تحریر-کب اور کیسے پُر اثر اور جاندار ہوتی ہے؟ (آخری قسط)

عبدالعزیز

 ’’اب ہر دن ایک نئی دستاویز لکھی جائے گی۔ ان احمقوں کی اشتعال انگیزی کی بدولت جو قربانی پر ایمان نہیں رکھتے، جو گناہ پر جمے ہوئے ہیں ، جو قابل نفرت تکبر اور گھناؤنے استحصال پر ڈٹ گئے ہیں ، جو برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے سامنے کوئی شخص کھڑا اور کوئی سر اٹھا رہے، جو صدیوں سے اپنے سامنے لوگوں کو رکوع و سجدے کرتے ہوئے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ‘‘۔

 ’’قابل قدر خون کے یہ پاکیزہ قطرے عن قریب مقدس شعلہ میں تبدیل ہوجائیں گے جو ہر چیز کو جلاکر خاکستر کر دے گا اور آسمانی نور میں بدل جائیں گے جو ہر چیز کو روشن کر دے گا اور اللہ کے حکم سے یہ شعلہ کبھی سرد نہیں پڑسکتا اور یہ نور (جو حقیقت میں اللہ کا نور ہے) کبھی بجھ نہیں سکتا۔

 بارِ الٰہا تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ، بار الٰہا تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ۔ بار الٰہا اپنی مقدس آگ کو جسے تونے بھڑکایا ہے اور بھڑکا۔ اپنے آسمانی نور میں جسے تو نے پیدا کیا ہے اور اضافہ کر۔ ’’عزت صرف اللہ کیلئے ہے اور ا س کے رسولؐ کیلئے اور اہل ایمان کیلئے ‘‘۔

 ان فقروں کو جنھیں میں نے ایک سال سے زائد عرصہ قبل تحریر کیا تھا ، جب میں نے پڑھا تو میرے دل میں خود بخود یہ سوال پیدا ہوا کہ ’’تحریر کی قوت کے علاوہ اور کون سی قوت تھی جو اس بھیانک اور تاریک عہد میں غیب کے پردے شق کرسکتی تھی؟ جو راہ کی رکاوٹوں اور مزاحمتوں کو پار کرسکتی تھی؟ اور زمانے کے لوح پر اس زندہ حقیقت کو نقش کرسکتی تھی؟

 پھر ایک دوسرا سوال میرے ذہن میں یہ ابھرا کہ ’’تحریر کی قوت کا راز کیا ہے؟‘‘ تحریر کی قوت کا عجیب و غریب راز الفاظ کی چمک دمک اور عبارت کی موسیقیت میں نہیں بلکہ الفاظ کے مدلولات پر ایمان کی قوت میں پوشیدہ ہے۔ اس منظم خاکہ میں پوشیدہ ہے جو تحریر کردہ الفاظ کو زندہ تحریک میں اور معقولات کو محسوسات میں منتقل کر دیتا ہے۔

 دوسری چیز جس میں تحریر کی قوت کا راز پوشیدہ ہے یہ ہے کہ الفاظ کو قوموں کے ضمیر، انسانوں کے احساسات، انسانیت کے دل دوز نالوں اور معرکہ آرائی کرنے والے حریت پسندوں کے خون سے حاصل کیا جائے۔

ہر تحریر میں اتنی جان نہیں ہوتی کہ دوسروں کے دلوں میں پہنچ کر تحریک پیدا کرسکے اور انھیں کسی مقصد پر متحد اور اس کے حصول کیلئے آمادہ کرسکے۔ یہ تو صرف وہی تحریریں کرسکتی ہیں جن سے خون ٹپک رہا ہو، اس لئے کہ وہ کسی زندہ انسان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے منظر عام پر آتی ہیں ۔ ہر وہ تحریر جسے حیات جاودانی ملتی ہے، ضرور کسی کے خون جگر سے لکھی ہوتی ہے۔ رہی وہ تحریریں جو حلق سے تجاوز نہیں کرتیں اور نوک زبان پر جاری رہتی ہیں اور زندہ و جاوید الٰہی سرچشمہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ حقیقت میں مردہ اور بے جان ہوتی ہیں ۔ ان سے انسانیت ایک بالشت بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

 اہل قلم بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ۔ وہ یہ کہ اپنے افکار کو زندہ رکھنے کیلئے خود فنا ہوجائیں ۔ اپنے افکار کو اپنے خون سے سیراب کریں ، جس چیز کو بھی حق سمجھتے ہوں اسے علی الاعلان کہیں اور اس کی راہ میں اپنی جان قربان کردیں ۔ ہمارے افکار اور ہماری تحریریں بے جان اور پژمردہ ہوتی ہیں ، یہاں تک کہ جب ہم ان کے راستے میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں اور انھیں اپنے خون سے سیراب کرتے ہیں تو ان میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہیں اور جان پڑجاتی ہے۔

 جو لوگ دفتر میں بیٹھ کر عبارت آرائی میں سر کھپاتے اور ذہن میں بوجھ ڈال کر خوش نما الفاظ کے ذریعے عبارت کو بھڑکیلی اور خوب صورت بناتے ہیں اور نئے نئے خیالات گھڑتے ہیں ۔ ان تمام لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنی تحریروں میں زندگی پیدا کرنا اور ان میں جان ڈالنا چاہتے ہیں تو یہ زحمت نہ کریں بلکہ اس کے بجائے ایمان کے مقدس شعلہ سے روح کو روشن اور دل کو منور کریں … اس لئے کہ صرف اسی طریقے سے تحریروں میں جان ڈالی جاسکتی ہے۔

  لیکن صرف یہی کافی نہیں ہے۔ محض تحریر سے ذمہ داری نہیں ادا ہوجاتی بلکہ ضروری ہے کہ آدمی عملی میدان میں بھی سرگرم ہو، اس لئے کہ بسا اوقات عربی شاعر کا یہ قول سچا ہوتا ہے  ؎

السیف اصدق انباء من الکتب … فی حدہ الحد ابن الجد و اللعب

  (کتابوں سے زیادہ سچا فیصلہ قوت کا ہوتا ہے، اس کی دھار سنجیدگی اور تفریح کے درمیان حد فاصل ہے)۔

 بسا اوقات اگر ہم محض زبانی جمع خرچ سے کام لیں اور عملی میدان میں کچھ نہ کریں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس وقت ان تحریروں سے قوت حاصل نہیں ہوتی بلکہ ان سے مزید قوت خرچ ہوتی ہے۔

 خدا داد صلاحیت رکھنے والے بہت کم اہل قلم ایسے ہوں گے جو تحریروں کو طاقت میں بدل دیتے ہیں ، لیکن اس کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اس کیلئے کام بھی کریں اور جو کچھ چاہتے ہیں اسے جد و جہد اور سعی پیہم کے ذریعے عملاً نافذ کرنے کی کوشش کریں ۔

 اگر تحریر ایک تحریک میں نہ بدل جائے اور کسی انسان کی ذات میں نہ ڈھال جائے تو خواہ وہ کتنی ہی طبع زاد ہو اور اسے کتنے ہی خلوص سے لکھا گیا ہو، لیکن اس سے دنیا میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ حقیقت میں انسان ہی وہ زندہ تحریریں ہوتے ہیں جو مقاصد کو بخوبی واضح کرتے ہیں ۔

  عقائد اور فلسفوں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ عقیدہ میں زندگی پائی جاتی ہے، وہ انسان کے اندرون میں موجزن رہتا ہے اور اسے عملی دنیا میں نافذ کرنے کیلئے انسان جدوجہد کرتا ہے جبکہ فلسفہ بے جان، پژمردہ اور گوشت پوست سے عاری ہوتا ہے وہ بس ایک ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور وہیں بے حس و حرکت مدفون رہتا ہے۔

 عقائد ہی وہ ’’رہ نما‘‘ ہیں جن کی حدی پر انسانیت نے زندگی کا طویل اور پُر پیچ راستہ طے کیا ہے اور نشیب و فراز کو پار کیا ہے اور انہی کے ذریعے بھیانک بیابانوں اور ہلاکت خیز وادیوں میں نجات حاصل کی ہے۔ انہی کے پیغام پر وہ یقین رکھتی ہے، اس لئے کہ وہ پیغام ضمیر کے اندرون میں موجزن ہوتا ہے اور اس کے ذریعے وجدان برانگیختہ ہوتا ہے اور شعور میں جلا پیدا ہوتا ہے۔

 تحریر کی قوت کیلئے عقیدہ ضروری ہے… تحریر میں اسی لئے قوت پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ عقیدہ کی ترجمانی ہوتی ہے اور عقیدہ کو لوگ اپنی زندگیوں کے ذریعے غذا پہنچاتے اور اپنے خون سے سیراب کرتے ہیں ، چنانچہ اس کے ذریعے خود انھیں زندگی ملتی ہے‘‘۔

  سید قطب شہیدؒ کی زندگی پر بھی ایک نظر ڈالئے اور غور کیجئے ۔ ایک شہید نے دنیا میں زندگی کیسے گزاری:

 ’’سید قطب شہیدؒ (1966-1906) مصر کے شہو اُسیوط میں پیدا ہوئے۔ اصل نام سید، خاندانی نام قطب، آبا و اجداد جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن کے بعد 1929ء میں دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لیا اور 1933ء میں گریجویشن کیا۔ مصری حکومت کی وزارتِ تعلیم میں انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز رہے، بعد ازاں جدید تعلیم کے مشاہدے کیلئے حکومت کی طرف سے امریکہ کا دورہ کیا۔ امریکہ کا سفر ان کیلئے زندگی میں زبردست انقلاب بن کر آیا۔ واپسی پر وہ ہمہ تن اسلام کے مطالعے کیلئے وقف ہوگئے اور اس وقت کی متحرک و فعال اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے وابستہ ہوگئے اور 1954ء میں باضابطہ اس کی رکنیت اختیار کرلی۔ جب یہ دور اخوان کیلئے شدید ابتلا اور آزمائش کا دور تھا۔

  مصری حکومت نے سید قطب کو 1954ء میں گرفتار کیا اور اذیت ناک سزائیں دیں ۔ ان کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد پر بھی ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی۔ ان کے واحد حقیقی بھائی محمد قطب اور دو حقیقی بہنیں حمیدہ اور امینہ کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا اور ان پر شدید مصائب اور آلام کے پہاڑ توڑے گئے۔ بالآخر دو شنبہ 29 اگست 1966ء کو مصری حکومت نے سید قطب کو تختہ دار پر چڑھا دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

 سید قطب شہیدؒ مصری معاصرے کے اندر ادیب لبیب کی حیثیت سے ابھرے۔ اپنی ادبی زندگی کا آغاز بچوں کیلئے تاریخی اور اسلامی لٹریچر کی تصنیف سے کیا۔ سید قطب شہیدؒ کا سب سے عظیم کارنامہ ان کی وہ تفسیر قرآن ہے جو ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے نام سے 8 جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ پوری تفسیر کے اندر ایک ایسی شفاف اور پاکیزہ روح جلوہ گر نظر آتی ہے جو ایمان و یقین کی دولت اور صبر و عزیمت کی نعمت سے لبریز ہے۔ سید قطب کی تمام تصانیف کی تعداد 22ہے، جن میں اسلام میں عدل اجتماعی،مناظر قیامت، قرآن مجید کے فنی پہلو، امن عالم اور اسلا، جادہ و منزل، ادبی تنقید کے اصول و مناہج، اسلامی نظام کے خدو خال، کانتے (اشواک)، گاؤں کا بچہ، سحر زدہ شہر، زندگی کے اندر شاعر کا اصل وظیفہ اور تین مجموعہ ہائے اشعار قابل ذکر ہیں ‘‘۔

   یہ سید قطب شہیدؒ کی زندگی کی مختصر داستان ہے۔ وقت ملے تو ان کی زندگی کی پوری داستان ضرور پڑھئے اور ان کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیجئے۔

تبصرے بند ہیں۔