجھتا رہتاہے مگر اظہار نہیں کر پاتاہے، یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ بچے کپڑے میں پیشاب پاخانہ کرڈالتے ہیں اور کسی کو اس خوف سے نہیں بتاتے کہ لوگ انہیں ڈانٹیں گے۔لہذا بچوں کو کھلنے کا کا موقعہ فراہم کریں انہیں دوست بنائیں۔

4۔ چیزوں کے نقصان ہوجانے کے بعد بچے اکثر جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ سچ بولنے پہ مار پڑیگی،ایسے موقعوں پہ بچوں کو یہ بتایا جائے کہ آپ سچ بولیں آپ کو کوئ سزا نہ ہوگی، یہ آپ نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا ہے نا، غلطی تو ہم لوگوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ اس طرح ان میں سچ بولنے کا جذبہ اجاگر ہوگا جو خوف کی وجہ سے دن بدن کمزور ہوجاتا ہے اور ایک نا ایک دن فوت ہی ہوجاتا ہے۔

5۔ بچے عام طور پر باہر کے بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں، اپنے گھر کے اندر خواہ جس تعداد میں بچے ہوں ان کے ساتھ وہ مطمئن نہیں ہوتے، یہ بچوں کے اندر سوشل ہونے کی صفت ہے جو ان میں موجزن ہے، انسان کی فطرت انفرادیت کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا بھی خوگر ہے جہاں جاکر وہ اپنی صلاحیتوں کا موازنا کر پاتاہے اور مسابقتی جذبہ پیدا کرتاہے، ان بچوں کے درمیان غیر محسوس طریقےسے یا تو وہ اپنے آپ کو لیڈر بنا لیتا ہے یا پھر اچھا پیرو کار، یہ چیز انہیں معاشرہ کا عنصر بننے میں معاون بناتی ہے اور حیوانی صفت سے ممیز کرتی ہے۔ بس والدین گارجین اور اساتذہ کا م یہ ہیکہ بچوں کو ان کا دوست چننے میں مدد کریں اور اچھی اور بری صحبت کا فرق بتائیں۔

6۔ بازار میلے اور سڑک پہ چلتے وقت ہوشیار بچے اپنے والدین کا باربار ہاتھ چھوڑ کر الگ ہوکر چلنا چاہتے ہیں۔ یہ بچوں کی بلند پروازی کی صفت ہے وہ چاہتے ہیں کہ والدین کی موجودگی میں وہ اپنے پائوں پہ کھڑا ہونا سیکھ لیں، انہیں ایسا کرنے دیں اور نگرانی قائم رکھیں، گھروں میں بچے اپنے والدین کی چیزیں استعمال کرنا چاہتے ہیں عینک لگالیتے ہیں، کوٹ پہن لیتے ہیں، ٹوپی لگا لیتے ہیں، اسکول میں استاد کی کرسی پہ بیٹھ جاتے ہیں، چھڑی اٹھاکر بچوں کوپڑھانا شروع کردیتے ہیں، یہ بچوں کےاچھے اوصاف ہیں، وہ مستقل کو دور بین سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کل میں بھی اسی مقام پہ ہوں گا۔

7۔ پڑھنے سے کترانا،بلوغت سے قبل بچے  اکثرپڑھنے سے کتراتے ہیں، کیوں کہ  یہ عمر پڑھنے کی کم سیکھنے کی زیادہ ہوتی ہے، دس سال کے بعد نماز کیلئے کہا گیا ہے اس میں باریک اشارہ یہ ہیکہ اس عمر میں بچو ں میں شعور بیدار ہونے لگتاہے اور نماز شعور کے ساتھ پڑھنے کی چیز ہے۔ماہر تعلیم نے چھ سال تک بچوں کو اپنے گھر پہ رکھنے کو کہا ہے تاکہ بچوں کو سکھایا جائے نہ کہ پڑھایا جائے۔اکثر ہم بڑوں کے درمیان جب ہوتے ہیں تو بچوں کو اپنے سے دور کر دیتے ہیں جبکہ بچے کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے والد والدہ کی گود میں سر رکھ کر غور سے سن سکے کہ ہم کیابول رہے ہیں اور کیسے بول رہے ہیں، چونکہ اکثر ہمارا معاملہ غیر اسلامی طرز کاہوتا ہے اس لیے ہم انہیں خود سے دور کرتے ہیں، جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں تاکہ ہماری گفت شنید کا انداز سمجھ سکیں۔ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اور ام امامہ اپنے نانا  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد جایا کرتے تھے اور نمازیوں کے درمیان  ہوا کرتے تھے۔یہ بغیر کتاب کے تعلیم ہے جو ہم دے رہے ہوتے ہیں مگر ہم اسے محسوس نہیں کرتے۔

8۔  تجسس کی  صفت  پید ا ہونا۔ ہم بچوں کو اپنے دور کرکے ٹی وی  دیکھتے ہیں، اس سے بچوں میں یہ تجسس کی بری صفت پیدا ہوتی ہے کہ آخر وہ کونسی چیز ہے جو ممی پاپا تنہائ میں دیکھتے ہیں جسے ہم نہیں دیکھ سکتے لہذا موقع پاکر اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ صفت بچوں میں پروان نہیں  چڑھنے  دینا  چاہیے ورنہ بچے ہمارے تعلق سے غلط رائے قائم کرتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم معلم تھے مدرس نہیں یہ فرق ہمیں ہمیشہ اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ بچوں کو مدرس کے ساتھ ساتھ ایک معلم کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو والدین سے بہتر اور کوئ نہیں ہوسکتے۔

9۔  بچوں میں فیاضی پائی  جاتی ہے، وہ ملکر بانٹ کر کھانے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں جتنی بھی رقم دی جائے اسے وہ ایک دن میں خرچ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ ہماری ضرورت پوری کرنے والا موجود ہے۔ ہمارے والدین کے ذمہ ہے ہماری ضرورت پوری کرنا۔ یہ بچوں کو مثبت فکر ہوتی ہے جسے ہم بچپن سے  ہی متاثر کرتے ہیں، انہیں کلہڑ[پیسہ جمع کرنے والا ڈبہ] لاکر دیتے ہیں، عید کے لیے پیسے جمع کرنے عادت ڈلواتے ہیں، اس طرح بچے بخیل ہوتے جاتے ہیں اور پیسوں سے محبت بڑھتی جاتی ہے، ہم دسترخوان پہ ہر ایک بچے کا الگ الگ حصہ لگاتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اجتماعیت کی صفت سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ ہمیں خود سے کوئ چیز تقسیم کرکے دینے کے بجائے بچوں سے تقسیم کروانی چاہیے۔ بچوں کے ہاتھ سے فقراء کو تعاون کروانا چاہیے، مسجدوں میں رقم بچوں کے ہاتھ سے دینے چاہیے۔ رشتہ داروں کے ہاں بچوں کے ہاتھ سے سامان پہونچانے چاہیے تاکہ بچے غیر محسوس طریقے سے ان چیزوں کو سیکھ سکیں اور اس کے عادی ہو سکیں۔

تبصرے بند ہیں۔