پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر لیکن پرنالہ وہیں گرے گا

حفیظ نعمانی

گذشتہ سال دہلی میں آتش بازی کی فروخت پر ہی پابندی لگادی تھی جس کے بارے میں دُکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کا کروڑوں روپئے کا نقصان ہوا اور اُن کا وہ مال اب تک گودام میں رکھا ہوا ہے۔ جبکہ مشاہدین نے اسے جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ پچھلے دروازہ سے سب فروخت ہوگیا اور مہنگا بیچنے کی وجہ سے دُکانداروں کو اور زیادہ فائدہ ہوا۔

آتش بازی اور اس کی وجہ سے فضا کی آلودگی کا تنازعہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا کل عدلیہ کے محترم جج صاحبان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دیوالی کی رات کو 8 بجے سے 10 بجے تک آتش بازی ہوگی اور اگر حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو علاقہ کا تھانہ انچارج ذمہ دار ہوگا اور اس کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ محترم جج صاحبان کے ہی حکم سے کسی بھی موسم کسی بھی تہوار اور کسی بھی تقریب میں 10 بجے کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر پابندی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ صوتی آلودگی کو روکنے کی وجہ سے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم سے کم رکھی جائے اور جو لاؤڈ اسپیکر بجائے اسے تھانہ سے اجازت لینا چاہئے۔ یہ حکم ایسا ہے کہ اس میں کسی کو رعایت نہیں دی گئی ہے اور مندر ہو یا مسجد یا گرودوارہ سب کو اجازت لینا پڑے گی اور خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔ اس کا انجام یہ ہے کہ اجازت تو مندروں اور مسجدوں کے ذمہ داروں نے لے لی ہے لیکن کس علاقہ میں کتنی آواز ہو اس پر پابندی نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان نے جو حکم عدولی کی ذمہ داری تھانہ انچارجوں پر ڈالی ہے۔ اور تھانہ کے اندر تھانیدار کے بچے اور دوسرے عہدیداروں کے بچے بھی رہتے ہیں۔ وہاں کون دیکھے گا کہ آٹھ بجے سے پہلے کیا ہوا تھا اور دس بجے کے بعد کیا ہوتا رہا؟ جن تھانیداروں کو پابندی کا نگراں بنایا گیا ہے وہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے برابر نہ تعلیم یافتہ ہیں اور نہ باشعور، وہ ہندو بھی ہیں اور آتش بازی کے معاملہ میں اتنے ہی جذباتی ہیں جتنے عام ہندو ہیں وہ دوسروں پر پابندی تو جب لگائیں گے جب خود پابندی کریں گے جیل بیشک تھانہ نہیں ہے لیکن اس اعتبار سے تھانہ سے بڑھ کر ہے کہ وہاں کی آبادی ہزار ہو یا ڈیڑھ ہزار سب ایک عمارت میں بند ہیں اور ان کی نگرانی کے لئے ہر وقت کانسٹبل رہتے ہیں جو دن میں اور رات میں نگرانی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی نشہ نہیں ہے جو کرنے والے نہ کرتے ہوں اور یہ سارا نشہ ان کی نگرانی میں ہوتا ہے جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ کوئی غلط کام تو نہیں کررہا ہے؟

1966 ء میں جو ہولی پڑی تو ہم جیل میں تھے اس سے پہلے عید اور بقرعید مسلمانوں کے دونوں تہوار گذر چکے تھے۔ ہولی جس رات کو جلی اسی رات کو ہم نے محسوس کیا کہ خلاف معمول زیادہ تر بندی جاگ رہے ہیں خاص طور پر وہ جنکو آئے ہوئے زیادہ دن ہوچکے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دروازہ کے باہر بار بار نگراں سپاہی آتا ہے اس سے دو چار بندی جاکر بات کرتے ہیں اور وہ چلا جاتا ہے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ نگراں صاحب یا تو پیسے لینے آتے ہیں یا ان کے جو رشتہ دار جیل کے باہر شراب کی بوتل لئے کھڑے ہیں ان کا نام معلوم کرکے ان سے شراب لارہے ہیں اور بیرک کے آخری کنارے پر جو بیت الخلا ایسے مریضوں کے لئے بنا ہے جن کو رات میں بھی جانا پڑتا ہے اس کے سوراخ سے بوتلیں آرہی ہیں۔ اور جیل میں دو کو چھوڑکر اس وقت جو تمام سپاہی ہندو تھے وہ سب کے سب شراب کی سپلائی اور اپنی شراب کے لئے لگے تھے جیسے ہولی کا مطلب صرف شراب پینا ہے۔

دوسرے دن ہولی تھی ہمیں آئے ہوئے آٹھ مہینے ہوچکے تھے اتنے دنوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا جب صبح کی سرکل میں گنتی نہ ہوئی ہو یا افسروں میں کوئی سرکل میں آکر نہ بیٹھا ہو یا ایک احاطہ سے دوسرے احاطہ میں بے روک ٹوک آمد و رفت ہو۔ لیکن آج ہولی تھی ہر قانون طاق پر رکھ دیا گیا تھا ہر طرف شور تھا اتنے میں ہی ڈھولک کی آواز آئی تو حیرت ہوئی کہ یہ کہاں سے آئی؟ تب ہم باہر نکل کر سرکل میں آئے تو دیکھا کہ ڈپٹی جیلر تیواری صاحب موجود ہیں اور وہی ڈھولک لائے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دل کھول کر ہولی مناؤ جو چیز نہ ہو ہم سے کہو ہم منگوا دیں گے اور یہ کہہ کر اور آزادی کا پروانہ دے کر وہ چلے گئے اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ جیل ہے؟ رنگ کی مارا ماری اور ناچ گانا ایسے ہورہا تھا جیسے ہندوؤں کے کسی گاؤں میں ہوتا ہوگا۔

ہم کیسے محترم ججوں سے کہیں کہ مسئلہ قانون کا نہیں شعور کا ہے۔ جب تک ہر آدمی خود یہ نہیں سمجھے گا کہ آتش بازی زہر ہے اور ایسا زہر جس کا زیادہ حصہ چھڑانے والوں کے پھیپھڑوں میں جاتا ہے اور تھوڑا حصہ ان کے سینے میں چلا جاتا ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ آتش بازی بنانے والے سائنس کی ترقی کی بدولت زیادہ سے زیادہ آواز اور نئی سے نئی طرح کی چنگاریوں والے بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور 95 فیصدی سے زیادہ ہندو یہ مانتے ہیں کہ جو گھر کو جتنا زیادہ سجائے گا اور جو دولت کی دیوی کا جو زیادہ سے زیادہ آتش بازی سے استقبال کرے گا وہ اس کے گھر میں ہی مبارک قدم رکھیں گی۔ تو یہ لڑائی تو شعور اور دھرم کی لڑائی ہوگئی۔ اس کا مظاہرہ جیل میں ہولی کی شام کو ہولی ملن کے جلسہ میں ہوگیا۔ تیواری جی نے تقریر کی تو پوری کہانی ہولیکا کی سناکر برائی پر اچھائی کی فتح سنادی۔ سپرنٹنڈنٹ مسٹر بھٹناگر نے تقریر کی تو کہا کہ ہم ہندوؤں کے کسی تہوار کا دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہولی کسانوں کا تہوار ہے وہ جب اپنی محنت کی لگائی فصل کو لہلہاتا ہوا دیکھتا ہے تو خوشی سے ناچنے گانے لگتا ہے اور کوڑا کباڑ جلا دیتا ہے اور غلہ گھر لے آتا ہے۔ ایسی ہی دیوالی ہے کہ موسم بدل رہا ہے اب باہر کی سردی برداشت نہیں ہوگی اندر صفائی اور پتائی کرکے اندر رہنا ہے۔ بھٹناگر صاحب بڑے افسر ہی نہیں بہت قابل عالم فاضل تھے۔ لیکن عام ہندو تیواری کی طرح ہیں۔ اس لئے وہ سپریم کورٹ کے حکم کو جہاں تک ہوسکے گا نہیں مانیں گے اور وہی کریں گے جو ہر سال کرتے ہیں اور ملک میں کتنے بھٹناگر ہیں جو تھانہ انچارج کے خلاف رپورٹ لکھواکر پولیس کو دشمن بنائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔