فاصلاتی طریقے سے مکمل کی جاسکتی ہے تعلیم

بدلتے زمانے کے ساتھ تعلیم کے طریقوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ پہلے علم، تعلیم حاصل کرنے کیلئے گرؤں کے آشرم، عالموں کی خانقاہ، درسگاہوں میں جانا ہوتا تھا۔ اب مدرسہ، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں جاکر تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ زندگی کا بڑا حصہ تعلیم کے حصول میں لگ جاتا تھااور ہے۔ ویدک روایت کے مطابق 25سال تعلیم وتعلم میں لگنے چاہئیں، اسلام میں گود سے گورتک سیکھنے کوکہاگیا ہے۔ قرآن نے حصول علم کو فرض (لازمی) کے درجہ میں رکھا ہے۔ ایسے میں تعلیم حاصل کرنے یا نا کرنے کا سوال بے معنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم کس طرح حاصل کی جائے۔کئی لوگ وقت، پیسے کی کمی، کم عمر میں کام میں لگ جانے یا کسی اور وجہ سے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہ تعلیم مکمل نہیں کرپاتے۔ ایسے لوگ فاصلاتی نظام تعلیم سے پڑھائی مکمل کراپنے خوابوں کو پورا کرسکتے ہیں۔
موجودہ نظام تعلیم میں ابتدائی،ثانوی اسکولی تعلیم ایسی منزل ہے جس کے بعد آگے پڑھنے، بڑھنے کے راستے کھلتے ہیں۔ عام طورپر بچے اسی سطح پر ڈراپ آؤٹ( بیچ میں پڑھائی چھوڑنے)کا شکار ہوتے ہیں۔ معاشی تنگی، سماجی حالات، کم عمر میں کام میں لگ جانا اوراسکول میں تعلیم کا سازگار ماحول یابیت الخلا نہ ہونا وغیرہ، بچوں کے بیچ میں پڑھائی چھوڑنے کی بڑی وجہ ہیں۔ سرکار نے ڈراپ آؤٹ کو روکنے کیلئے کئی قدم اٹھائے۔ ان میں سے فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعہ ابتدائی وثانوی تعلیم فراہم کرنا ایک اہم پہل ہے۔ 1979میں سرکار نے نیشنل اوپن اسکول کے نام سے فاصلاتی نظام تعلیم کو سی بی ایس ای کے ساتھ جوڑا۔ دس سال تک اس پروجیکٹ میں تجربہ کیا گیا کہ بیچ میں تعلیم چھوڑنے والے اس سے کتنا فائدہ اٹھاپارہے ہیں۔ نیشنل اوپن اسکول کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 23نومبر1989کو پارلیمنٹ میں بل لاکر نیشنل اوپن اسکول کے نام سے بورڈ بنایاگیا۔ یہ وزارت برائے انسانی وسائل وترقی کے تحت خود مختار ادارہ ہے۔ 1991 تک اس سے ہائرسیکنڈری،سینئرسیکنڈری اور ووکیشنل تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 3324797اور ابتدائی تعلیم پوری کرنے والے 487717تھے۔ ہر سال تقریباً 2.71ملین طالب علم نیشنل اوپن اسکول میں اپنا اندراج کراتے ہیں۔ ان میں سیکنڈری 46فیصد سینئر سکینڈری 49فیصد اور 5فیصد ووکیشنل تعلیم حاصل کرنے والے شامل ہیں۔
نیشنل اوپن اسکول میں 8-5-3بنیادی تعلیم اور 12-10سیکنڈری تعلیم کا انتظام ہے۔اس میں ہندی، اردواور انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اکیڈمک آفیسر شعیب رضا خاں نے بتایاکہ نیشنل اوپن اسکول میں تینوں میڈیم کی تمام کتابیں مہیا رہتی ہیں۔ اسکول میں داخلہ لینے والوں کو ادارہ تمام مضامین کی کتابیں بذریعہ ڈاک مہیا کراتا ہے تاکہ طلبہ کو کتابوں کیلئے پریشان نہ ہونا پڑے۔ نیشنل اوپن اسکول میں پانچ مضامین میں دوزبانیں ہی پڑھی جاسکتی ہیں اگر اس سے زیادہ زبانیں پرھناچاہتے ہیں تو اضافی مضمون کے طورپر ہی پڑھ سکتے ہیں۔1995-96 میں پہلی مرتبہ اردومیڈیم سے ہائی اسکول شروع کیاگیا۔ ایچ آرڈی منسٹرمرلی منوہر جوشی کے زمانے میں 2001میں سینئر سیکنڈری 1999میں اردوزبان کو ایک مضمون کے طورپر اپنے نصاب میں شامل کیا۔ نیشنل اوپن اسکول میں سال میں دومرتبہ امتحانات ہوتے اور نتیجے آتے ہیں۔ اس میں آن ڈیمانڈ مطالبہ پر امتحان دینے کا انتظام موجود ہے۔ اس سے وہ طلبہ فائدہ اٹھاتے ہیں جنہیں کسی ایک یادو مضامین میں امتحان دینا ہوتا ہے۔ نیشنل اوپن اسکول دوسرے کسی بورڈ کے ناکام طلبہ کو اپنے یہاں امتحان دینے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ایسے طلبہ کے ان کی پسند کے دو مضامین کے نمبر جوں کے توں ٹرانسفر ہوجائیں گے اسے صرف تین مضامین کا امتحان ہی دیناہوگا اس طرح وہ تین مضامین میں جو نمبرحاصل کرتا ہے اس کی بنیاد پر مکمل نتیجہ دے دیاجاتاہے تاکہ وہ اپنی تعلیم کو آگے جاری رکھ سکیں۔
پورے ملک میں نیشنل اوپن اسکول کے سینٹر قائم ہیں۔ بیرون ملک یواے ای، نیپال، کویت، قطر، مسقط اور بحرین وغیرہ میں 26سینٹر کام کررہے ہیں۔ اوپن اسکول کے نصاب میں کئی پرونیشنل مضامین بھی شامل ہیں جیسے ماس کمیونی کیشن، کمپیوٹر سائنس، لائبریری سائنس، قانون، انڈین کلچر اینڈ ہریٹیج وغیرہ۔ اس کے علاوہ 100سے زیادہ پیشہ ورانہ کورسیز موجودہیں۔ انہیں ووکیشنل کورسیز کہا جاتا ہے۔ نیشنل اوپن اسکول کی پالیسی ہے کہ اس میں داخلہ لینے والا شخص اپنی سہولت سے اپنی تعلیم مکمل کرے۔ اس لئے پانچ سال کے وقفہ میں وہ سیکنڈری یا سینئر سیکنڈری کرسکتا ہے،اس دوران اسے 9بار امتحان دینے کا موقع ملتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ اس درمیان بھی سیکنڈری نہیں کرپاتا تواسے دوبارہ داخلہ لینا ہوگا۔ اسکول طلبہ کیلئے pcpیعنی ذاتی رابطہ پروگرام کے تحت اپنے سینٹرس پر پڑھانے کاانتظام کرتا ہے۔ جن طلبہ کو پڑھنے میں دشواری ہورہی ہوتیہے وہ اس پروگرام سے فائدہ اٹھاکر اپنی دشواریاں دور کرسکتے ہیں۔
دینی مدارس وان کے طلبہ کو نیشنل اوپن اسکول میں خصوصی رعایتیں حاصل ہیں۔ ایسا مدرسہ جو کسی بورڈ کے تحت رجسٹرڈ ہے اوراس کی تین سال کی آڈٹ رپورٹ موجود ہے وہ نیشنل اوپن اسکول کامرکز اپنے مدرسہ میں قائم کرسکتا ہے۔ مدرسہ کے جو طلبہ اوپن اسکول میں داخلہ لیں گے ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی اور نہ ہی مرکز سے اس کے رجسٹریشن کی فیس بیس ہزار روپے لئے جاتے ہیں ان کا امتحان فارم بھی آف لائن بھرا جاتا ہے۔ البتہ ابتدائی تعلیم 8-5-3کے رجسٹریشن کیلئے کسی طرح کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ نیشنل اوپن اسکول مدرسہ کو دواساتذہ کی تنخواہ SPQA اسکیم کے تحت ہرماہ اداکرتا ہے۔مدارس کے لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اوراپنے طلبہ کیلئے جدید تعلیم کا راستہ کھول سکتے ہیں۔ نیشنل اوپن اسکول کے سر ٹیفکیٹ ہرکالج یونیورسٹی میں قابل قبول ہیں۔ 
نیشنل اوپن اسکول دنیاکاایسا ادارہ ہے جو تعلیم میں پیچھے رہ جانے والوں کو تعلیم مکمل کر آگے پڑھنے وبڑھنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ حکومت ہند کی وزارت برائے انساری وسائل وترقی کی شاندار اسکیموں میں سے ایک ہے۔ یہ وقت بچانے اورطلبہ کو مایوسی سے محفوظ رکھنے کا بھی ذریعہ ہے۔ آگے آن لائن امتحانات دینے کی سہولت فراہم کرنے کی اوپن اسکول کوشش کررہاہے۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ کسی بھی عمر کے لوگ جب بھی انہیں لگے کہ انہیں پڑھنا چاہئے نیشنل اوپن اسکول میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اوپن اسکول مکت ودیاوانی، کمیونٹی ریڈیوپر اپنے تعلیمی پروگرام نشر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گیان درشن، گیان وانی کے تحت آل انڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔
سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ اس مقولے کو نیشنل اوپن اسکول صحیح ثابت کررہا ہے۔ اوپن اسکول کے طلبہ اور اس سے تعلیم حاصل کر آگے بڑھنے والوں کی فہرست میں ہرعمر کے لوگ نظرآتے ہیں۔ انسانوں وحیوانوں میں جوفرق پیدا کرتی ہے وہ بھی تعلیم ہی ہے۔ آج جوملک ترقی یافتہ نظرآتے ہیں ان کے سوفیصد عوام پڑھے لکھے ہیں۔ ہمارا ملک بھی ترقی کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اس لئے عوام کو تعلیم کے ساتھ رشتہ بنانا ہی ہوگا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے فاصلاتی نظام تعلیم کا ملک بھر میں معقول انتظام ہے۔ کئی یونیورسٹیاں اسی بنیاد پر کام کررہی ہیں اوراکثر نے اپنے یہاں کوریس پونڈینس کے ذریعہ تعلیم کیلئے الگ سے شعبہ بنارکھے ہیں لیکن ابتدائی وثانوی اسکول تعلیم کا نیشنل اوپن اسکول سب سے بہترین ذریعہ ہے۔اسکولی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کی باری آتی ہے۔ ابتدائی وثانوی تعلیم اچھی ہوگی تبھی اعلیٰ تعلیم میںآگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ شاید اسی لئے وزیراعظم کہتے ہیں پڑھے گا تبھی آگے بڑھے گا انڈیا۔

تبصرے بند ہیں۔