کلاس میں ڈجیٹل تصاویر اور مجسموں کا استعمال

محمد صابر حسین ندوی

عصر حاضر میں تعلیمی ترقی و ترویج نے نت نئے طور وطریقے مروج کردئے ہیں، علم کی صنفوں میں لاتعداد اضافوں نے ایک طرف جہاں دشواری پیدا کی ہے تو وہیں زیادہ سے زیادہ تحقیق و تفتیش کا موقع بھی فراہم کیا ہے، بالخصوص جدید ٹکنالاجی کی ایجادات نے تما شعبوں کو نہ صرف آسان ؛بلکہ آسان تر بنادیا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عموما جدید اسلوب کی برآمدات مغرب ویوروپین کی جانب سے ہوئی ہیں، جو نہ صرف اسلام کے دشمن ہیں ؛بلکہ نسل انسانی کیلئے بھی خطرناک منصوبوں اور ہلاکت خیز لائحہ عمل کے روادار ہیں، ان کی فیکٹری سے نکلا ہوا ہر سامان منفعت سے زیادہ مضرت کا پہلو لئے ہوتا ہے، چنانچہ آج نصاب تعلیم میں ابتدائی درجہ کے بچوں کیلئے ایسی کتابیں- جن میں جانوروں کی تصاویر اور اعضاء انسانی کی تصویر ہوتی ہیں –نصاب میں شامل کی جاتی ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیمی مقاصد کے لئے کسی چیز پر نقش کئے بغیر ڈیجیٹل تصویر کے ذریعہ کام لیا جاسکتا ہے ؟اسی طرح آج کل ابتدائی درجات کے بچوں پلاسٹک یا لکڑی کے مجسمے –جو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں _کلاسوں میں رکھے جاتے ہیں ؛تاکہ بچے جانوروں کے نام پڑھتے ہی ان کے مجسمے بھی دیکھ لیں، اس کو جدید طریقہ تعلیم میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے، کیا یہ مجسمے کلاسوں میں مہیا کرنا جائز ہوگا؟

دراصل طریقہ تعلیم میں ہر زمانے کے اعتبار سے تبدیلی آتی رہتی ہے، کسی زمانے میں صرف قوت بینائی اور قوت سماعت پر اکتفا کرنا پڑتا تھا، یا امالی کی صورت میں تعلیمی مراحل طے کئے جاتے تھے، جس میں شیخ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی، پھر وہ وقت بھی آیا جب درس و تدریس کا بہتر نمونہ اختیار کیا گیا، کلاسیں، نصاب اور ماحول کا بندو بست کیا گیا، چھلکے، ہڈیوں، سے کاغذ اور مصنوعی قلم سے ہائی ٹیک قلم تک کا رواج پروان پایا، اصل بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اصلاً کوشش یہ ہوتی ہے؛ کہ طلبہ بالخصوص نو عمر کیلئے قریب الفہم اور آسان سے آسان تر طریقہ اختیار کیاجائے، اور ہر مضمون کو بچوں کے دماغ میں نہ صرف بٹھادیا جائے، بلکہ اسے سمجھا دیا جائے، وہ شرح وبسط کے ساتھ تعلیم میں دلچسپی لے اور آئندہ مراحل کیلئے خود کو تیار کرے، بہت مرتبہ یہ دیکھنے میں آتا ہے ؛کہ نوخیز نسل کو وہی قدیم طرز تعلیم کی بھٹی کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ زمانہ قدیم کا وہ انداز ’’ چاک اینڈ ٹاک‘‘ ندارد ہوچکا ہے، اب اس سے آگے بڑھ کر سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، دور جدید میں تصاویر، مجسمے وغیرہ کا رواج اسی پس منظر میں ہے، اب تو ڈیجیٹل تعلیم کا بھی نظم ہے، جس کے ذریعہ تعلیم کسی حسی امر کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ عملی صورت اختیار کر لیتی ہے، ایک طرف طلبا کیلئے یہ لظف کا باعث ہوتا ہے تو دوسری طرف فہم و فہمائش میں بھی ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔

ایک مسلمان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ہر یافت و دریافت کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غور وخوض کرتا ہے، اور اس کے نزدیک صرف کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی قابل عمل قرار پاتا ہے، اگر ان میں کوئی صراحت نہ ہو تو فقہ و فتاوی جو ان سے سب سے زیئادہ قربت رکھتے ہیں انہی کو اپنا فیصل مانتے ہوئے صحیح و غلط کی تمیز کرتا ہے، چنانچہ مذکوہ صورت حال کاجائزہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کرنے اور اس پر صحیح نقطہ نظر تک پہونچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنی کم علمی و بے بضاعتی کے اعتراف کے ساتھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق فقہ اسلامی میں دو نقطہائے نظر پائے جاتے ہیں:

پہلا نقطہ نظر

یہ رائے ان حضرات کی ہے، جو تصاویر نہ بنانے کے حکم کے پیش نظر اسے نامناسب سمجھتے ہیں، کیونکہ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے، کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی خلقت کو بگاڑتے ہیں :’’اشد الناس عذاباً الذین یضاھئون بخلق اللہ‘‘(بخاری: ۵۹۵۴، مسلم:۲۱۰۷)، ابن عمر ؓ کی روایت ہیکہ آپؐ نے فرمایا کہ قیا مت کے دن تصاویر بنانے والوں کو سزا دی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا کہ ان میں جان ڈالیں، ’’ان الذین یصنعون ھذہ الصور یعذبون یوم القیامۃ یقال لھم أحیوا ماخلقتم‘‘(بخاری:۵۵۲۵، مسلم:۵۹۵۱)، مسند احمد میں ہیکہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصاویر سازی کرنے والوں کو ہوگا، ’’اشد الناس عذاباعنداللہً یوم القیامۃ المصورون‘‘ (بخاری :۵۶۰۶، مسلم:۲۱۰۹)۔

اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر سازی کرنے والوں پر لعنت بھی کی، بخاری کی ایک روایت میں ہے ’’لعن النبیؐ الواشمۃ والمستوشمۃ وآکل الربا وموکلہ ونھی عن ثمن الکلب وکسب البغی ولعن المصورین‘‘(متفق علیہ)، اور ایک شخص حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھماکے پاس آیا جو کہ مجسمہ سازی کا کام کرتا تھا اس نے اپنے کام کے متعلق فتوی چاہا، آپ ؓنے اسے اپنے قریب کیا اور اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا:میں تمہیں وہ بات بتلاونگا جو میں نے رسول اللہؐ سے سنی ہے، میں نے سنا کہ حضورؐ نے فرمایا:جو کوئی جانداروں کی تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اگر بنانا ہی ہو تو غیر جاندار کی تصویر بناؤ’’کل مصورفی النار یجعل لہ بکل صورۃ صورھا نفس تعذبہ فی جھنم فان کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر ومالا نفس لہ ‘‘(اللفظ لاحمد:بخاری:۵۹۵۳مسلم:۲۱۱۰)۔

دوسرا نقطہ نظر

یہ نقطہ نظر ان علماء کا ہے جنہوں نے مصلحت اور تعلیم وتعلم کے پیش نظر بچوں کیلئے تصویر اور مجسموں کی اجازت دی ہے، اور ان روایتوں کو بنیادبنایا ہے، جن میں مجسموں کے ذریعہ بچوں کو کھیلنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، ابوداود(۴۹۳۲) کی ایک روایت میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے پاس حیوانات کے مجسمے تھے، جیسے کہ ایک گھوڑا بازو والا تھا، ایک دفعہ جب آپ ﷺنے دیکھا تو دریافت کیا :اس کے اوپر یہ کیا ہے؟ کہنے لگیں :’’جناحان ‘‘دو پر ہیں، تو فرمایا :گھوڑے کے دو پر ’’فرس لہ جناحان ؟!‘‘توکہنے لگیں :کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان کے گھوڑے کے پر تھے ’’اما سمعت ان لسلیمان خیلاً لھا اجنحۃ ؟!، کہتی ہیں : اس پر میں نے حضورﷺ کو ہنستے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آپ ﷺکے نواجذ نظر آنے لگے ’’فضحک حتی رأیت نواجذہ‘‘۔

علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس روایت سے یہ ثابت کیا ہے کہ ؛بچوں کے کھیلنے اور ان کی تربیت کیلئے مجسمے کا استعمال اور ان کی خرید فروخت درست ہے، بلکہ اسے جمہور کا قول قرار دیا ہے’’استدل بھذاالحدیث علی جواز اتخاذصور البنات واللعب من اجل لعب بنات بھن وخص ذلک من عموم النھی عن اتخاذ الصور وبہ جزم عیاض ونقلہ عن الجمھور وانھم اجازوا بیع اللعب للبنات لتدریبھن من صغرھن علی امر بیوتھن واولادھن‘‘ (فتح الباری:۱۰؍۵۲۷)، شیخ ابن عثیمین ؒ نے علامہ ابن تیمیہ ؒکا قول نقل کیا ہے:کہ بچوں کے لئے تربیتاً تصویروں کی اجازت ہے لیکن بڑوں کیلئے مکمل انسان کی تصویر درست نہیں بلکہ اس کا چہرہ مسخ کرنا ضروری ہے، ’’انہ یرخص للصغار مالا یرخص للکبار لان طبیعۃ الصغار اللھو ولھذا تجد ھذہ الصور عند البنات الصغار کالبنات الحقیقۃ کانھا ولدتھا وربما تکون وسیلۃ لھا لتربی اولادھا فی المستقبل وتجدھا تسمیھا ایضاً:ھذہ فلانہ وحزہ فلانہ فقد یقول قائل :انہ یرخص لھا فیھا۔ یعنی:الالعاب التی ھی دقیقۃ التصویر وعلی صورۃ الانسان تماما ً فانا أتوقف فی تحریمھا ولایمکن التخلص من الشبھۃ بان یطمس وجھھا‘‘(الشرح المتمتع علی زاد المستقنع:۲؍۲۰۸)۔

اسی طرح علامہ جبرینؒ سے گونگے طلبہ کو امور دین سکھلانے کیلئے تصویر کی خدمات پر سوال کیا گیا تو فرمایاجس کا ماحصل یہ ہیکہ :جولوگ سننے اور بولنے سے قاصر ہیں انہیں سمجھانے اور معلومات فراہم کرانے میں خاصا دشواری ہوتی ہے، ایسے میں تصویر کی خدمت اس راہ کو آسان بنادیتی ہے، اسی لئے اس کا استعمال درست ہے:’’یجوز ذلک للحاجۃ الماسۃ، فان الصم الیکم لا یسمعون ولاینطقون فیلاقی المعلم صعوبۃ فی افھامھم وایصال المعلومات الی اذھانھم ففیالصور المرسومۃ تقریب للمعنی ووسیلۃ الی تصویر المراد وادراک المقصود منہ کرسم القیام فی الصلاۃ وقبض الیدین علی الصدر وکتابۃ(قیام)، ورسم الرکوع وکتابۃ کلمۃ (رکوع) وھکذا بقیۃالاعمال اذاتوقف الفھم علی الرسم واستخدام الصور المرسومۃ سواء علی السبورۃ اوعلی ورقۃ ونحوذلک‘‘(الفتاوی الشرعیۃ فی المسائل الطبیۃ:۱؍۷۷، الشاملۃ)۔

پوری بحث کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ تصاویر، مجسمے اور ڈیجیٹل تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے، جو بہت زیادہ قریب الفہم بھی ہے، ساتھ ہی یہ طریقہ تدریس اور تربیت کیلئے بھی بہت مفید سمجھا گیا ہے، لہذا خیال آتا ہے کہ طریقہ تعلیم کی یہ صورت درست ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تصاویر کی حرمت لعینہ معلوم نہیں ہوتی، اگر لعینہ ہوتی تو بچوں کیلئے بطور کھلونا استعمال کرنا اور حضرت عائشہؓ کا تصاویر والے پردے کا تکیہ بنالینا درست نہ ہوتا (مسلم:۲۱۰۴)، نیز ’’الحالۃ تبیح المحظورات‘‘ (اشباہ للسیوطی:۷۷، للمصری:۹۵)یعنی ضرورت کی بنا پر بعض محظورات (جس سے شریعت نے روکا ہو)کو روا رکھا جاسکتاہے‘‘ اس صل کے تحت بھی جواز کافتوی دیا جاسکتا ہے، لیکن جیساکہ قاعدہ ہے:’’ما ابیح للضرورۃ تقدر بقدرھا‘‘(ابن عابدین: ۵؍۲۳۷، المغنی: ۹؍۱۴۵) مطلب یہ ہے کہ جو چیز حالات اور ضرورت کی بنا پر جائز قرار پائے اسے اسی کے بقدر جائز تصور کیا جائے، جتنا کہ اس کی ضرورت ہو، اس میں حد سے زیادہ بڑھ جانا درست نہیں۔ چنانچہ اس میں اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ تصاویر کا بے جا استعمال نہ ہو، اور بہتر ہیکہ مجسموں میں چہرے کا استعمال نہ کیا جائے، الا یہ کہ اشد ضرورت ہو۔ ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم

تبصرے بند ہیں۔