ابن سینا اکاڈمی: علمی ثقافتی و تہذیبی ادارہ!

عالم نقوی

بلا شبہ ابن سینا اکاڈمی ایک ایسا علمی وفنی،ثقافتی اور تہذیبی ادارہ ہےجو صرف علی گڑھ ہی  کانہیں قومی ورثہ ہے۔ جسے وطن عزیز کے ایک عبقری دانشورپروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے عہد وسطیٰ کی تاریخ طب و سائنس با لخصوص شیخ ا لرئیس ابن سینا کے مطالعے نیز  روایتی ملی  اقدارا ور قومی وراثت کے تحفظ کے لیے اٹھارہ برس قبل سن ۲۰۰۰ میں  قائم کیا تھا۔ بانی ادارہ کا یہ دعویٰ صد فی صد درست ہے کہ   یہ مقصد صرف نایاب کتابوں ، قلمی نسخوں اور نادر اشیا کی جمع آوری اور شائقین علم کے بھر پور علمی استفادے کی حد تک ہی نہیں پورا کیا جا رہا ہے بلکہ اکاڈمی میں موجودقدیم مخطوطات کی تدوین، ترجمے اور اشاعت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اٹھارہ برس کی اس مختصر مدت میں اکاڈمی تیس سے زائد کتابیں تاریخ طب، بنیادی ماخذ، مخطوطات اور دوسرے متعلقہ موضوعات پر شایع کر چکی ہے ۔ خاص طور پر ابن سینا کے ماخذ کی تلاش میں جالینوس اور قسطا بن لوقا کے مخطوطات کی تدوین، اردو ترجمے، تعارف، حواشی اورعربی متن کے ساتھ ان کی اشاعت اکاڈمی کے بنیادی مقاصد کے حصول کا نمایاں اظہار ہے۔اس سلسلے میں پانچ فارسی مخطوطات، طب فیروز شاہی، ادویہ قلبیہ، رسالہ آطریلال، رسالہ جودیہ اور اسماالادویہ، کے علاوہ سات عربی مخطوطات  رسالۃا لنبض الصغیر، رسالہ فی فرق ا لطب، رسالہ فی عناصر، رسالہ فی المزاج جالینوس، رسالہ فی نقرس قسطا بن لوقا اور عین ا لحیاۃ محمد بن یوسف ہروی  کی اشاعت تدوین و تحقیق کے عصری اصولوں کے تحت  اب تک عمل میں آچکی ہے۔

ابن سینا اکاڈمی کی شناخت نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں تاریخ طب کی لائبریری اور طب و سائنس کی تاریخ و ثقافت و وراثت کے نادر میوزیم کی حیثیت سے مستحکم ہو چکی ہے۔ یہ عالمی اعتراف نہ صرف طب یو نانی کی برادری بلکہ پورے ملک کے لیے ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔ اکاڈمی کی  لائبریری کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ تاریخ طب کی، بین ا لاقوامی اہمیت کی حامل پانچ مشہور امریکی لائبریریوں ،ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، ہسٹری آف میڈیسن ڈویژن اور  نیشنل لائبریری آف میڈیسن میری لینڈ کی جو ڈائرکٹریز ہر سال شایع ہوتی ہیں ان میں ہندستان کا نام صرف ابن سینا اکاڈمی علی گڑھ کی اسی خصوصیت کی  وجہ سے شامل ہو سکا ہے۔ پورے ایشیا سےتاریخ طب کی صرف دو  اور لائبریریوں ۔ ۔ سیریا کی انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف عرب سائنسز حلب (اَلِپّو)،اور  اسرائل کی فلپ برمن میڈیکل لائبریری ہبرو یونیورسٹی یروشلم۔ ۔ کو اس فہرست میں جگہ مل سکی ہے۔

دنیا میں ہر سال ۱۸ مئی کو ’عالمی یوم میوزیم ‘(ورلڈ میوزیم ڈے ) منایا جاتا ہے اس موقع پر پانچ سال قبل ۲۰۱۳ میں امریکہ کے  ایک مشہورٹی وی نیوز چینل سی این این (CNN )نے  اپنی ایک سروے رپورٹ میں دنیا بھر کے تاریخ طب و سائنس کے جن دس بڑے میوزیموں کے نام گنائے، اُن میں ابن سینا اکاڈمی اور اس کے  تاریخ طب کے میوزیم  کا نام بھی شامل تھا !

حکیم ظل ا لرحمن نے لکھا ہے کہ ’’مسلمانوں نے چودہ سو برس کی تاریخ میں جو مشاہیر علم و فن پیدا کیے ہیں ، اُن میں ابن سینا بہت عظیم ہیں ۔ ان کا کام کسی ایک شعبہ علم تک محدود نہیں ۔ طبی، سائنسی، سماجی اور ادبی علوم پر تقریباً ڈھائی سو کتابوں کے مصنف نے ہر فن پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں ۔ دوسرے درجے کی کوئی چیز ان کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ ارسطو اور فارابی کے بعد عام علما میں وہ تیسرے معلم ہیں ۔ انہیں خود بھی اپنی عظمت کا احساس تھا۔ وہ زندگی بھر ’مشتری ‘(خریدار )کی تلاش میں رہے لیکن زمانہ ان کی قیمت نہیں پیش کر سکا۔ وہ کہتے ہیں :

لما عظمت فلیس مصر و اسعی۔ ۔لما غلا ثمنی عنمت ا لمشتری ( یعنی جب میری منزلت بڑھی تو کوئی شہر سمائی کے قابل نہیں رہا۔ اور جب میری قیمت گراں ہوئی تو کوئی  خریدار  نہیں مل سکا )۔

اسلامی طب و فلسفہ کی اس اعلیٰ ترین شخصیت کا مشرق و مغرب دونوں جگہ یکساں احترام کیا گیا ہے۔ طب میں دس لاکھ الفاظ اور پانچ جلدوں پر مشتمل کتاب ’’القانون فی ا لطب ‘‘ طب یونانی کا سب سے بڑا ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے۔ کوئی بڑی سے بڑی مشرقی یا مغربی زبان ایسی نہیں ہے جس میں اس کا ترجمہ نہ کیا گیا ہو اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جلد اول کے انگریزی کے تین مختلف  ترجموں کے علاوہ چوتھا ترجمہ ۱۹۹۹ میں امریکہ سے شایع ہو چکا ہے۔ فن پر اپنی ماہرانہ دسترس اور اظہار کمال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ ’’اسمع جمیع و صیتی اعمل بھا۔ ۔فا لطب مجموع بنص کلامی (یعنی میری سب باتوں کو غور سے سنو اور ان پر عمل کرو۔ اس لیے کہ  طب میرے کلام کا مجموعہ ہے )  یہ محض تعلی یا بے جا تفا خر کا اظہار نہیں ۔ ان کے مرتبہ علم کے شایان ہے !

فلسفے میں کتاب ا لشفا اور کتاب ا لنجاۃ جیسی شاہکار کتا بیں ان کی یادگار ہیں ۔ ان کا شمار اسلامی فلسفے کے ادب عالیہ میں ہوتا ہے۔ پچھلے ایک ہزار برس میں کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس میں ابن سینا نظر انداز کیے گئے  ہوں یا انہیں موضوع نہ بنایا گیا ہو۔ یہاں تک کہ علما و فلاسفہ کے درمیان اپنی علمی و فنی حیثیت تسلیم کرانے کے لیے بھی ابن سینا پر کام ضروری سمجھا گیا۔ صرف ’القانون ‘ اور اس کے متعلقات پر تحقیقی کام  کرنے والوں کی تعداد دو سو پچاس سے متجاوز ہے جن میں ۷۵ تو صرف ہندستان کے فضلا و علما ہیں ۔ الہامی کتابوں کوچھوڑ کر شاید ہی کسی علم و فن کی کوئی کتاب اس قدر توجہ کا مرکز بنی ہو اور اصحاب علم کی اس قدر کثیر تعداد کی کاوشیں  اس کے مطالعے پر صرف ہوئی ہوں !۔

ابن سینا اکاڈمی کی با قاعدہ رسم  افتتاح  اس کے قیام کے ایک برس بعد۲۰ اپریل ۲۰۰۱ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےوائس چانسلر محمد حامد انصاری نے انجام دی تھی جو بعد میں دس سال تک  ملک کے نائب صدر جمہوریہ رہے۔ اکاڈمی میں جو  بیش قیمت علمی، فنی، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی خزانہ محفوظ ہے وہ اس سرمایے پر مشتمل ہے جو اس کے بانی حکیم سید ظل ا لرحمن ۱۹۶۰ سے مسلسل جمع کرتے آرہے ہیں ۔نہ صرف ہندستان بلکہ وسط ایشیا، ایران، ترکی، پاکستان، عرب ممالک، یورپ اور امریکہ سے طب، تاریخ طب اور قرون ِوُسطیٰ کی طب و حکمت اور سائنس کی جتنی اہم کتابیں شایع ہوئی ہیں انہیں بڑے جتن سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس وقت چوبیس ہزار سے زائد کتابیں ، بارہ ہزار سے زائد رسالے، اورقریب ایک ہزار قدیم مخطوطات اکادمی میں موجود ہیں ۔ طب، تاریخ طب و سائنس، علم ا لا دویہ اور’سینیات ‘یعنی شیخ ا لرئیس بو علی سینا سے متعلق کتابوں کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، سرسید، اردو ادب اور غالب و مطالعہ غالب کے علاحدہ شعبے قائم ہیں ۔

ابن سینا اکاڈمی کی دو اہم  خصوصیات اور  ہیں ۔ایک یہ  کہ سر سید اور مسلم یونیورسٹی پر جتنا اور  جس  مخصوص نوعیت کا مواد یہاں موجود ہے خود یونیورسٹی کی لائبریریوں اور میو زیموں  میں بھی نہیں ہے اسی طرح غالب پر جو سرمایہ ابن سینا اکاڈمی کے پاس ہے وہ غالب سے موسوم ہندستان و پاکستان وایران کے کسی  نجی یا سرکاری ادارے  کو بھی  میسرنہیں ۔

 ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے مشہور شاعر  سید امین اشرف مرحوم پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’وہ (مسلم)یونیورسٹی(اور علی گڑھ ) کے تہذیبی زوال اور ثقافتی انحطاط پر کف افسوس ملتے لیکن یہاں کے ادبی ماحول کی ستائش بھی کرتے کہ سر سید نے ایک ایسا علمی شہر بسایا ہے کہ جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ ابن سینا اکاڈمی کے گُن گاتے کہ حکیم ظل ا لرحمن نے ایک ایسا شجر علم لگایا ہے کہ جس کی تابانی سے ایک عالَم منور ہے۔ اور دن بدن یہ تابانی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ۔‘‘

مآخذات (۱) یادگاری مجلہ۔ عالمی سیمینار۔ ابن سینا حیات اور علمی کارنامے ۲۰۱۴پیش لفظ ص ۴۔۳(۲)سوینئر، نیشنل ورکشاپ طب یونانی میں اعلیٰ تعلیم، اصول تحقیق اور مطالعہ مخطوطات۔۲۰۱۰پیش لفظ (۳) دانش آرٹس فیکلٹی جرنل ۲۰۱۴ خصوصی شمارہ ص ۲۹۱۔

تبصرے بند ہیں۔