انور جلال پوری شاعر ہی نہیں بہترین نثر نگار بھی تھے

سہیل انجم

اگر کوئی مجھ سے پہلے پوچھتا کہ انور جلال پوری ایک اچھے شاعر اور ناظمِ مشاعرہ تھے یا ایک اچھے نثر نگار تو میں فوراً جواب دیتا کہ وہ تو شاعر اور ناظم تھے ان کا نثر سے کیا تعلق؟ لیکن جب میں نے ان کے مضامین کے مجموعے ’’روشنائی کے سفیر‘‘ کا مطالعہ کیا تو میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ ایک اچھے شاعر اور ناظمِ مشاعرہ تھے یا ایک بہترین نثر نگار۔ سچ بات یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر اور ناظم تھے اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی تھے۔ (وہ بہت اچھے انسان بھی تھے اس پر گفتگو پھر کبھی)۔ انھوں نے جس طرح شاعری اور نظامت میں اپنا ایک انفرادی رنگ قائم کیا تھا اسی طرح نثر نگاری میں بھی ان کی اپنی انفرادیت ہے جو انھیں دوسرے نثر نگاروں کے درمیان ایک الگ حیثیت عطا کرتی ہے۔ ان کی نثر انتہائی پر کشش، جاذب نظر اور شگفتہ ہے۔ وہ ایک صاحب طرز قلم کار اور نثار ہیں۔ ان کا اسلوب نگارش ان کا اپنا ہے جو خالص انہی کا ہے، جس پر کسی اور نثر نگار کی کوئی چھاپ نہیں ہے۔ جس طرح مشاعروں کی نظامت کے دوران ان کی زبان سے خوبصورت جملے ڈھلے ڈھلائے انداز میں ادا ہوتے تھے اسی طرح مضامین میں بھی تراشیدہ جملے ان کی نثر کو خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضامین کا مجموعہ نہیں بلکہ انور جلال پوری کی نثری شاعری ہے۔

انور جلال پوری نے اپنی پوری زندگی مشاعروں کی نذر کر دی۔ انھوں نے غالباً نومبر میں مسقط کے مشاعرے کی جو نظامت کی تھی وہ ان کی زندگی کی آخری نظامت تھی۔ اس دشت کی سیاحی نے ان کو ایک مشاہداتی نظر عطا کی تھی جو ان کے علم و وجدان میں اضافہ کا سبب بنی۔ ان کی نظر کسی بھی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے وقت صرف بیرونی عناصر کا ہی احاطہ نہیں کرتی بلکہ درونِ ذات کے پردوں کو بھی چاک کر دیتی تھی اور وہ سب کچھ دیکھ لیتی تھی جو عام نظر نہیں دیکھ پاتی۔ ان کا قلم مشاہداتِ ذات کو اس طرح صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا تھا کہ ایک بے حد خوبصورت تصویر ہمارے سامنے آجاتی تھی۔ انور جلال پوری جس کے بارے میں لکھتے اس کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کا احاطہ کرتے اور شخصیت کے مثبت و منفی دونوں پہلوؤں کو پیش کر دیتے۔ لیکن اس حوالے سے وہ ایمانداری و دیانت داری کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے اور جو کچھ مشاہدہ کرتے اسے بلا کم و کاست ہمارے سامنے رکھ دیتے لیکن اس انداز میں کہ کسی بھی جملے میں صاحب تذکرہ کے تعلق سے ذم کا کوئی پہلو نہیں نکلتا نہ ہی بیجا تنقید کا کوئی تاثر ہی پیدا ہوتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ دوستانہ تعلق کو قلم پر حاوی نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی کسی ستائشی جملے سے خوشامد یا بیجا طرفداری کا ہی کوئی پہلو نکلتا۔ جب وہ لکھتے تو ان کا قلم تعصب و تنگ نظری سے بالکل پاک ہوتا اور وہ جو کچھ لکھتے اس میں خلوص کا عمل دخل ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس کے بارے میں لکھتے وہ بھی اپنے بارے میں پڑھ کر محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتا خواہ اس کی شخصیت کی منفی باتیں ہی کیوں نہ پیش کی جا رہی ہوں۔

’’روشنائی کے سفیر‘‘ میں کل ۲۱ مضامین ہیں جن میں سے ایک مضمون نثر کے تعلق سے ان کے نظریات وخیالات کے بارے میں ہے اور ایک ان کے اپنے خاندان کے بارے میں ہے۔ جبکہ ایک مضمون میں، جس کا بڑا پیارا عنوان ہے ’’میں خود کو باندھنے میں کئی بار کھل گیا‘‘ انھوں نے اپنی ذات کی پرتوں کو ادھیڑا ہے۔ اس میں زمانہ طالب علمی سے لے کر بعد تک کے حالات کا مشاہداتی انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ اپنے شہر جلال پور کے بارے میں بھی انھوں نے لکھا ہے اور بعض شخصیات کے تعلق سے بھی دلچسپ تبصرہ آرائی کی ہے۔ انھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے ناظم مشاعرہ بننے کے پیچھے جلال پور کے ادبی ماحول کا ہاتھ رہا ہے۔ اس مضمون کا دامن جب جلال پور اور گرد ونواح کے حالات کے تذکرے کے لیے تنگ پڑنے لگا تو انھوں نے ’’یہ بستیاں ہماری۔جلال پور‘‘ کے عنوان سے ایک اور مضمون قلمبند کیا جس میں انھوں نے جلال پور کی تاریخ بیان کی ہے۔

ا س کے بعد انور جلال پوری اپنی ذات، اپنے خاندان اور اپنے علاقے کی حدود سے باہر نکلتے ہیں اور مختلف شخصیات پر قلم اٹھاتے ہیں۔ علامہ اقبال او رمولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے سحر سے کون صاحبِ دل بچا ہوگا۔ انور بھی نہیں بچے۔ اس تعلق سے ان کے خیالات چغلی کھاتے ہیں کہ انھیں مذکورہ دونوں شخصیات سے عقیدت ہے۔ اقبال پر تین مضامین اقبال کی عبقریت، اقبال خود آگاہی کا نقیب اور اقبال انسانی عظمت کا پیغامبر شامل کتاب ہیں۔ جبکہ مولانا آزاد پر ایک مضمون ہے جو ان کے ایک تاریخی خطبے کو محیط ہے۔

یوں تو اس مجموعہ کے تمام مضامین قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہیں لیکن میرے لیے بعد کے وہ مضامین زیادہ پرکشش نظر آئے جو کہ اس دور کے چند کامیاب شعرا کی شخصیات کے حوالے سے ہیں۔ انور جلال پوری نے ان مضامین کو تاثراتی مضامین قرار دیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تاثراتی کے ساتھ ساتھ بہترین خاکے بھی ہیں۔ بلکہ میرے نزدیک یہ خاکے زیادہ ہیں۔ انھوں نے جس طرح ان مضامین میں ذاتی تاثرات کو سمویا ہے اس سے ان شخصیات کا ذکر ’’ذکر جمیل‘‘ میں بدل گیا ہے۔ جن شعرا پر ان کے مضامین ہیں ان سے ان کے ذاتی رشتے بھی ہیں اور پیشہ ورانہ تعلقات بھی۔ ان میں سے کئی بقول ان کے ان کے سینئر ہیں اور کئی ان کے ہم عصر۔ ان کے بارے میں انھوں نے ابتدا ہی میں لکھ دیا ہے ’’میں نے اپنی غیر جانبدار نظروں سے لوگوں کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ کسی خاص نظریے کا پابند میں کہیں نہیں بنا ہوں۔ ان میں سے بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جو مشاعروں کے توسل سے ساری اردو دنیا میں نہ صرف جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ بے انتہا مشہور اور مقبول بھی ہیں۔ ان کی اسی شہرت اور عوامی چاہت کی وجہ سے بہت سے نام نہاد نقاد ان کے فکر و فن کے نقائص کی زیادہ تلاش میں رہتے ہیں۔ اور اگر کبھی قلم بھی اٹھاتے ہیں یا انھیں موضوع گفتگو بھی بناتے ہیں تو ان کی ہر ادا سے بغض، حسد او رکینہ کی بو آتی ہے‘‘۔ اب میں یہ بھی بتا دوں کہ وہ کون سی شخصیات ہیں جن کے بارے میں انور جلال پوری نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ ہیں : ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، عمر قریشی، ثقلین حیدر، خمار بارہ بنکوی، بشیر بدر، راحت اندوری اور منور رانا۔

عمر قریشی کو انور جلال پوری نے ’’میرے ذہن کا پہلا ساحر‘‘ کہا ہے۔ اگر انور جلال پوری اسے بے ادبی تصور نہ کریں تو میں عرض کروں گا کہ میں بھی عمر قریشی کو ایک ساحر ایک جادوگر مانتا ہوں۔ وہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا جب میرے ذہن پر عمر قریشی کا پہلا جادو چلا تھا۔ یہ غالباً ۱۹۷۶ء کی بات ہے۔ اس وقت میں گورکھپور میں زیر تعلیم تھا۔ انہی دنوں گورکھپور میں ایک نعتیہ مشاعرہ ہوا تھا جس کی نظامت عمر قریشی نے کی تھی۔ اتنا طویل وقفہ بیت چکا ہے لیکن وہ مشاعرہ اور بالخصوص عمر قریشی کی نظامت آج تک میرے ذہن کے پردے پر فلم کی مانند چل رہی ہے۔ مشاعرہ تو خیر اچھا تھا ہی نظامت اس سے بھی اچھی تھی۔ عمر قریشی جب شعرا کا تعارف کراتے تھے تو ان کے اور ان کے شہروں کے ناموں کے حوالے سے ایسی گفتگو کرتے تھے کہ سامعین کو باندھ دیتے تھے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کی ’’ذہن بندی‘‘ کر دیتے تھے۔ اس نعتیہ مشاعرے میں حق کانپوری اور ثروت نواز لکھنوی جیسے کئی مقبول شعرا شریک تھے اور ان کے ناموں اور نعتوں کے حوالے سے انھوں نے جو شاندار جملے ادا کیے تھے وہ آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے سب سے پہلے یہی مضمون پڑھا اور عمر قریشی کی شخصیت کے سحر اور انور جلال پوری کی پر اثر تحریر میں کافی دیر تک کھویا رہا۔

انور جلال پوری کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ جب کسی کا تعارف کراتے ہیں تو شخصیت کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔ کسی کا سراپا بیان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ شخص ہمارے سامنے اپنے دونوں قدموں پر کھڑا ہے اور ہم اسے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ انور جلال پوری نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’نثر نگاری بھی ایک طرح کی وکالت ہے۔ اس میں بھی ہر دعوا کو دلیل کا لباس پہنانا پڑتا ہے‘‘۔ لہٰذا میں بھی اپنے دعوے کو دلیل کا لباس پہناتے ہوئے ان کے مضمون سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں او رمجھے امید بلکہ یقین ہے کہ جن لوگوں نے عمر قریشی کو دیکھا ہوگا وہ اس اقتباس کو پڑھ کر پکار اٹھیں گے کہ ہاں ہاں یہی عمر قریشی ہیں۔ انور جلال پوری عمر قریشی کا سراپا یوں بیان کرتے ہیں ’’سانولا رنگ، بوٹا سا قد، ہندوستانی جمہوریت کی صدارت کی شرطوں کو پوری کرتی ہوئی عمر، آنکھوں میں خود اعتمادی کا نشہ اور پیشانی پر تہذیب و شرافت کی چمک،گفتگو میں شہد کی مٹھاس اور نشست و برخاست میں اردو تہذیب کے ماضی کے نگار خانے کی جھلک‘‘۔ یہ تو ہوا ان کا ظاہری سراپا۔ وہ عمر قریشی کی شخصیت کے دوسرے یعنی باطنی پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’یہ دوسرا رخ عمر صاحب کی شخصیت کی قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے۔ یہ رخ افسانوں کی تہوں میں چھپی ہوئی حقیقت کے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ رخ عمر صاحب کی چمک دار شخصیت کے سینے میں پرورش پانے والے رنج و الم، دکھ اور کرب، انتشار او رہیجان کا نمائندہ ہے۔ یہی رخ ان کی شہرت کو استقلال اور ان کی مقبولیت کو استحکام عطا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہی رخ عمر صاحب ہی کے لیے نہیں بلکہ کسی بھی صاحب فن کے لیے شہرت عام اور بقائے دوام کا سبب بنتا ہے۔ یہ رخ ہے ان کے شاعرانہ شعور، ان کی فنی مہارت اور ان کی فکری بصیرت کا۔ اس منزل پر بھی عمر صاحب کا کردار دوسرے شعرا کے مقابلہ میں ایک ستون عظمت دکھائی دیتا ہے‘‘۔ یہ دونوں اقتباسات عمر قریشی کی شخصیت کو اس قدر کھول کر بیان کر دیتے ہیں کہ اگر انور نے ان کے بارے اس کے علاوہ اور کچھ نہ لکھا ہوتا تب بھی عمر قریشی کی شخصیت مکمل ہوتی ادھوری نہیں۔

انور جلال پوری کی اس خوبصورت نثر کا ایک اور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ وہ بشیر بدر کا تعارف یوں کراتے ہیں ’’دبلا پتلا بدن، جسم پر بہت ہی معمولی کپڑے کا پینٹ اور کوٹ، آنکھوں پر چشمہ جس کا فریم اپنے پرانے پن کی خود ہی گواہی دے رہا ہے۔ دانت بڑے، سفید اور چمکیلے جنھیںہونٹ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی چھپانے میں ناکام تھے۔ پچکے ہوئے گال جو ان کی اقتصادی کمزوری کے مظہر تھے۔ پیشانی قدرے کشادہ جسے دیکھ کر کوئی بھی قیافہ شناس ان کے مستقبل کو پڑھ سکتا تھا۔ سر کے بالوں کی تعداد اتنی کم، جنھیں دیکھ کر یقین ہوتا تھا کہ یہ شخص دن میں تھکتا ہے اور راتوں میں جاگتا ہے‘‘۔ (یہ ۱۹۶۵ء کے بشیر بدر کا سراپا ہے جب وہ مملکت سخن میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اور مقام ہے مشرقی اتر پردیش کا ادب نواز قصبہ صبرحد)۔

میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیں تاکہ میرا دعویٰ مزید پختہ ہو جائے۔ ’’پہلی ہی نظر میں وہ آنکھوں میں سما گیا۔ دل میں اتر گیا۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ اس کی صورت، اس کی ہیئت اور اس کا پورا وجود عام شعرا سے مختلف تھا۔ اس کی آنکھوں سے بغیر پیے ہوئے نشہ چھلک رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ پینے کے بعد کیا ہوگا۔ اس کے بال بہت گھنے تو نہیں تھے لیکن ان میں سیاہ ریشم کی چمک تھی۔ دانت اتنے سفید اور چمکیلے جیسے پان، کتھا، چونا، ڈلی اور تمباکو سے ان کا تعارف ہی نہ ہوا ہو۔ پیشانی اتنی کشادہ جس کی لکیروں پر اس کے روشن مستقبل کی تحریریں پڑھی جا سکتی تھیں۔ قد اتنا مناسب کہ ہزاروں کے مجمعے میں اپنے امتیاز کو قائم رکھ سکے۔ مگر رنگ ایسا جسے دیکھ کر افریقہ کے درجنوں ملکوں کے سربراہوں کے چہرے نظر میں گھوم گئے۔ لیکن نگاہ تصور جا کر ٹھہر گئی رضیہ سلطان کے تاریخی عاشق یاقوت پر…کاش یہ شخص پہلی مرتبہ کسی مذہبی جلسے میں ملا ہوتا تو میں خود اس سے پوچھنے کی جسارت کرتا کہ آپ کا شجرۂ نصب حضرت بلال حبشیؓ سے تو نہیں مل رہا ہے۔ مگر وہ جس عالم میں ملا تھا مجھے یہی شبہ ہو رہا تھا کہ اس شخص نے پہلا سپارہ بھی پڑھا ہے یا نہیں‘‘۔ آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ یہ راحت اندوری کے علاوہ کسی اور کا سراپا نہیں ہو سکتا کسی اور کا تعارف نہیں ہو سکتا۔ بالکل صحیح پہچانا۔ یہ اقتباس ’’راحت۔میرا یار‘‘ نامی مضمون سے لیا گیا ہے۔

انور جلال پوری نے اس مجموعہ میں جتنے بھی تاثراتی مضامین لکھے ہیں وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن شعرا پر انھوں نے اظہار خیال کیا ہے وہ سب ان کے ہم نشین و ہم مشاعرہ ہیں لیکن یہ بھی قابل ذکر ہے کہ انھوں نے نہ تو کسی پر بیجا تنقید کی ہے او رنہ ہی کسی کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں۔ نہ تو کسی کی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی کی شان میں غلو سے کام لیا ہے۔ جس کی جیسی شخصیت ہے ویسی بیان کر دی ہے۔ اب اگر کسی کو وہ ناپسند ہو تو ہو اس سے ان کو کوئی غرض نہیں، اس کی انھیں کوئی پروا نہیں۔ غیر جانبداری ان کی تحریر کا ایک نمایاں وصف ہے جو جگہ جگہ جلوہ گر ہے۔

بشیر بدر کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں مگر ان میں بہت سی ایسی خوبیاں یا خامیاں بھی ہیں جو ان کے کردار کا ایک الگ پہلو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔ انور جلال پوری لکھتے ہیں:

 ’’ڈاکٹر بشیر بدر کو اپنی بڑائی اور اپنی اہمیت کا احساس ہے۔ وہ اپنے کو کبھی ثانوی حیثیت میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس کے لیے وہ کوششوں سے زیادہ حرکتیں کرتے ہیں۔ وہ کسی سے بھی راستہ نہیں مانگتے بلکہ ترکیبیں لگا کر اسے پیچھے کر دیتے ہیں اور خود آگے نکل جاتے ہیں۔ ان کے آگے بڑھنے میں اگر کوئی کچل بھی جائے تو بشیر بدر اس سے معذرت بھی نہیں کرتے۔ انھیں اپنی بڑائی او راہمیت کا پروپیگنڈہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس ہوتی۔ وہ انکساری کو جھوٹ کی ایک قسم سمجھتے ہیں مگر ان کے سچ کی سرحدیں کبھی کبھی مبالغہ اور غلو سے مل جاتی ہیں۔ وہ ذاتی صحبتوں میں اپنے تفریحی انداز میں کبھی کبھی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس طرح کی باتوں پر کسی زمانے میں گردنیں اڑا دی جاتی تھیں اور زبانیں کھینچ لی جاتی تھیں۔ مگر وہ موقع محل کو پہچانتے ہیں۔ وہ بت خانے میں اذان نہیں دے سکتے بلکہ بتوں میں بھی خدا کا جلوہ دیکھ سکتے ہیں‘‘۔

لیکن بشیر بدر کی شاعری کا اعتراف کرتے ہوئے انور جلال پوری کو یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں :

 ’’بشیر بدر کے اشعار ہندوستانی پارلیمنٹ میں بھی پڑھے گئے، مختلف اسمبلیوں میں بھی، مذہبی جلسوں میں بھی نقل کیے گئے اور فلمی اداکاروں کی تحریروں میں بھی۔ شراب خانوں کی دیواروں پر بھی لکھے ہوئے ملے اور شرفا کے ڈرائنگ روم میں بھی، کسانوں کے ٹریکٹروں پر بھی اور ماروتی کاروں میں بھی اور شاید یہی ہندوستان کے جمہور ہیں…بشیر بدر نے ہماری شاعری اور ہمارے ادب کو اتنا کچھ دے دیا ہے کہ آئندہ کوئی بھی شعری تذکرہ اور تنقیدی تبصرہ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ انھوں نے اپنی موت کا سوگ تہوار کی طرح منانے کا انتظام کر دیا ہے‘‘۔

خمار بارہ بنکوی کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ انھیں آبروئے غزل کہا جاتا تھا اور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ جگر مرادآبادی کے ورثے کے امین ہیں اور اپنی پوری تخلیقی قوت کے ساتھ اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ خمار کی شخصیت سے انور جلال پوری بھی متاثر ہیں اور ان کے کلام کو وہ بھی پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کی شرافت کی قدر کرتے ہیں اور ان کو کلاسیکل غزل کا نمائندہ شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خمار صاحب نہ بت تراش تھے نہ بت شکن۔ یعنی انھوں نے کسی نئے ازم کی نہ تو تقلید کی نہ کسی روایت کو توڑا۔ بلکہ مروجہ شعر وادب کے میلے میں وہ اپنی انفرادیت کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ خمار بارہ بنکوی کا کلام حسن و عشق کے ذکر سے عبارت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشاعروں میں ان کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب ان کا انفرادی ترنم اور ان کی اپنی طرز ادا ہے۔ ان کی شخصیت کا بانکپن ان کی غزل گوئی میں بھی موجود ہے اور ان کے مخصوص ترنم میں بھی۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ خمار صاحب کی وہ غزلیں پڑھیں جو انھوں نے کسی مشاعرے میں اپنے مخصوص انداز میں نہیں سنائی ہیں تو آپ کو کوئی لطف نہیں ملے گا۔ ان اشعار کو پڑھ کر آپ چونکیں گے نہیں۔ یعنی ان میں کوئی ایسی نئی بات آپ کو نظر نہیں آئے گی جو آپ کی زبان سے واہ واہ نکلوا دے۔ لیکن اگر وہی اشعار خمار صاحب اپنے مخصوص ترنم میں سنائیں تو آپ کو مجبوراً داد دینی ہی پڑے گی۔ یہی باتیں انور جلال پوری نے اپنے مخصوص انداز میں کہی ہیں۔ انھوں نے بجا طور پر لکھا ہے :

  ’’خمار صاحب کے افکار میں نہ تو گہرائی تھی نہ وسعت۔ یہی ان کی کمزوری تھی اور یہی ان کی خوبی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر فکر کی گہرائی اور وسعت کے چکر میں اپنی شاعری کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتا۔ وہ یا تو گہرائی میں ڈوب جاتا ہے یا وسعت میں کھو جاتا ہے۔ یعنی نہ تو وہ لہجے کی حفاظت کر پاتا ہے نہ ڈکشن کا تحفظ۔ خمار صاحب نے اپنے افکار کا ایک دائرہ متعین کر رکھا تھا۔ انھوں نے اپنی سوچ کی ایک لچھمن ریکھا بنا رکھی تھی‘‘۔

انور جلال پوری کا یہ انداز تحریر ان کے ہر مضمون میں موجود ہے۔ خواہ وہ ملک زادہ منظور احمد کے حوالے سے باتیں ہوں یا مشاعروں کی قومی یکجہتی کی ضمانت سے متعلق گفتگو ہو۔ ملک زادہ منظور احمد کے بارے میں ان کی اس رائے سے شاید ہی کوئی غیر متفق ہو کہ ’’مشاعروں سے ڈاکٹر صاحب کا تعلق وہی ہے جو تاج محل سے شاہ جہاں کا۔ جس طرح یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ تاج محل زیادہ خوبصورت ہے یا شاہ جہاں کے ذہن کی تخئیل اسی طرح یہ بھی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے ملک میں مشاعرے زیادہ مقبول ہوئے یا ملک زادہ منظور احمد کا انداز تعارف۔ مشاعرے کو ادب اور تہذیب کا جز بنانے میں ڈاکٹر صاحب کا جو کردار ہے اسے جدید ہندوستان میں ادب اور کلچر کا مورخ ہمیشہ جلی حروف سے لکھے گا‘‘۔

 سیدھی اور سچی بات یہ ہے کہ انور جلال پوری نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس کے بارے میں نہ تو مرعوبیت کا طعنہ دیا جا سکتا ہے او رنہ ہی تنقید و تنقیص کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نہ تو کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے اور نہ ہی کسی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ چشمے کے اندر سے جھانکتی ہوئی سرمگیں آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، جو کچھ پرکھا ہے اور جو کچھ برتا ہے وہ حشو وزوائد سے پاک اور بلا کم و کاست اس کتاب میں موجود ہے۔ انتہائی معروضی مگر دلچسپ انداز میں شخصیات کا خاکہ انھوں نے کھینچا ہے۔ بعض مقامات پر والہانہ پن آگیا ہے لیکن اس کے باوجود انصاف کا ترازو کسی ایک پلڑے کی جانب جھکنے نہیں پایا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔