ماحول کو کثافت سے بھرنے والے بھی دہشت گرد ہیں !

حکیم نازش احتشام اعظمی

ملک عزیزہندوستان کے علاوہ طب یونانی کو عالمی طور پر ازسر نو متعارف کرانے اور اس کے تابناک ماضی سے مربوط کرنے جیسے اہم عزم وارداہ کے ساتھ گزشتہ 12نومبر کو دوروزہ ’’عالمی یونانی کانگریس ‘‘ نام سے منعقد ہ عالمی سیمینار اختتام پذیر ہوگیا۔ اس موقع پر طب یونانی کی تاریخ اور مستقبل میں اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنے والے گراں قدر مقالے بھی پیش کئے گئے۔ ان بیش قیمت مقالوں میں محققین اورا سکالر س نے جہاں طب یونانی کے عقل کو مبہوت کردینے والے شاندار ماضی کی تاریخ بیان کی تو بعض مقالوں میں دلیل اور تاریخی حوالوں کے ساتھ اس سچائی سے پردہ اٹھایا گیا کہ یقیناً طب یونانی ہی وہ قدیم ترین طریقہ علاج ہے جس نے 17ویں صدی کے نصف تک عالمی سطح پر عوام کی خدمت کی تھی اور اسی فن کے شہسواروں نے معالجات میں علم الابدان پر نہایت وسیع و بیش قیمت ایجادات پیش کی تھیں۔

آج جس فزیالوجی، اناٹومی اور علم الابدان کو پڑھ کر ماڈرن طریقۂ علاج کے بڑے بڑے معالجین شعبہ صحت میں اپنے سکے بٹھارہے ہیں اس کی بنیاد سے لے کر اختتام تک ساری تفصیل یونانی کے مجتہدین اور اطبائے کرام نے ہی لکھی ہیں۔ آج تک ا ناٹومی یعنی علم لابدان میں مغرب نے موجدین طب کی کتابوں کا صرف ترجمہ کرنے کے علاوہ اس میں کچھ اضافہ بھی کیاہو ایسی کوئی تاریخ علم طب میں موجود نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ طب یونانی کے مجتہد اسکالروں نے علم الابدان کو کچھ اس طرح سنوارا،سینچا اور تحریر کیاہے کہ اب اس میں مزید اضافہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔

’’ورلڈ یونانی کانگریس‘‘ کے عنوان  سے منعقدہ عالمی سیمینارنے معروف محقق طبیب اوروزارت آیوش میں مشیر برائے طب یونانی حکیم رئیس الرحمن نے صدارتی خطبہ میں انسانی زندگی پرپڑنے والے مضر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے ہی طب یونانی کے عظیم مجتہد ابن سینا نے لکھ دی تھیں جس کی آج کے انسان کو بھی صحت مند رہنے کیلئے اتنی ہی ضرورت ہے جتناکہ اس وقت تھی جب ابن سینا ؒ یہ باتیں تحریر فرمارہے تھے۔ لیکن بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھا، جس کی وجہ سے لوگوں کا رجحان ایلوپیتھک طریقہ علاج کی طرف بڑھا اوراس کے مضراثرات کی وجہ سے آج لوگ مختلف قسم کی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنا فرض اداکیا ہوتا تو آج کینسر وغیرہ جیسی لاعلاج بیماریاں سماج میں وبائی شکل اختیار کرکے تباہی نہ مچارہی ہوتیں۔

عالمی سیمینار میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے ورلڈ یونانی فاؤنڈ یشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر خورشید احمد شفقت اعظمی نے تمام شرکاء کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا معمول بدل گیا ہے جس کی وجہ سے آج ہم پریشان ہیں۔ انہوں نے زوردے کر کہا کہ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کے برے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ رکن اسمبلی نفیس احمد نے کہا کہ آج کا انسان اس قدر مادہ پرست ہوگیا ہے کہ اس کو کبھی بھی قدرتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی تباہی کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

انہوں کہا کہ سماج میں ایک گروپ ایسا بھی ہے جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے انسانی زندگی میں زہر گھول رہا ہے، ان کا اشارہ ان عناصر کی طرف تھا جومالی فائدے کیلئے جنگلات کی کٹائی اوردوسرے طریقوں سے آلودگی پھیلاکر آب و ہوا کو آلودہ بنانے میں ذرہ برابر جھجک محسوس نہیں کرتے۔ انہوں ایسے عناصر کو دہشت گردوں کے زمرے میں رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کی جارحیت سے دس بارہ بے گناہ موت کا نوالہ بنتے ہیں،  جبکہ ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے ان عناصر کے حملوں سے پورا معاشرہ تباہ ہوتا ہے اور بسااوقات وبائی بیماریاں جنم لیتی ہیں جس سے ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ورلڈ یونا نی فاؤنڈیشن اور قومی کونسل کے زیر انتظام منعقدہ اس عالمی طبی سیمینار سے فاؤنڈیشن کے چیئرمین محسن دہلوی نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار کا آغاز ڈاکٹر محمد ارشد قاسمی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوااور نظامت کے فرائض ڈاکٹر زبیر احمدخاور صدیقی نے انجام دیے۔ اس موقع پر یونانی ریسرچ سینٹر لکھنؤ کے ڈاکٹر ضیاء الحق، ڈاکٹر محمد اجمل،ڈاکٹر محمد صادق،ڈاکٹر نعمان احمد، ڈاکٹر شمشاد احمد،ڈاکٹر ندیم احمد،مرزا شان عالم بیگ،ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی،ڈاکٹر علاء الدین خان، ڈاکٹر محمد خالد اورڈاکٹر کلیم احمد وغیرہ بطور خاص شریک تھے۔

عالمی سیمینار اور’’یونانی کانگریس‘‘ کو کامیاب بنانے میں آرگنائزرکمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی اپنی ٹیم کے ساتھ مسلسل سرگرم عمل رہے، جن کی محنتوں اور کوششو ں کے نتیجے میں اس قدر کامیابی حاصل ہوئی کہ اس سیمینار کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر طاہر نقوی، ڈاکٹر محمد خالد،ڈاکٹراجمل اخلاق،ڈاکٹر امجد وحید،ڈاکٹر محمد اجمل اعظمی اور طب یونانی مخلص ومحسن جناب محسن دہلوی کی قربانیاں مستقبل میں طب یونانی کی سنہری تاریخ بنیں گی۔

تبصرے بند ہیں۔