خواجہ غریب نواز نے ہندوستان کو کیا دیا؟

خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کی دینی ،اصلاحی اور سماجی خدمات بہت زیادہ ہیں جنھیں احاطہء تحریر میں لانے کے لئے ایک عمر چاہئے۔ آپ نے اسلام کی ترویج واشاعت کے لئے ایک ایسے خطے کا انتخاب کیا جہاں توحید کے نام لیوا بلکل نہ تھے۔ یہاں کی زبان اور تہذیب آپ کے لئے نئی تھی اور اس سے آپ کو آشنائی نہیں تھی ۔ حکومت بھی ایسی تھی جس سے تعاون کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ایک نئے ملک میں جہاں کا ماحول اجنبی تھا جہاں کی زبان اجنبی تھی اور جہاں کی تہذیب وتمدن خواجہ صاحب کے لئے اجنبی تھے،اور ہر لمحے جان جانے کا خوف بھی تھا۔ ایسے ماحول میں خود کو لاکھڑا کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ آپ نے ایک ایسے چیلنج کو قبول کرلیا جس کے تصورسے ہی اچھے اچھوں کا خون پانی ہونے لگے۔ اجمیر کا وہ دور آپ نے دیکھا جب آپ کے سامنے متعدد رکاوٹیں تھیں مگر صبر کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہے کیونکہ آپ کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی تھی۔ اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب دلی اور اجمیر سمیت ملک کے بڑے حصے پر مسلمان بادشاہوں کی حکومت قائم ہوگئی اور آپ کے راستے کی رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ آپ کی بارگاہ میں مسلمان اور ہندو سبھی آسکتے تھے اور آپ ان سے مل کر ان کے سامنے اپنی باتیں پیش کرسکتے تھے۔ یہاں تک کہ جو اسلام نہیں قبول کرتے تھے وہ بھی عقیدت رکھتے تھے اور آپ کی خدمت میں تحف وتحائف پیش کیا کرتے تھے۔
اجمیر کو مرکز بنا کر خواجہ معین الدین چشتی نے اپنا مشن جاری رکھااور یہاں سے تربیت دے کر مبلغین وداعیان اسلام کوملک کے مختلف حصوں میں بھیجتے رہے۔ آپ نے اجمیر میں ہی شادی کی اور اپنے بچوں کو بھی اشاعت دین کے کام میں لگایا۔ یہاں تک کہ آپ کی بیٹی بی بی حافظ جمال جن کی قبر آپ کے مقبرے کے احاطے میں ہے، انھیں بھی آپ نے اس کی تربیت دی تھی اور وہ خواتین کے اندر اشاعت اسلام کے لئے کوشاں رہتی تھیں۔ یونہی آپ کے خلفاءاور خلفاءکے خلفاءبھی تبلیغ دین اور خدمت خلق کے کام میں مصروف رہے۔ ان میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ حمید الدین ناگوری، شیخ وجیہہ الدین ، سلطان مسعود غازی اور شیخ وحیدالدین خراسانی کے نام قابل ذکر ہیں جنھیں آپ کے الگ الگ علاقوں میں تبلیغ اسلام کے کام میں لگایا تھا۔خواجہ صاحب کے تربیت یافتہ ان بزرگوں اور ان کے بعد ان کے خلفاءاور جانشینوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کے گوشے گوشے میں اسلام کی روشنی عام ہونے لگی اور ہر طرف اذان وقرآن کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
خواجہ صاحب نے تبلیغ دین کے لئے مبلغین کی ایک جماعت تیار کرنے کی غرض سے اجمیر میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی جہاں علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز سے طالبان علم آنے لگے۔ یہاں کے تربیت یافتگان بعد کے دور میں ہر سمت پھیلے اور دین کے کاموں میں مصروف ہوئے۔ یہاں آپ نے ایک مسجد کی تعمیر بھی کرائی تھی۔
خواجہ صاحب نے اپنی باتیں عوام تک پہنچانے کے لئے عموماً تقریر اور خدمت خلق کا سہارا لیا ہے۔ تاہم آپ بے حد تعلیم یافتہ تھے اوراسلامی علوم کے ساتھ ساتھ زبان وبیان پر بھی قدرت رکھتے تھے ۔ اس لحاظ سے اگر کچھ کتابیں بھی آپ نے تصنیف فرمائی ہوں تو ممکن ہے۔ ایک کتاب جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہے وہ وہ ”انیس الارواح“ ہے جو خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آپ ہی کی تصنیف ہے۔ اسی طرح ”گنج الاسرار“ نامی کتاب کو بھی بعض لوگوں نے آپ کی تحریر بتایا ہے۔ اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطان شمس الدین التتمس کی تعلیم وتلقین کے لئے آپ نے یہ کتاب لکھی تھی۔ اس کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کو اجمیر میں قیام کا حکم خواجہ عثمان ہارونی نے دیا تھا ۔ ”حدیث المعارف“ نامی کتاب بھی آپ کی تصنیف بتائی جاتی ہے علاوہ ازیں دیوان خواجہ کوآپ کا شعری کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، جس میں تصوف وعرفان کے موضوع پر121 غزلیں ہیں۔ سوائے ”انیس الارواح“ کے سبھی کتابوں کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے کہ وہ آپ کی طرف درست منسو ب ہیں یا غلط۔
خواجہ معین الدین چشتی جب ہندوستان تشریف لائے تو یہاں اسلام کے نام لیوا مشکل سے نظر آتے تھے مگر جب 633ھ میں آپ کا انتقال ہوا تو یہاں ہر طرف اسلام کا بول بالا تھا۔ اسی سال سلطان شمس الدین التتمش کا انتقال ہوا اور اسی سال آپ کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے بھی انتقال فرمایا۔یہ وہ دور تھا جب دلی میں اسلامی سطوت کی علامت مسجد قوت الاسلام اور اس کے مئذنہ قطب مینار کی تعمیر عمل میں آچکی تھی۔ آج ہندوستان میں جو اسلام وتوحیدکی روشنی نظر آتی ہے یہ کہیں نہ کہیں اسی چراغ کا نور ہے جسے خواجہ صاحب نے روشن کیا تھا۔
ابوالفضل لکھتا ہے:
”آپ نے اجمیر میںگوشہ نشینی اختیار کی، اسلام کا چراغ خوب جلایا، اور آپ کے دم قدم سے گروہ درگروہ لوگوں نے اکتساب فیض کیا۔“ (آئین اکبری)
شہزادہ داراشکوہ نے لکھا ہے کہ
”منکروں کی بڑی جمعیت نے ان کے قدموں کی برکت سے اسلام قبول کرلیااور جن لوگوں نے اسلام نہیں قبول کیا تھا وہ بھی آپ کی خدمت میں فتوح ودینار بھیجا کرتے تھے اور اس نواح کے غیر مسلم آج بھی درگاہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور درگاہ کے مجاوروں کو نذرانہ پیش کرتے ہیں۔“
(سفینة الاولیاء)
رائے بہادر پنڈت ہربلاس ساردا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی نسبت اپنی انگریزی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ
”انھو ںنے کبھی کسی کو تنگ کرنے کا مشورہ نہیں دیا اور خدا کی تمام مخلوقات کی نسبت ان کا نقطہ نظر صلح جوئی اور خیر خواہی کا تھا۔“          (اجمیر)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کے ذریعے روحانیت کی جو شمع اجمیر مقدس میں روشن ہوئی تھی ، اس کی روشنی اس
ملک کے کونے کونے میں پہنچی۔ ہدایت و رہنمائی کا اجالا صرف اجمیر تک محدود نہ رہا، بلکہ بعد کے دور میں اس سلسلے کے صوفیہ ہر طرف پھیلے اور ہدایت و رہنمائی کا کام انجام دیا۔ چشتی سلسلے میں ابتدائً مرکزیت تھی۔ خواجہ معین الدین چشتی کے جانشیں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہوئے۔ ان کے جانشیں بابا فریدالدین گنج شکر ہوئے ۔بابا صاحب نے اپنے شاگرد حضرت نظام الدین اولیاءکو خلافت عطا فرمائی۔ یہاں تک اس سلسلے میں مرکزیت رہی۔ حالانکہ ان بزرگوں کے دیگر خلفاءبھی تھے ، مگر باوجود اس کے ایک مضبوط سسٹم بھی نظر آیا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاءکے بہت سے خلفاءتھے ،جو ملک کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی خانقاہیں قائم کر کے عوام کی رشد وہدایت کا کام شروع کیا۔ بنگال، دکن، مالوہ، گجرات، جونپوراس دور میں سلطنتوں کے مراکز تھے، لہٰذا انھیں جگہوں کو مرکز بنا کر چشتی سلسلے کے بزرگوں نے کام کیا۔

تبصرے بند ہیں۔