آج کے زوال پذیر معاشرہ میں اساتذہ کی ذمہ داری

کامران غنی صبا

کچھ روز قبل کشمیر سے ایک دوست کا فون آیا۔ وہ وہاں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ بہت باصلاحیت نوجوان ہیں۔ بچوں کے ساتھ جذباتی لگائو رکھتے ہیں۔ فون پر ان کی آواز میں رقت تھی۔ کہنے لگے ’’کامران بھائی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں، اسی لیے آپ کو فون کیا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا کہ اگرمجھ سے بات کر کے آپ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے تو میری خوش نصیبی ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جس اسکول میں ٹیچر ہیں وہاں کے ایک غریب بچے پر وہ بہت زمانے سے خصوصی توجہ دیتے آ رہے تھے، اس امید پر کہ شاید وہ بچہ ان کی توجہ سے ایک بہتر انسان بن سکے لیکن وہ بچہ پابندی سے اسکول نہیں آتا تھا۔ اس کے گھر والے بھی پڑھانے لکھانے کا شوق نہیں رکھتے تھے۔ اتفاق سے ٹھیک امتحان شروع ہوتے ہی وہ بچہ اسکول میں نظر آگیا۔ انہوں نے دوسرے بچوں کی طرح اسے امتحان میں شامل ہونے سے روک دیا۔ بچہ گھر گیا اور اپنے باپ سے اس نے شکایت کر دی کہ مجھے اسکول سے چلا دیا گیا ہے۔ بس پھر کیا تھا، بچے کا باپ، بیچارے استاد پر ہی چڑھ دوڑا اور لگے ہاتھ گالیاں تک دے ڈالیں۔ اتنی داستان سناتے سناتے میرے دوست کی آواز بالکل روہانسی ہو گئی۔ کہنے لگے کہ میں نے بچے کے باپ کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ میں بچے سے ہمدردی رکھتا ہوں، اس کی بہتری کے لیے کبھی کبھار ہلکی پھلکی سرزنش بھی کر دیتا ہوں لیکن بچے کا باپ تو کچھ سننے کا روادار ہی نہیں تھا۔ الٹا مجھے ہی سمجھانے لگا کہ تم بچے کے باپ نہیں ہو جو اس سے ہمدردی رکھنے کا دعوی کرو۔ تم بس یہاں نوکری کرنے آئے ہو۔

 اب بالکل تازہ واقعہ سنیے۔ آج کا ہی۔ میرے ایک بہت ہی اچھے دوست ہیں۔ حد درجہ مخلص، محنتی اور قومی و ملی جذبہ رکھنے والے۔ ایک مدرسے میں معلم ہیں۔ انہوں نے میسج کیا کہ بات کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ فرصت میں ہو تو بتائیں۔ اتفاق سے میں باہر تھا اور کچھ لوگوں کے ساتھ تھا۔ میں نے جواب دیا کہ اگر کوئی خاص بات ہے تو کال کر لیجیے نہیں تو اطمینان سے رات میں ان شاء اللہ بات ہوگی۔ انہوں نے میسج میں ہی اپنی تکلیف بیان کر دی۔ عام سا مسئلہ تھا۔ مدرسے کے طلبہ نے مدرسے کے ہی ایک استاد کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ استاد محترم کا قصور بس اتنا تھا کہ وہ بچوں کو نماز کے لیے بلا رہے تھے اور بچے نماز کے وقت میں مدرسے کے گیٹ کے باہر بات چیت کر رہے تھے۔ بعد میں استاد کی شان میں گستاخی کرنے والے بچوں کی شناخت ہو گئی۔ مجھ سے میرے دوست نے سوال پوچھا کہ ان بچوں کو کیا سزا دی جانی چاہیے؟ میں نے اپنے طور پر جو مناسب سمجھا انہیں جواب دے دیا۔

 اساتذہ کے سامنے اس طرح کے مسائل اکثر آتے رہتے ہیں۔ میرے بہت سارے ٹیچر دوست یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں اساتذہ کی قدر و منزلت ختم ہو گئی ہے۔ قانون اتنا سخت ہو گیا ہے کہ بچوں کو مارنا اور ڈانٹا تو بہت بڑی بات ہے آنکھ بھی نہیں دکھا سکتے۔ والدین اور سرپرستوں کا رویہ بھی بدل گیا ہے۔ اساتذہ کسی طرح اپنی عزت بچا کر نوکری مکمل کرنے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ تربیت کے نام پر بچوں کو دینی و اخلاقی باتیں بتاتے ہوئے بھی سوچنا پڑتا ہے۔ ایک استاد نے بتایا کہ انہوں نے دسویں جماعت کی ایک طالبہ کو سر پر دوپٹہ رکھنے کو کہا تو طالبہ نے برجستہ جواب دیا کہ سر آپ ہماری ذاتی زندگی میں مداخلت نہ کیا کریں۔ آپ کا کام سبق پڑھانا ہے، میلاد پڑھانا نہیں۔

یقینا یہ ساری باتیں بالکل درست ہیں۔ ماحول میں تیزی سے تبدیلی آ ئی ہے۔ اساتذہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔ اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ معاملہ ایک طرفہ نہیں ہے۔ گراوٹ اساتذہ کی ٍشخصیت میں بھی آئی ہے۔ اساتذہ نے جب تک تدریس کو ایک فریضہ سمجھ کر انجام دیا، عزت اور خلوص و محبت کے روپ میں انہیں اس کا بدلہ ملتا رہا۔ درس و تدریس نے جب پیشہ کی صورت اختیار کر لی تو پیسوں کی فراوانی تو خوب ہوئی، عزت و وقار جاتا رہا۔ ورنہ آج بھی وہ اساتذہ جو درس و تدریس کو پیشہ نہیں بلکہ فرض اور ’’کارِ پیغمبری‘‘ سمجھتے ہیں، سماج میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں نے ’معلمی‘ کو ’کارِ پیغمبری‘ اس لیے کہا ہے کیوں کہ قرآن میں جا بجا رسول کریم ﷺ کو ’’معلم‘‘ کہا گیا ہے۔ اب آپ تصور کریں کہ ’معلمی‘ کتنا عظیم منصب ہے۔ سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ آپ کی بعثت سے قبل عرب کا معاشرہ جہالت و گمراہی کے سب سے آخری درجے پر تھا۔ کون سی ایسی برائی اس زمانے میں رائج نہ تھی۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ اُس وقت آج کی طرح نہ تو مدارس و مکاتب تھے اور نہ کالج اور یونیورسٹی، جہاں علم و اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہو۔ نہ کتابوں کا بازار تھا اور نہ پند و نصیحت کی محفلیں۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ’حرا‘ سے اٹھنے والی ’اقراء‘ کی صدا ایسی بلند ہوئی کہ پوری دنیا میں چھا گئی۔ آج اساتذہ کی ٹریننگ ہوتی ہے تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک کامیاب استاد کس طرح بن سکتے ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ اگر کسی نے سیرتِ رسول ﷺکا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کر لیا تو اسے ایک کامیاب استاد بننے کے لیے کسی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہے۔ طوالت کی وجہ سے مثالیں چھوڑ رہا ہوں۔

 آج کے زوال پذیر معاشرہ میں اساتذہ کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اساتذہ کے سامنے پہلے سے زیادہ چیلنجز ہیں۔ مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے چیلنجزکی نوعیت تھوڑی بہت مختلف ہو سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مدارس کے اساتذہ کے سامنے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ سے زیادہ چیلنجز ہوتے ہیں کیوں کہ مدارس کا مقصد طلبہ کو صرف دو وقت کی روٹی کمانے کے قابل بنا دینا نہیں ہے بلکہ ان پر قوم و ملت کی رہنمائی کی اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ آج کے عہد میں مدارس کے طلبہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں اور وقت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند پہلو ہے لیکن دوسری طرف مدارس کے طلبہ میں بھی تیزی کے ساتھ اخلاقی گراوٹ آنے لگی ہے۔ یہ تصویر کا بہت ہی بھیانک روپ ہے۔ ایک پولیس آفیسر جب بدعنوان ہوجاتا ہے تو صرف ایک فرد متاثر نہیں ہوتا، پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ جرائم سر اٹھانے لگتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر جسے مسیحا سمجھا جاتا ہے، جب پیسوں کا پجاری ہو جاتا ہے، تو لوگوں کا انسانیت سے بھروسا ٹوٹنے لگتا ہے۔ اسی طرح جب مدارس کا فارغ ایک طالب علم بے عملی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہوتا ہے تو عوام کا بھروسا علمائے دین اور فارغین مدارس سے اٹھنے لگتا ہے۔

  اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسے زوال پذیر اور اخلاقی تنزلی کے اس دور میں اساتذہ اپنا فرضِ منصبی کس طرح ادا کریں ؟ اس سلسلہ میں میں اپنے معمولی تجربے کی روشنی میں چند باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

  طلبہ کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں :

محبت ایسی طاقت ہے جو دشمن کو بھی سرجھکانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ طلبہ کے ساتھ ہر وقت سختی کا رویہ انہیں آپ سے دور کر سکتا ہے۔ طلبہ کو بغیر کچھ کہے اپنے رویے سے یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ آپ ان کے سچے ہمدرد اور خیرخواہ ہیں۔ صحابہ کرامؓ رسول کریم ﷺ کے طالب علم تھے۔ آپﷺ جب بھی انہیں کچھ سمجھاتے انتہائی خوش گوار انداز میں سمجھاتے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب تمہارے پاس قومیں علم طلب کرنے آئیں گی، پس تم جب انہیں دیکھو تو کہو، رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق خوش آمدید! خوش آمدید! اور انہیں تعلیم دو۔ (سنن ابن ماجہ)۔

طلبہ کو عزت دیں :

عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ عزت بڑوں کی میراث ہے۔ چھوٹوں کو یا اپنے طالب علموں کو سلام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ عزت کے بدلے میں عزت دیتا ہے، پیار کے بدلے میں پیار اور نفرت کے بدلے میں نفرت۔ آپ بچوں کو حد سے زیادہ عزت اور پیار دے کر دیکھیں پھر اگر بوقتِ ضرورت آپ ان کی سرزنش بھی کریں گے تو انہیں برا محسوس نہیں ہوگا۔

جسمانی سزا دینے سے گریز کریں :

طلبہ کی غلطیوں پر انہیں جسمانی سزائیں ہرگز نہ دیں۔ یہ قانونی اور اخلاقی کسی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ سزا کے طور پر انہیں کچھ ایسے کام دئیے جا سکتے ہیں جس سے سزا کا اطلاق بھی ہو جائے اور طلبہ کا بھلا بھی ہو جائے۔ مثلاً میں اپنی کلاس میں بغیر اطلاع ناغہ کرنے والوں سے بیس صفحہ رائٹنگ کرواتا ہوں۔ اسی طرح مختلف غلطیوں پر الگ الگ طرح کی سزائیں طے کر رکھی ہیں۔ کبھی ڈکٹیشن کروایا تو ہر ایک غلط لفظ پر ایک ’ٹافی‘ منگوا لی اور پھر انہی کے ہاتھ سے چھوٹے بچوں میں تقسیم کروا دی کہ غلط لکھنے کی سزا بھی ہو جائے اور خوشیاں تقسیم کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہو۔ کسی غلطی پر یہ سزا ہے کہ نچلی کلاس کے کسی کمزور بچے کو کلمہ، پہاڑا(Table)یا حروف تہجی یاد کروانی ہے۔ جب تک بچہ یاد نہیں کرے گا، غلطی کرنے والے کو چھٹی نہیں ملے گی۔

  بچوں کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی کریں :

بچے حوصلہ افزائی سے خوش ہوتے ہیں۔ بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے ان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی کتاب میں ایک تجربہ پڑھا تھا(کتاب کا نام اس وقت یاد نہیں آ رہا ہے۔ )

ایک ہی جماعت کے طلبہ کا دو گروپ بنایا گیا اور انہیں الگ الگ کمروں میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ یہ سبھی طلبہ تقریباً ایک جیسی لیاقت اور ذہنیت والے تھے۔ دونوں گروپ کے طلبہ کے لیے بالکل ایک جیسا سوالنامہ تیار کیا گیا لیکن پہلے گروپ کے طلبہ کو سوالنامہ دینے سے پہلے یہ بتایا گیا کہ آپ کو جو سوالنامہ دیا جا رہا ہے، وہ انتہائی مشکل ہے۔ آپ سے اوپر والی جماعت کے طلبہ بھی انہیں حل نہیں کر سکے ہیں۔ آپ تو اوربھی نہیں کر سکیں گے، لیکن کوشش کر کے دیکھیے۔ وہی سوالنامہ دوسرے گروپ کے طلبہ کو دینے سے پہلے یہ بتایا گیا کہ یہ سوالات بہت ہی آسان ہیں۔ اتنے آسان ہیں کہ آپ سے چھوٹی جماعت کے طلبہ کو یہی سوالات دئیے گئے تو انہوں نے چند منٹوں میں ہی حل کر دئیے، آپ تو اور بھی آسانی سے حل کر لیں گے۔ اس تجربے کا نتیجہ چونکانے والا تھا۔ پہلے گروپ کے بیشتر طلبہ کو بہت ہی کم نمبر آئے جبکہ دوسرے گروپ کے طلبہ کو پہلے گروپ سے زیادہ نمبر ملے۔ اس تجربے سے ظاہر ہے کہ حوصلہ افزائی طلبہ کو طاقت عطا کرتی ہے جبکہ حوصلہ شکنی انہیں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔

 طلبہ کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں:

ایک اچھے استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کی صرف تعلیمی پیاس ہی نہ بجھائے بلکہ ان کے ذاتی مسائل کو حل کرنے کی بھی کوشش کرے۔ طلبہ کے خاندانی، سماجی، تہذیبی پس منظر کو سمجھے بغیر ہم ان کی ہمہ جہت ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ کچھ بچوں کے ساتھ ایسے نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں کہ اگر انہیں سمجھا نہیں گیا تو بچے کی ہمہ جہت ترقی نہیں ہو سکتی۔ ایک بچے کی زبان سے اکثر گالیاں نکلتی تھیں۔ ایک بار میں نے بچے کے والد کو اسکول بلوایا اور بچے کی شکایت کی۔ بچے کے والد نے اسی وقت بچے کی بے تحاشا پٹائی شروع کر دی اور اس بیچ خود بچے کے باپ کی زبان سے مسلسل گالیاں نکلتی رہیں۔ میں سمجھ گیا کہ قصور وار بچہ نہیں، اس کا ماحول ہے۔ باپ خود گالیوں کا عادی ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا بچہ تہذیب یافتہ ہو جائے۔ یہ ایک عام مسئلہ ہے۔ ہم خود تو جھوٹ بولیں، وعدہ خلافی کریں، بے ایمانی کریں، بچوں کے سامنے اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی شکایتیں کریں اور یہ امید رکھیں کہ ہمارے گھر سے اولیا اللہ پیدا ہوں، ایسا کیسے ممکن ہے؟ خیر۔ ۔ ۔ یہ تو ضمناً بات آ گئی۔ بحیثیت استاد طلبہ کے داخلی مسائل اور اس کی نفسیات کو سمجھے بغیر ہم اسے تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ نہیں کر سکتے۔

ایک کامیاب استاد وہی ہے جو تدریس کو اپنا مشن اور نصب العین سمجھتا ہے۔ بلاشبہ تدریس کے پیشہ میں بے شمار چیلنجز ہیں اور یہ چیلنجز ہر زمانے میں رہے ہیں۔ خود معلم آعظم ﷺ کو جب سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تو ہماری کیا حیثیت ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ آج کے زوال پذیر معاشرہ میں بھی جو اساتذہ اپنے پیشے کے تئیں مخلص اور ایماندار ہیں ان کی بے پناہ عزت و توقیر ہے۔

1 تبصرہ
  1. بدرالدین کہتے ہیں

    بہت خوب۔۔۔کامران صاحب کو اللہ تعالیٰ طویل عمر عطا کرے۔۔میں ہر وقت ان کا مضمون پڑھتا ہوں۔۔۔کچھ نے کچھ سبق ملتی ہیں۔۔۔نہ کبھی ان سے ملا ہوں نہ بات ہوئی ہے ۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔