حضرت مولانا علی میاں ندویؒ: یادوں کے جھروکے سے! (قسط 4)

محمد شاہد خان ندوی

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ طلبہ کو ملت کا قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے، جن کو سنوارے بغیر ملت کی سربلندی کا خواب پورا نہیں ہوسکتاتھا۔ وہ ہر پہلو سے طلبہ کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے تاکہ ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاسکے، وہ نرے مولوی ہرگز نہ تھے بلکہ وہ ماضی کی تاریخ اور حال ومستقبل کی غیر معمولی تبدیلیوں سے پوری طرح باخبر تھے۔ 1987 کی بات ہے، ندوۃ کے کچھ طلبہ نے سالانہ پروگرام کیلئے ایک تمثیلی ڈرامہ کا پروگرام رچا اور اسکی ریہرسل شروع کردی، کچھ ذمہ دار اساتذہ کو اس پروگرام کی بھنک لگ گئی، بس کیا تھا، یوں سمجھئے کہ پروگرام تقریبا کینسل تھا کہ ایک طالبعلم نے ہمت کرکے حضرت مولانا سے اجازت طلب کی کہ وہ ایک بار اس پروگرام کی دس منٹ کی ریکارڈنگ سماعت فرما لیں اسکے بعد وہ جو بھی فیصلہ صادر فرمائیں گے وہ طلبہ کو منظور ہوگا، چنانچہ جب حضرت مولانانے وہ ریکارڈنگ سماعت فرمائی تو آپ نے ایک خوشگوار حیرت اور یک گونہ مسرت کا اظہار فرمایا اور کہا کہ کیا ہمارے طلبہ اس طرح کا پروگرام بھی کرسکتے ہیں ؟میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور مولانا محمودالاظہار صاحب مرحوم اور مولانا نور عظیم مرحوم صاحبان کو اس پروگرام کی نگرانی اور (supervision)پر متعین فرمایا۔

تعلیم وتربیت، للہیت وخداترسی، تقوی وپرہیز گاری کی حضرت مولانا مسلسل تلقین فرماتے اور ان کی ذاتی زندگی خود بھی اس کا عملی نمونہ تھی۔

مولانا کی تعلیم و تربیت میں ان کی والدہ ماجدہ خیر النساء اور بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی صاحب مرحوم کا بڑا ہاتھ تھا، حضرت مولانا اکثر ان کی تربیت کے اسلوب کو طلباء کے سامنے بیان فرماتے تاکہ وہ بھی اپنی زندگیوں میں ان نسخوں سے مستفید ہو سکیں۔
بچپن ہی میں مولانا کے والد ماجد ڈاکٹر عبد الحئ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری ان کے بڑے بھائی کے سر آپڑی تھی، مولانا کی طبیعت بڑی خوددار واقع ہوئی تھی، ذاتی اخراجات تک کے لئے کبھی بھائی صاحب کے آگے خود سے ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے ( حضرت مولانا اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کو ‘بھائی صاحب ‘ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے )البتہ ڈاکٹر عبد العلی صاحب خود ہی ان کی ضروریات محسوس کرکے ان کی تکمیل کردیا کرتے تھے، مولانا نے خود ایک بار مجلس میں بیان فرمایا کہ ایک دفعہ ان کے پاس جیب خرچ کے لئے پیسے نہیں تھے، سوچنے لگے کہ آخر کیسے انتظام کیا جائے؟ اس زمانہ میں ان کے ہاتھ میں ایک گھڑی ہواکرتی تھی، مولانا نے ارادہ کیا کہ اسی گھڑی کو فروخت کر دیں، امین آباد میں مرکز والی مسجد کے سامنے کوئی گھڑی ساز بیٹھا کرتے تھے، مولانا نے سوچا کہ وہ گھڑی وہیں فروخت کردیں تاکہ کچھ جیب خرچ کا انتظام ہوجائے لیکن دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں وہ گھڑی ساز یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہو نہ ہو یہ لڑکا گھڑی کہیں چوری کرکے تو نہیں لایا ہے۔ اس الزام کا خیال آتے ہی مولانا نے گھڑی بیچنے کا ارادہ ترک کردیا۔

ابتدائی زمانہ میں کافی دنوں تک مولانا کو تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا تھا، ایک دن کا واقعہ مجلس میں یوں بیان فرمانے لگے کہ میں صبح دارالعلوم میں گھنٹہ پڑھا کر آیا، ناشتہ کا وقت تھا، بڑی بھوک لگی ہوئی تھی اور جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا، میں اسی فکر میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دو طالب علم میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے سوچا کہ کیوں نا آج کا ناشتہ مولانا علی میاں کے ساتھ کیا جائے۔ میری ذاتی سمجھ یہ ہے کہ مولانا اس قسم کی باتیں طلبہ کے درمیان اس غرض سے بیان فرماتے تھے تاکہ غربت و مفلسی ان کی ہمت کو کمزور نہ کردے اور نتیجتا علم سے دور ہو کر تلاش معاش میں لگ جائیں، وہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر ان تمام مشقتوں کے باوجود آپ علم کی راہ میں انہماک اور ایثار سے کام لیں گے تو تابناک مستقبل آپ کے انتظار میں ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔
مولانا دارالعلوم ندوۃ العلماء میں استاد بن چکے تھے لیکن تنگ دستی اب بھی دامن گیر تھی، مولانا کی تنگ دستی اس وقت سے دور ہونا شروع ہوئی جب انہوں نے علی گڑھ کے ایک سیرت نویسی کے انعامی مقابلہ میں چھ سو روپئے کا پہلا انعام حاصل کیا، رفتہ رفتہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور کتابوں کی رائلٹی سے مولانا میسور الحال ہونے لگے، لیکن چونکہ طبیعت میں دنیا طلبی دور آغاز سے ہی نہیں تھی اس لئے کبھی دنیا کمانے کے پیچھے نہیں پڑے حالانکہ دنیا ان کے قدموں میں پڑی تھی، ندوہ میں مہمان خانے کے داہنے طرف ایک حجرہ ہی مولانا کا مستقر رہا، مولانا نذرالحفیظ صاحب نے بیان فرمایا کہ حضرت مولانا ندوۃ العلماء کے ناظم ہونے کے باوجود ندوہ سے ایک پیسہ بھی بطور تنخواہ نہیں لیتے تھے، یہاں تک کہ مہمان خانہ کا کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کرتے، اپنے اور مہمانوں کے کھانے پینے کے سارے انتظامات اپنی ذاتی آمدنی سے کیا کرتے تھے۔ ان کی ذاتی آمدنی کا ذریعہ کتابوں سے حاصل ہونے والی رائلٹی کی رقم تھی۔ ایک کار تھی جس سے وہ سفر کیا کرتے تھے اس کے پٹرول اور مینٹیننس کا خرچ بھی ندوہ سے لینے کے بجائے اپنی جیب خاص سے ادا فرماتے۔

حضرت مولانا جب بھی کسی ادارہ تنظیم یا حکومت کی دعوت پر وطن سے باہر تشریف لے جاتے تو فائیو اسٹار ہوٹلس میں قیام کے بجائے اپنے کسی قریبی یا عزیز کے پاس ٹھہرنا زیادہ پسند فرماتے۔

عظمت کی اس بلندی پر انسان یونہی نہیں پہونچ جاتا بلکہ اس کے لئے بڑے پختہ عزم اور اعلی کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور جب کردار میں بلندی پیدا ہوتی ہے تبھی ماحول پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، حضرت مولانا علی میاں صاحب حقیقی معنوں میں اس مثالی کردار کے حامل تھے جو عظمت و توقیر کا اہم ذریعہ ہوتا ہے، مولانا کو ان کی علمی خدمات کے اعتراف کے لئے مختلف قسم کے انعامات دنیا کے الگ الگ حصوں میں ملے، ان انعامات میں سے ایک اہم ترین انعام شاہ فیصل ایوارڈ ہے، ایک خطیر رقم بھی اس انعام کا حصہ تھی، دنیا سے سرد مہری کا عالم دیکھئے کہ انہوں نے اس میں سے کچھ بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا بلکہ پوری رقم دین کی راہ میں کوشاں رہنے والوں اور دیگر رفاہی کاموں پر خرچ کر دی، اسی طرح دبی حکومت نے بھی ‘القرآن ایوارڈ’ سے آپ کو نوازا لیکن مولانا نے اس انعام کی رقم کو بھی ذاتی استعمال میں نہ لاکر رفاہی کاموں کی نذر کر دیا، مولانا کی زندگی کے یہ واقعات جہاں ان کے زہد و تقوی، اخلاص و للہیت اور بے نفسی کی کہانی بیان کرتے ہیں وہیں طلبا کی شخصیت سازی میں بہت مؤثر کردار ادا کرتے تھے۔

فضیلت کے آخری درجات کے طلبا مولانا سے خصوصی شرف تلمذ حاصل کرنے کی خاطر دو ہفتے کے لئے مولانا کے وطن تکیہ رائے بریلی جایا کرتے تھے جہاں مولانا دو ہفتوں تک طلبہ پر خصوصی توجہ فرماتے اور دروس کا سلسلہ چلتا، انہیں ایام میں ایک دن طلبہ کی دعوت کا اہتمام بھی کرتے، خوش قسمتی سے ہمیں بھی رائے بریلی جانا نصیب ہوا اور مولانا نے حسب معمول ہماری دعوت کا بھی انتظام فرمایا، وہ اتنی عظیم ہستی تھی کہ وہ ہمیں جو بھی کھلاتے اور جس طرح بھی کھلاتے وہ ہم طلبہ کے لئے کسی اعزاز و اکرام سے کم نہیں ہوتا، مولانا نے ہم سب کے واسطے پائے کا نظم فرمایا اور تندوری روٹی پکوائی، جب دسترخوان پر کھانا چن دیا گیا اور مولانا سمیت سبھی طلبہ دسترخوان پر بیٹھ گئے تو کھانا شروع کرنے سے قبل مولانا نے ایک ایسا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو میرے حافظہ میں ہمیشہ کیلئے نقش ہوگیا، مولانا نے دسترخوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ ‘غض بصر’ سے کام لیجئے گا، یعنی اگر کھانے میں کچھ کمی و کوتاہی رہ گئی ہو تو آپ لوگ نظر انداز کیجئے گا، ذرا غور کیجئے کہ یہ بات کون شخص کہ رہا ہے؟ ایک ایسی شخصیت جس نے مشرق و مغرب کے میخانے دیکھے تھے، نہ جانے کتنے شاہی دسترخوانوں کو زینت بخشی ہوگی۔ لیکن ذاتی زندگی میں ایسی بلا کی سادگی اور تواضع کہ ہر حساس شخص کے لئے ایک دائمی درس عبرت سے کچھ کم نہیں۔ وہ درس جو تکیہ شاہ علم اللہ کے احاطہ میں حضرت مولانا کی نگرانی میں حاصل ہوا وہ آج بھی میری ذاتی زندگی کا بیش بہا سرمایہ ہے۔
( جاری)

تبصرے بند ہیں۔