شیخ مبارک بودلے جائسی اور اودھ میں دعوت اسلام (پہلی قسط)

ڈاکٹر محسن عتیق خان

 شیخ مبارک بودلے جائسی، ؒ جو عوام میں ” حضرت شاہ سید مبارک بودلےؒ” کے نام سے مشہور ہیں ، ان عظیم برگزیدہ داعیان اسلام میں سے ایک تھے جنہوں نے ہندوستان اور بطور خاص اودھ میں اسلام کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ سولہویں صدی عیسوی میں روشنی کا ایک ایسا مینار تھے جس نے اودھ کے ایک و سیع خطہ کو اسلام کی روشنی سے منور کیااور مختلف راجگانِ اودھ کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔

آپ کاخاندان: 

 آپ شریف النسب حسنی سادات کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کا سلسلئہ نسب حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۱؎ سے ملتا ہے۔ آپ کے جد اعلی سید عبدالرزاق نور العین حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دسویں پشت میں تھے، اور چودہویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ  ۲؎ کے خالہ زاد بہن کے فرزند تھے۔

 حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ جب 764؁ھ بمطابق 1362؁ء میں عراق کے دورے پر گئے تو جیلان بھی تشریف لے گئے جہاں سید عبدالرزاق آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے گرویدہ ہوگئے۔ جب حضرت سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے جیلان سے رخت سفر باندھا توسید عبدالرزاق جو اس وقت بارہ سال کے تھے آپ کے ساتھ چلنے پر بضد ہوئے اور کسی بھی طرح آپ سے الگ ہو کر اپنے وطن میں رہنا گوارہ نہ کیا۔ آخر کار سید عبدالرزاق کے والد سید عبدالغفور کی اجازت سے حضرت سمنانی ؒ نے سید عبدالرزاق کو اپنی فرزندی میں لے لیا، اور نور العین کے لقب سے نوازا، اور تاحیات اپنی صحبت میں رکھا۔ ۳؎

 حضرت سید عبدالرزاق نور العینؒ نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی اور تقریبا اڑسٹھ سال حضرت سمنانی ؒ کی خدمت میں گزارے۔ ۴؎ان کے چار صاحبزادے تھے جن کے نام اس طرح ہیں :سید حسن، سید حسین، سید فرید، سید احمد۔ جب حضرت سمنانی ؒ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت عبدالرزاق ؒکے چاروں فرزندوں کو بلابھیجا اور انہیں الگ الگ مقامات کی خلافت عطا کی اور خانقاہوں کے قیام کی ہدایت فرمائی۔ سب سے بڑے بیٹے سید حسن کو کچھوچھا، سید حسین کو جونپور، سید فرید کو ردولی اور سب سے چھوٹے بیٹے سید احمد کو جائس کی خلافت عطا کی۔ ۵؎

مؤخر الذکر سید احمدؒ جو بندگی میاں کے نام سے معروف ہوئے حکم کے بموجب جائس کے لئے روانہ ہوئے اورٹھیک اس مقام پر اقامت اختیار کی جہاں حضرت سمنانی ؒ دوران قیام جائس خیمہ زن ہوئے تھے، اور وہاں پر ایک خانقاہ قائم کی جو حضرت اشرف جہانگیر سمنانی ؒکی نسبت سے خانقاہ اشرفیہ کے نام سے قرب وجوار میں معروف ہوئی، اور اسی نسبت سے آگے چل کر سید احمد بندگی میاں کی نسل خانوادۂ اشرفیہ کے نام سے موسوم ہوئی۔

سید احمد بندگی میاں کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے سید حاجی قتالؒ ؒنے خانقاہ کا انتظام سنبھالا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں پوتوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بھی بحسن وخوبی انجام دی اس لئے کہ ان کے فرزند جناب سید جلال اوّل ؒاپنے دو صاحبزادوں شیخ مبارک بودلے اورشیخ سید کمال کی پیدائش کے بعد جوانی ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ ۶؎

شیخ مبارک بودلےؒ اور شیخ کمال ؒ کا تذکرہ سو لہویں صدی کے مشہور صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے اپنے ادبی شاہکارپدماوت کے شروع میں کیا ہے اور ان کی خوب خوب تعریفیں کی ہیں اور ان کے ساتھ اپنی عقیدت وارادت کا اظہار کیا ہے، وہ کہتے ہیں :

جہانگیر وے  چستی  نہکلنک جس  چاند

 وہ مخدوم جگت کے ہوں ا وہ گھر کے  باند

ترجمہ : خاندان چشتیہ حضرت اشرف جہانگیر جو مانند چاند تمام عیوب سے پاک صاف ہے، جن کی خدمت تمام دنیا نے کی میں ان ہی کا غلام ہوں ۔

 اوہ گھر رتن ایک نرمرا

حاجی شیخ سبے گن بھرا

ترجمہ: ان کے گھر ایک لڑکا گوہرِ نایاب نہایت صاف وشفاف پیدا ہوا، جو تمام ہنر کا مخزن تھا اور جس کا نام حاجی شیخ تھا۔

  تیہ گھر  دوئی دیپک  اجیارے

     پنتھ دیئی  کہنہ  دیو  سنوارے

ترجمہ: ان کے گھر میں مثلِ چراغ کے روشن دو لڑکے پیدا ہوئے، گویا خدا نے انھیں عوام کی رہبری کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔

  شیخ مبارک پو  نیو کرا  ۷ ؎

     شیخ کمال جگت نرمرا

ترجمہ: اول شیخ مبارک بودلےؒ جو چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھے، دوسرے شیخ کمال جو تمام عالَم میں پاک وصاف تھے۔

 دو ؤ اچل دھوؤ ڈولہ ناہیں

     میر کھکھند تنہنہ  اپرا ہیں

ترجمہ: یہ دونوں حضرات مثلِ قطب ستارہ اپنی جگہ پر قائم تھے، کوہِ سمیر اور کوہِ  کشکند ھا سے بھی اعلی مرتبہ تھے۔

سے بھی اعلی مرتبہ تھے۔

  دینھ  روپ  اوجوت گوسائیں

     کینھ کھمبھ دوئی جگ کے تائیں

ترجمہ: خدا نے انھیں خوبصورتی د ی اور نور عطا فرمائی اور دنیا میں گویا دو ستون کھڑے کردیے ہیں ۔

  دہوں کھمبھ ٹیکے  سب  مہی

    دہوں کے بھار سسٹ تھر رہی

ترجمہ:  وہ دونوں ستون اس زمین کو سنبھالے ہوئے ہیں ، انہیں دونوں کے سہارے یہ تمام خلقت رکی ہوئی ہے۔

 جیہ در سے اوپر سے پایا

     پاپ ہرا نرمل بھے کایا

ترجمہ :  جنھوں نے انکا دیدار اور قدمبوسی حاصل کی، ان کے تمام گناہ معاف ہوگئے اور جسم پاک وصاف ہوا۔

  محمد تیئی نچنت پتھ جیہ سنگ مرسد پیر

     جیہ کے ناواو کھیوک بیگ لاگ سو تیر

ترجمہ:  اے ملک محمد! راہِ دنیا میں وہی بے فکر ہے جس کے ہمراہ مرشد وپیر ہیں ، جس کو کشتی اور ملاح میسر ہیں وہ جلد سے جلد کنارے لگ جاتا ہے۔ ۸؎

شجرۂ نسب:   

 شیخ مبارک بودلے کا شجرۂ نسب اس طرح ہے :

شیخ مبارک بودلے بن جلال اول بن حاجی قتال بن سید احمد(بندگی میاں ) بن عبدالرزاق نورالعین بن سید عبدالغفورحسن بن سید احمد جیلی بن سیدابوالحسن بن سید موسی شریف بن سید علی شریف بن سید محمد شریف بن سید حسن بن سید احمدشریف بن سید ابی نصیر محی الدین بن سید ابوصالح بن سید عبدالرزاق بن سید عبدالقادر جیلانی  بن سید محمد ابوصالح بن سید محمد موسی جیلی بن سید زاہد بن سید عبداللہ بن سید یحی بن سید محمد بن سیدداؤد بن موسی الجولی بن عبداللہ محض بن سید شمس الدین مثنی بن امام حسن ؓ بن سیدنا علی ؓبن ابی طالب۔ ۹؎

ولادت:  

 شیخ مبارک بودلے ؒ کی ولادت کی تاریخ کا تعین یقینی طورپر نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ آپ کی تاریخِ ولادت کا تذکرہ نہ تو عبدالحئی حسنی ؒ نے کیا ہے اور نہ ہی عبدالقادر جائسی نے، مگرآپ کے دعوتی کارناموں ، آپ کے خلفاء نظام الدین امیٹھوی اور ملک محمد جائسی کی تواریخِ ولادت، اور خود آپ کی تاریخِ وفات کو مدنظر رکھ کر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آپ پندرہویں صدی عیسوی کے ربع آخِر میں پیدا ہوئے ہوں گے۔

تعلیم وتربیت: 

  جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، شیخ مبارک بودلےؒ کے والد ماجد جوانی ہی میں انتقال کر گئے تھے اس لئے آپ نے اپنے دادا جناب سید حاجی قتال کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی اور انہیں کی نگرانی میں پروان چڑھے۔ چار سال کی کم سن عمر میں آپ نے مکتب جانا شروع کر دیا اور سات سا ل کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ نے حفظ قرآن مکمل کر لیا۔ اس کے بعد آپ علم ظاہری کی طرف متوجہ ہوئے، اور بیس سال کی عمر میں تمام معقول ومنقول علوم کے حصول سے فارغ ہوئے۔ ۱۰؎

حج کے لئے روانگی : تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے دادا بزرگوار کے حکم پر آپ تقریباًپانچ سال تک افادہ واستفادہ میں مشغول رہے اور طالبان علوم نبوت کو فیض پہنچاتے رہے۔ پچیس سال کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ حج کا قصد کیا اور حرمین شریفین میں تقریبا تین چار سال گزارے اور وہاں کے علماء سے کسبِ فیض کیا۔ ۱۱؎

شادی:   

 جب آپ حج بیت اللہ سے واپس آئے تو آپ کی عمر تیس برس کی ہو چکی تھی اس لئے دادا بزرگوار کے حکم سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ ۱۲؎

خلافت:

تعلیم سے فراغت، حج کی ادائیگی اور پھر ازدواجی زندگی سے جڑنے کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ آپ خلافت سے مشرف ہوں اورمسند ارشاد پر متمکن ہوں ۔ چنانچہ آپ کے جد امجد سید حاجی قتال نے آپ کو خرقئہ خلافت عطا کیا اور طالب علموں کی تدریس، مریدوں کی تربیت اور فقراء کی خدمت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کر کے خود عبادت وریاضت میں مشغول ہوگئے۔ خلافت عطا کرتے وقت آپ کے جد بزرگوار نے تاکید کی کہ آپ سلاطین وامراء کی ملاقات سے گریز کریں ، ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھیں اور فقراء وطالب علموں کی خدمت کریں ۔ ۱۳؎

حوالہ جات

۱؎   آپ کی بے مبالغہ اور معتدل سیرت کے لئے ملاحظہ ہو’’تاریخ دعوت وعزیمت، ج1، ازمفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ،

مطبوعہ مجلس تحقیقات ونشریات، لکھنؤ۔

 ۲؎    آپ کی سیرت کے مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو’’بزم صوفیاء ‘‘از صباح الدین عبدالرحمن، مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ

 ۳؎    یمنی، نظام الدین، لطائف اشرفی، مخدوم اشرف اکیڈمی، کچھوچھہ، ص56۔

 ۴؎   ایضا، ص15

 ۵؎    سید، اقبال احمد، تاریخ شیراز اہند جونپور، مطبع نامی پریس، لکھنؤ، 1983ء؁، ص 579-580

 ۶؎    خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، لکھنؤ، ص6

۷؎     میرے سامنے اس وقت پدماوت کے دو نسخے ہیں ، ایک اردو رسم الخط میں ہے جوپنڈت بھگوتی پرساد کے ترجمے کے ساتھ مطبع نول کشور، لکھنؤ سے شائع ہوا ہے،  اور دوسرا دیوناگری رسم الخط میں ہے جو ڈاکٹر ماتا پرساد گپت کی تحقیق و ترجمے کے ساتھ نومبر۱۹۶۳؁ میں بھارتی بھنڈار پریس الہ آباد سے شایٔع ہوا ہے۔ اشعار مع ترجمہ اول الذکر سے ماخوذ ہیں مگر اس میں "مبارک "کی جگہ پر” محمد” لکھا ہوا ہے، جبکہ مؤخرالذکر میں ، جو کہ پدماوت کے مختلف نسخوں سے رجوع کرنے کے بعد تیار کیا گیا ہے، "مبارک” ہی لکھا ہوا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ نمبر ۱۴۔

۸؎        جائسی، ملک محمد، پدماوت، ، مطبع نول کشور، لکھنؤ، صفحہ : ۹

 ۹؎        یمنی، نظام الدین، لطائف اشرفی، مخدوم اشرف اکیڈمی، کچھوچھہ، صفحہ۱۴

۱۰؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی)، ذاتی لائبریری مولانا سلمان اشرف، ص6، (ندوۃ العلماء کے نسخہ میں حفظ کا تذکرہ نہیں ہے ا س لئے مغالطہ ہوتا ہے کہ آپ نے نو ہی سال کی عمر میں تمام معقول ومنقول علوم حاصل کرلئے تھے جو صحیح نہیں ہے، ص6)

۱۱؎   خان، عبدالقادر جائسی، تاریخ جائس(قلمی) نسخہ کتب خانہ ندوۃ العلماء، ص8

 ۱۲؎  ایضا، ص8

۱۳؎   ایضا، ص8

تبصرے بند ہیں۔