حضرت مفتی شاہ عبداللہ پھول پوری کا سانحۂ ارتحال !

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 قحط الرجال کے اس دور میں مردان حق کی پے در پے رحلتیں جہاں قرب قیامت کی نشان دہی کررہی ہیں ، وہیں یکے بعد دیگرے انفرادی و اجتماعی صدموں سے دوچار ملت اسلامیہ، شریعت و طریقت اورقیادت و سیادت کے مختلف میدانوں میں علماءربانیین کے فقدان کا شکوہ کرتی نظر آرہی ہے۔

ابھی دو ہفتے قبل خانوادۂ قاسمی کے چشم وچراغ، معروف محدث و سیرت نگار حضرت مولانا محمداسلم صاحب قاسمی کی وفات  سے علمی حلقوں میں ایک بجلی سے کوند گئی تھی اور امت مسلمہ اس اندوہناک صورت حال سےابھی باہر بھی نہیں آئی تھی کہ  یکایک 30/نومبر، بہ روزجمعرات مطابق 10/ربیع الاول کو یہ خبر کانوں سے ٹکرائی  کہ حضرت مولانا مفتی  شاہ عبداللہ صاحب پھول پوری(مہتمم و شیخ الحدیث جامعہ بیت العلوم سرائے میر) عمرے کے مبارک سفر کے دوران  مکہ مکرمہ  کی مقدس سرزمین پر  مختصر سی علالت کے بعد راہئ ملک بقاء ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

آپ کی وفات تنہا ایک شخص کی وفات نہیں ؛ بل کہ ایک شخصیت کا ارتحال ہے، ایک ذات کا نقصان نہیں پوری انجمن کا خسارہ ہے، ایک فرد کی رحلت نہیں ایک عہد کا خاتمہ ہے،آپ اصلاح امت کے عظیم الشان داعی،تصوف وسلوک کے رمز شناس، اسرار شریعت کے رازداں ،علوم حدیث و فقہ کے پاسباں ، ہندوستان کےممتاز،باعزت اورمشہورعلمی وروحانی خاندان کے مایۂ ناز سپوت، حضرت محی السنۃ  شاہ ابرارالحق ؒکےجلیل القدر  خلیفہ  اورایک دینی و فکری مرکز کے روح رواں ومیر کارواں تھے،آپ اپنے پہلو میں درد مند دل رکھتے تھے؛جوہر وقت اسلام اورعالم اسلام کے درد سے معمور رہتاتھا،آپ کا شمار خدائےبزرگ و برتر کے ان برگزیدہ بندوں میں ہوتا تھا جو اپنی تمام تر زندگی اللہ تعالٰی کی بندگی،اس کی عبادت و اطاعت اور زہد و تقویٰ کےلئے وقف کردیتے ہیں ۔

اس وقت میرے پیش نظر  ماہ نامہ دارالعلوم  کا وہ اداریہ ہے؛جس میں حضرت شاہ  ہردوئی کی وفات حسرت آیات پر گہرے دکھ اور  رنج  کا اظہار کرتے ہوئے محدث جلیل، استاذ مکرم حضرت مولانا حبیب الرحمن  صاحب قاسمی اعظمی مدظلہ  نے ارقام فرمایاتھا  کہ

” آپ(شاہ ابرارالحقؒ) کی وفات کا سانحہ تنہا کسی فرد، جماعت، یا ادارہ کا غم نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا غم ہے پھر اس لحاظ سے اس غم کی وسعت اور ہمہ گیر ہوجاتی ہے کہ حضرات اکابر رحمہم اللہ نے برصغیر میں علم ومعرفت اور فضل و کمال کی جو بساط بچھائی تھی وہ بڑی سرعت کے ساتھ لپٹتی جارہی ہے، اپنی تاریخ کے ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ حضرت حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ گئے تو اپنے پیچھے شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر وغیرہ جیسے عبقری اخلاف چھوڑ گئے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے رخت سفر باندھا تو اپنے پیچھے سید احمد شہید، مولانا شاہ عبدالحئی بڈھانوی، مولانا شاہ اسماعیل شہید، شاہ محمد اسحاق علم و فضل و جہد و عمل کا ایک کارواں چھوڑ گئے۔ حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت قطب ارشاد محدث کبیر مولانا رشید احمد گنگوہی نے علم وفضل اور حکمت و معرفت کا جو باغ لگایا تھا اس کی آبیاری کیلئے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن جیسا خلف رشید چھوڑ گئے تھے پھر حضرت شیخ الہند کی مجلس علم و فضل اور مسند جہاد وعزیمت کو حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے آراستہ و پیراستہ رکھا۔ داعی کبیر حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے جاری کردہ دعوت و تذکیر کے کام کو آگے بڑھانے کیلئے امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی موجود تھے، خانقاہ رائے پوری کی رونق و تازگی حضرت مولانا شاہ عبدالقادر کے دم قدم سے قائم رہی، حضرت محدث جلیل مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے جاری کردہ علمی و روحانی سلسلے کو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نے نہ صرف سنبھالے رکھا بلکہ اس کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کردیا۔

خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون کے فیض کو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی نے عروج و کمال عطا کیا، اسی روحانی سلسلے کی ایک زریں کڑی حضرت مولانا ہردوئی قدس سرہ کی باکمال شخصیت تھی،ان کی وفات حسرت آیات سے ایک ایسے خلاء کا احساس ہوتا ہے جسے پُر کرنے والا بظاہر کوئی نظر نہیں آتا۔”(ماہ نامہ دارالعلوم، جون2005)

ٹھیک اسی طرح حضرت والارحمہ اللہ بھی  حضرت شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ  اور حضرت محی السنۃ  ہردوئی ؒکے لگائے ہوئےسر سبز و شاداب چمن کے گل سر سبد تھے آپ کی رحلت سے  پسماندگان کو  جو علمی و روحانی نقصان ہوا اس کے تلافی کی بھی بہ ظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔

مختصر سوانح حیات:

اس عظیم درویش صفت،احسان کیش مرد قلندر اور مفکر ومحدث کےتمام خدوخال کو نمایاں کرنا اورجملہ اوصاف و کمالات کا احصاء کرنامجھ کم علم اور کوتاہ  فہم کے بس کی بات نہیں ؛تاہم اجمال واختصار کے ساتھ سوانحی خاکہ پیش خدمت ہے۔

آپ کا نام نامی :عبداللہ، والد ماجد کا اسم گرامی :ابوالبرکات ہے۔ سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے :عبداللہ بن ابوالبرکات بن عبدالغنی بن عبدالوہاب بن امانت اللہ۔ آپ کے جدا مجد امانت اللہ وقت کے ولی کامل اور صاحب نسبت بزرگ تھے، حضرت مرزا مظہر جان جاں ؒ کے فیض یافتگاں میں شمارکیے جاتے تھے۔

آپ کے دادا  نے اپنا آبائی وطن چھوڑ کر پھول پور کی طرف ہجرت فرمائی تھی اس مناسبت سے آپ کو پھول پوری کہاجاتاہے۔ آپ کی ولادت ہندوستان کے مردم خیز قصبے اعظم گڑھ میں ہوئی، چوں کہ آپ کے دادا پیکر فناء فی اللہ، سلطان الاولیاء حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمة الله علیہ،یگانۂ روزگار صوفی، عارف وقت اور حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے ممتاز،جید اور بلند پایہ خلیفہ  تھے؛اس لیےآپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت گھر ہی میں ہوئی پھر مدسہ بیت العلوم سراۓمیرسےحفظ اورعربی درجات کی تکمیل فرمائی بعد ازاں مظاہرعلوم سہارن پورمیں داخلہ لیااورعالمیت وافتاءسے فراغت حاصل فرمائی۔

مدرسہ بیت العلوم میں زبدة الافاضل حضرت مولاناسجاداحمدجون پوری(خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانازکریاؒ)،مولاناعبدالقیوم بکھراویؒ، مولانا عبدالرشید​مظاہری سلطان پوری،مولانامحفوظ الرحمٰن مظاہری سلطان پوری آپ کے نمایاں اساتذہ میں ہیں ، ان کے علاوہ مظاہر علوم سہارن پورمیں حضرت مفتی مظفرحسین صاحبؒ،حضرت شیخ محمدیونسؒ اوردوسرےموقراسا​تذہ سے اکتساب فیض فرمایا۔

علوم ظاہرہ کی تحصیل کےبعدبیت العلوم ہی میں عربی درجات کےاستاذمقررہوۓ،آپ کی صلاحیت اور علمی سرگرمیوں کودیکھتےہوۓارکان مدرسہ نےنائب ناظم کی ذمہ داری تفویض کردی،اسی اثناء میں حضرت ہردوئی،نےبیت العلوم کےناظم اعلیٰ کےمنصب کوزینت بخشی، حضرت ہردوئیؒ کے دوراہتمام میں آپ بہ حیثیت نائب ناظم خدمات انجام دیتے رہے،اورحضرت ہی کے دامن سے وابستہ رہ کر علوم باطنہ کی بھی تکمیل فرمالی اس طرح حضرت محی السنۃ کی صحبت کیمیا اثر نے آپ کو کندن بنادیا،پھرحضرت کی وفات کےبعدمتفقہ طو رپرآپ ہی کو”ناظم اعلیٰ”منتخب کیاگیا۔

حضرت والا کےنیابت اہتمام میں بیت العلوم میں دورہ حدیث اورافتاء کاآغازہوا، حضرت اقدس مفتی محمدحنیف صاحب جون پوریؒ شیخ الحدیث اول اورمفتی صاحب شیخ ثانی مقررہوۓ،مفتی محمدحنیف جون پوری کی علالت کےدوران آپ ہی کو شیخ الحدیث اورصدرمفتی بنادیاگیا۔علمی و عملی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مدرسہ بیت العلوم کی موجودہ تمام عمارتوں کی تعمیرحضرت والا ہی کےدوراہتمام میں ہوئی،بیت العلوم سےماہنامہ "فیضان اشرف”نامی ایک ماہانہ رسالہ پابندی سےآپ ہی کی ادارت میں شائع ہوتارہاـ

شمائل و خصائل :

اللہ تعالی نے آپ کو گوناں گو خصوصیات سے سرفراز فرمایا، آپ بہ یک وقت ایک عظیم محدث، دور رس مفکر، مایۂ ناز فقیہ، ہوش مند منتظم، روشن ضمیر پیر طریقت اور  متعدد مکاتب/مدارس اورملی وسماجی تنظیموں کےسرپرست تھے،آپ  علم و عمل کے پیکر جمیل، حضرت پھول پوریؒ و ہردوئی ؒکے چشمہائے فیوض و برکات کےحسین امتزاج،دلوں کو اپنے پر اثر مواعظ وبیانات سے جلاء و تازگی بخشنے والے،گم گشتہ راہوں کو راہ راست پر لانے والے،تزکیہ کے ذریعہ قلوب کو اللہ کی طرف موڑنے والے، گناہوں کی قباحت اور سنتوں کی محبت دلوں میں جاگزیں کرنے والے تھے۔

آپ روشن و وجیہ چہر،نرم و شگفتہ مزاج،متبسم ہونٹ،سادگی و کسر نفسی کا مجسم آئینہ تھے، فقراء ومساکین کے ساتھ حسن و سلوک برتتے، علماء و طلبہ کا بہت زیادہ پاس و لحاظ فرماتے،دست سوال دراز کرنے والوں کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے، آپ کو فقط اس بات کی فکر تھی  ساری امت کا تعلق اللہ پاک سے مضبوط ہوجائے،یہی سوز دوں اور درد فزوں لیے آپ نے اطراف عالم کا چکر لگایا اوراسی متاع غم کو تقسیم کیا۔

 آپ کی اہم خصوصیت  عنداللہ مقبولیت کے ساتھ ساتھ عندالناس محبوبیت بھی تھی، آپ بلا استثناء سبھوں کے نزدیک محبوب تھے، آپ کی مجلس علم و ذکر کی مجلس ہوتی تھی اورآپ کے پیغام میں بے حد تاثیر، دلربائی، دل نشینی اور  بلا کی چاشنی تھی۔

آپ کے وصال پر آپ ہی کے کسی عقیدت مند نے اس طرح مرثیہ خوانی کی ہے      ؎

وہی جس کے تبسم پریہ گلشن مسکراتا تھا

وہ بلبل، غنچہءوگل جس کے یکساں تھے تمنائی

جو مستغرق رہا کرتاتھابس یادِ الہی میں

مریضانِ محبت کی جوکرتاتھا مسیحائی

جوسرافگندگی سے بندگی کا ناز اٹھاتا تھا

نہیں تھی جس کے معمولات میں ادنی سی خودرائی

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    محترم..اعظم گڈھ قصبہ نہیں ہے,ضلع ہے..قصبہ پھول پور,ضلع اعظم گڈھ

تبصرے بند ہیں۔