محدث شیخ مصطفی اعظمیؒ اور ان کا علمی کارنامہ

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

بیس دسمبر2017بروزبدھ کو عصرحاضرمیں حدیث کے معروف محقق شیخ مصطفی اعظمی کا ریاض میں 87سال کی عمرمیں انتقال ہوگیا۔ ان کی تدفین اسی دن الراجحی مسجد ریاض میں نمازظہرکے بعد ہوئی۔

برصغیرمیں لوگ عام طورپر ڈاکٹرمصطفی اعظمی کے بارے میں ناواقف ہیں اوراسی ل‍یے خودعلمااوراہل مدرسہ بھی ان کی قدردانی سے محروم رہے۔ جس کا حال شیخ کی وفات پر اردواخبارات میں معمولی خبراورعلی گڑھ میں ہوئی دومختصرتعزیتی نششتوں سے معلوم ہوجاتاہے۔ جبکہ اخباری شہرت رکھنے والے علما، خطیبوں اورواعظوں پر یہ امت فداہوتی ہے۔ اس سے بھی امت مسلمہ کے عمومی علمی افلاس وزبوں حالی کا پتہ چلتاہے۔ البتہ ریاض میں مقیم قاسمی برادری نے ایک تفصیلی تعزیتی تقریب منعقدکی اورمحدث مرحوم کے کارناموں سے سامعین کوواقف کرایا۔

شیخ مصطفی اعظمیؒ سعودی عرب کی دوبڑی یونیورسٹیوں ام القری مکہ اورملک سعود ریاض میں فرائض تدریس انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قطرکی نیشنل لائبریری میں کتابوں کے محافظ کے طورپر بھی کام کیا۔ وہ کنگ سعودیونیورسٹی میں پروفیسر امیرٹس تھے جہاں وہ شعبہ دراسات اسلامیہ کے چیرمین بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ وزٹنگ پروفیسرکی حیثیت سے کئی ساری مغربی یونیورسٹیوں میں آتے جاتے رہے۔ جن میں مشی گن میں وزٹنگ پروفیسر، سینٹ کراس کالج (یونیورسٹی آف آکسفورڈ)میں وزٹنگ فیلو، کنگ فیصل استاذزائربرائے دراسات اسلامیہ پرنسٹن یوینورسٹی، وزٹنگ اسکالریونیورسٹی آف کولوراڈوشامل ہیں ۔ مزید برآں یونیورسٹی آف ویلزنے ان کو آنریری پروفیسرکا درجہ دیا۔

۷۸سالہ شیخ اعظمی یوپی کے شہرمﺅسے تعلق رکھتے تھے جوعلامہ حبیب الرحمن محدث اعظمیؒ کا بھی وطن تھااوراستاذمحترم اورعربی کے مشہورصحافی وادیب ڈاکٹرسعیدالرحمن الاعظمی مدیرالبعث الاسلامی بھی موو کے ہیں ۔ چونکہ اب سے کچھ مدت پہلے تک یہ شہربھی ضلع اعظم گڑہ میں آتاتھااس ل‍یے یہ حضرات اپنے نام میں اعظمی لکھتے ہیں ۔ اب موو الگ ضلع بن گیاہے۔ تقریبا25 سال ہوتے ہیں جب راقم دہلی کے مشہورسلفی ادارہ جامعہ اسلامیہ سنابل میں ثانوی درجات میں پڑھ رہاتھا، کسی مناسبت سے شیخ مصطفی کا ذکرآیاتوہمارے استاذحدیث نے فرمایاکہ یہ ہندوستان کے نہیں بلکہ عراقی ہیں ۔ بغدادکے محلہ اعظمیہ کی طرف منسوب ہیں۔ اب خداجانے یہ استادمحترم کی غلط فہمی تھی یامسلکی شدت کا نتیجہ۔ بہرحال کافی عرصہ تک ہم بھی اسی غلط فہمی میں رہے بعدمیں یہ غلط فہمی مطالعہ سے دورہوئی۔

شیخ مصطفی اعظمی نے دارالعلوم دیوبندسے1952میں فراغت حاصل کی۔ بعدازاں وہ 1955میں جامعہ ازہرمصرگئے، اورازہرسے کیمبرج۔ جہاں سے انہوں نے 1964میں تدوین حدیث پر منکرین حدیث اورمستشرقین کے اعتراضات کے علمی جائزہ پراپناپی ایچ ڈی کا مقالہ لکھاجس پر ان کواسی سال ڈگری ایوارڈ ہوئی۔ انگریزی میں ان کی اصل کتاب کا نام ہے :اسٹڈیزان ارلی حدیث لٹریچر:کتاب کا مقدمہ مشہورمستشرق پروفیسر آرجے بری نے لکھااورنگران ِمقالہ ایک دوسرامستشرق آربی سارجینٹ تھا، جنہوں نے مصطفی اعظمی کوکیمبرج میں متعارف کرایااورپھران کے مقالہ کی سپروائزری بھی منظورکی۔ اسی انگریزی کتاب کا عربی ترجمہ دراسات فی الحدیث النبوی کے نام سے مشہورہے۔ اس کتاب میں نیزاسلامی فقہ کے مصادرکے سلسلہ میں اپنی ایک اورکتاب:آن شاختس اوریجن آف محمڈن جورس پروڈینس اینڈلٹریچر:میں شیخ اعظمی نے حدیث وفقہ کے بارے میں مغربی دنیاکے تین بڑے مستشرقین :اگنازگولڈزیہر، ڈیوڈمارگیولیتھ اورجوزف شاخت کے خیالات پر علمی نقدکیاہے۔ اورعلمی دنیامیں اعظمی کے نقدکوزبردست پذیرائی ملی ہے۔ اب مستشرقین اوران کے زلہ ربامستغربین کے قرآن کی حفاظت اور حدیث وفقہ کی تدوین کے بارے میں دعاوی کوکوئی اہمیت علمی دنیامیں نہیں دی جاتی۔

اصل میں قدیم وجدیدمنکرین حدیث اورحدیث کے بارے میں شبہات پھیلانے والے مستشرقین کے دوبڑے بنیادی اعتراضات تھے :

۱۔ یہ دعوی کہ حدیث کی تدوین نبی اکرم ﷺ کی وفات کے ڈیڑھ دوسوسال بعدہوئی تب تک اس کی روایت محض سینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی اس لےے اس پر زیادہ اعتمادنہیں کیاجاسکتا۔

۲۔ یہ دعوی کہ نبی اکرم ﷺ نے حدیث کو لکھنے سے منع فرمادیاتھااوراسی لےے حضرات ابوبکرؓوعمرؓجیسے کبارصحابہ کوحدیث لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی اورانہوں نے جوحدیثیں ضبط تحریرمیں لائیں ان کومٹادیا یا جلا دیا وغیرہ اورکتابت حدیث کی عمومی حوصلہ شکنی کی۔ عالم عرب میں محمودابوریہ، توفیق صدقی، اوربرصغیرمیں اہل قرآن، غلام احمدپرویز، ڈاکٹرعبدالودود، مولانا تمنا عمادی اورمولانا اسلم جیراجپوری وغیرہ نے بنیادی طورپر انہیں اعتراضات پراپنے نظریہ حدیث کی بنیادرکھی ہے۔

ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے پہلے اوربعدمیں ڈاکٹرمصطفی الاعظمی نے ان دونوں دعووں کوتاریخ کے ناقابل تردیدشواہدکی روشنی میں مسترد کردیا ہے۔ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے صحیفہ ہمام بن منبہ کی ایڈیٹینگ وتعلیق کرکے اس کوشائع کرایااورثابت کیاکہ کتابت وتدوین نبوی خودعہدنبوی میں جاری تھی اورکم ازکم سات صحیفے صحابہ کرام کے لکھے ہوئے اب دستیاب ہوچکے ہیں ۔ ان میں سے کئی صحیفوں کی استنادکا ڈاکٹرمصطفی نے جائزہ لیااوران کی توثیق کی- مزیدتحقیق سے انہوں نے ثابت کیاکہ تقریبا252صحابہ اوران کے شاگردتابعین وتبع تابعین کے پاس احادیث مکتوب شکل میں موجودتھیں ۔ اسی موادنے موجودہ ومتداولہ دواوین حدیث (صحاح ستہ وغیرہ) کے  لےے  بنیادی مسالہ فراہم کیا۔ اس طرح حدیث نبوی پر لگایہ الزام زمیں بوس ہوگیا۔

دوسرے دعوی کے تعلق سے ڈاکٹرمصطفی اعظمی کاکہناہے کہ :ایسی تمام روایتیں ضعیف اوربعض موضوع ہیں ۔ بعض روایات جوصحیح ہیں ان کا درست محمل موجودہے۔ حدیث کے منکرین نے ان کوغلط مفاہیم پہنادیے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسناد، عہدنبوی، عہد راشدی اورتابعین کے زمانوں میں علم کی نشرواشاعت کے طریقے، تحمل حدیث وروایت وغیرہ کے بارے میں بڑی قیمتی اور نفیس بحثیں اس کتاب میں کی گئیں ہیں ۔ اسٹڈیزان ارلی حدیث لٹریچرکے مقدمہ میں ڈاکٹراعظمی نے ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ اورشیخ ناصرالدین البانیؒ کا بھی شکریہ اداکیاجنہوں نے ان کی علمی مدد فرمائی تھی۔ بڑے اہل اہل علم شیوہ یہی ہوتاہے، علم تواضع وخاکساری سکھاتاہے۔ بُرا ہومسلکی شدت پسندی کا کہ اُس نے اس علمی مزاج کا بھی قریب قریب خاتمہ کردیاہے۔ چندسال پہلے برصغیرکے سب سے بڑے دارالعلوم میں جاناہوا، وہاں کے سب سے بڑے استادحدیث کی مجلس میں بھی پہنچے۔ راقم کے ہاتھ میں علی حسن سقاف کی ایک مختصرکتاب: الالبانی شذوذہ واخطائہ تھی۔ انہوں نے پوچھایہ کیاہے۔ میں نے بتایاکہ البانی صاحب پر نقدہے۔ کتاب ہاتھ میں لی اور فرمایا:البانی اتنانقصان پہنچا گیا ہے کہ اس کی بھرپائی میں دوسوسال لگیں گے، یہ عرب اب بیدارہوئے ہیں ، برصغیرکے علما نے پہلے ہی اس کی خطرناکی کااندازہ کرلیاتھا“۔ ظاہرہے کہ مولاناکے یہ رمارک اہل علم کی شان کے منافی تھے اوریہ زبان بھی اہل علم کی زبان نہیں ہے۔

شیخ مصطفی اعظمی نےبعدازاں 1991میں کنگ سعودیونیورسٹی سے حدیث کے پروفیسرکی حیثیت سے رٹائرہونے کے بعدحدیث کی طرح قرآن پر بھی ایک بنیادی کام کیاجس کا پہلاایڈیشن 2003میں 424صفحات پر مشتمل اعظمی پبلشنگ ہاوس ریاض سے شائع ہوا:اس کتاب کا نام ہے:ایج لیس قرآن، ٹائم لیس ٹیکسٹ:دی ہسٹری آف دی قرآنک ٹیکسٹ فرام ریویلیشن ٹوکمپائیلیشن، اے کمپریٹواسٹڈی ود دی اولڈ اینڈ نیوٹیسٹامینٹ۔ اس کتاب میں مصنف نے پندرہ سال محنت وتحقیق کی ہے۔ اصل میں یہ کتاب ایک مغربی صحافی واسکالرٹوبی لیسٹرکے مقالہ وہاٹ ازقرآن کاجواب ہے۔ لیسٹرنے دعوی کیاتھاکہ مسلمانوں کا یہ زعم کہ قرآن خداتعالی ٰکی وحی کردہ کتاب ہے تاریخی علمی نقدکے آگے نہیں ٹھیرتا۔ موصوف کے اس دعوے سے سوال پیدا ہواکہ ایک بلین مسلمان جس کتاب کوحرفاًومعنیً کلام الٰہی مانتے ہیں کیا اُس میں کسی چھیڑچھاڑاورتحریف کا امکان ہے؟ظاہرہے کہ ہرمسلمان اس کا جواب نفی میں دے گا۔ تاہم اس سوال کا علمی جواب دینے کی بھی ضرورت تھی چنانچہ مصطفی اعظمی نے علمی دلائل کی روشنی میں یہ جواب فراہم کردیا۔ انہوں نے بنیادی مصادرکے حوالوں سے ثابت کیاکہ نبی ﷺ کے صحابہؓ کواورصحابہ کے تابعین کوقرآن پڑھانے، سکھانے اوراگلی نسلوں کوہوبہو پہنچانے کا عمل متواتر، نہایت منظم، مرتب اورباضابطہ تھا۔

اسی طرح قرآن کی تدوین تاریخ کی پوری روشنی میں ہوئی، ساری امت اس عمل میں شریک تھی۔ کہیں اختلاف کا احتمال ہواتواس پر باضابطہ شہادت طلب کی گئی اوراس طرح انسانی امکان کی حدتک حزم واحتیاط اپنائی گئی۔ قرآءات اوررسم الخط کے ذرا ذراسے اختلافات کوبھی تاریخ کے رکارڈ میں لایاگیا۔ ساتھ ہی نزول ِقرآن کے ساتھ ہی اس کے حفظ کا ایک متواترعمل اس پر مستزادہے۔ اس کے بعد پورے اعتمادسے کہا جاسکتاہے کہ محمدﷺ تاریخ کی پوری روشنی میں پیداہوئے اوران کی زندگی کا ایک ایک عمل رکارڈ کیاگیا جبکہ موسیٰ وعیسی ٰعلیہمااسلام اورتورات وانجیل کے بارے میں تاریخ یہ دعوی کرنے سے قاصرہے۔ شیخ اعظمی نے کہاکہ مستشرقین تدوین ِقرآن پر جوشبہات اٹھاتے ہیں وہی شبہات تورات وانجیل پرکہیں زیادہ واردہوتے ہیں مگروہاں مستشرقین کی معروضیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ تحریک استشراق استعمارکی خدمت کرتی تھی گرچہ آج کے استشراق میں اس حوالہ سے خاصی تبدیلی آئی ہے شیخ اعظمی کی دوسری اہم کتابوں میں :کُتاب النبی، منہج النقد عند المحدثین، المحدثون من الیمن، کتا ب التممیزلامام مسلم ہیں۔ انہوں نے موطا مالک، صحیح ابن خزیمہ اورسنن ابن ماجہ وغیرہ پر بھی ایڈیٹنگ کا کام کیا۔ وہ اسلامی تحقیقا ت پر 1980 میں فیصل ایوارڈ سے سرفرازکے گئے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    "حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قاسمی رحمۃ اللہ علیہ
    ریاض شہر میں انتقال فرماگئے ہیں۔
    اللہ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات کو بلند کیا تھا۔

    آپ کی پیدائش 1930ء میں اترپردیش کے مئو(اعظم گڑھ) میں ہوئی۔
    برصغیر کی معروف علمی درس گاہ دارالعلوم دیوبند سے 1952ء میں فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے علوم نبوت میں فضیلت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد دنیا کے معروف اسلامی ادارہ جامعہ ازہر، مصر سے 1955ء میں (MA) کی ڈگری حاصل کی اور وطن عزیز واپس آگئے۔
    1955ء میں ملازمت کی غرض سے قطر چلے گئے اور وہاں کچھ دنوں غیر عربی داں حضرات کو عربی زبان کی تعلیم دی، پھر قطر کی پبلک لائبریری میں خدمات انجام دیں۔
    1964ء میں قطر سے لندن چلے گئے اور 1966 میں دنیا کی معروف یونیورسٹی Cambridge سے Studies in Early Hadith Literature کے موضوع پر Ph.D کی۔
    ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہونے کے بعد آپ دوبارہ قطر تشریف لے گئے اور وہاں قطر پبلک لائیبریری میں مزید دو سال یعنی 1968ء تک کام کیا۔
    1968ء سے 1973ء تک جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں مساعد پروفیسر کی حیثیت سے ذمہ داری بخوبی انجام دی ۔
    1973ء سے ریٹائرمنٹ یعنی 1991ء تک کنگ سعود یونیورسٹی میں مصطلحات الحدیث کے پروفیسر کی حیثیت سے علم حدیث کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
    1980ء (1400ھ) میں حدیث کی عظیم خدمات کے پیش نظر آپ کو کنگ فیصل عالمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 1981ء (1401ھ) میں حدیث کی گرانقدر خدمات کے پیش نظر آپ کو سعودی نیشنلٹی عطا کی گئی۔
    استشراق پر گرانقدر کام کیا۔دنیا میں سب سے پہلے حدیث کو کمپیوٹرائز کرنے کا اعزاز بھی آپ کے پاس ہے!
    بلاشبہ وہ سید مودودی رحمہ اللہ کے تراشے ہیروں میں ایک شاندار ہیرا تھے۔

تبصرے بند ہیں۔