علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کا تنقیدی جائزہ (قسط اول)

ادریس آزاد

کل ایک دوست Syed Mesam Naqvi نے انباکس میں ایک سوال کیا کہ،

’’ایک جگہ پڑھا تھا کہ علامہ اقبال حیات بعد الممات میں جنت یا دوزخ کے قائل نہیں تھے۔ وہ اِسے رُوحانی معنوں میں لیتےہیں۔ مجھے اِس کا تسلی بخش جواب چاہیے، حوالوں کے ساتھ‘‘

میں نے اُنہیں جواب دینے کے لیے لکھنا شروع کیا تو لکھتا ہی چلا گیا۔ جب جواب ختم ہوا تو اندازہ ہوا کہ میں قاری کی برداشت سے کہیں آگے تک لکھتا چلا گیا ہوں۔ خیر! مضمون کچھ یوں شروع کیا تھا کہ،

اس سے پہلے کہ ہم اقبال کے اسلامی عقائد پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں۔

یہ جان لینا زیادہ ضروری ہے کہ اقبال خود ’’عقیدہ‘‘ کو سمجھتے کیا ہیں؟ کیا وہ کسی عقیدہ کے قائل ہیں؟ وہ عقیدہ کو مذہبی زندگی کا کونسا درجہ قرار دیتے ہیں؟ کیا اُن کے نزدیک عقیدہ ہونا ضروری ہے؟ اور یہ بھی کہ فی الواقعہ عقیدہ ہوتا کیا ہے؟

سید کرامت حسین جعفری کے بقول،

’’اقبال کے نزدیک مذہبی زندگی کے تین ادوار ہیں،

اعتقادی

اجتہادی

استشہادی

یہ فقط اعتقادی دور ہی ہے جس کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے۔ اقبال نے خود اس بات کو اپنے خطبات میں ایمان، فکر اور معرفت کا نام اور ترتیب دی ہے۔

کرامت حسین جعفری نے اس کی تشریح یوں کی ہے،

’’اپنی ابتدائی صورت میں مذہب عقیدہ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے جب کہ دوسرے دور میں مذہب کی تاسیس اور تشکیل، مابعد الطبیعیات کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔

اس مقام پر صرف مذہبی عقیدے کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا بلکہ عقلی طور پر اس کی حقانیت کو بھی مانا جاتا ہے، اس کے بعد مذہب ذاتی استشہاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

یہ مذہبی زندگی کا تیسرا اور آخری درجہ ہے، انسان اس منزل پر اپنے تمام فکری ، جذباتی اور ارادی پہلوئوں کی ترتیب و تعدیل کے بعد اپنے اندر ایک خاص قسم کی زندگی اور قوت پاتا ہے۔ اسے آزاد شخصیت کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔

یہ آزادی کسی قسم کے قوانین سے ماورائیت کی غماز نہیں ہوتی، بلکہ یہاں آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی خودی کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اصل اصول کا مشاہدہ کرتا ہے، یہ مشاہدہ ایک مکاشفائی رویے کو جنم دیتا ہے۔

اس منزل پر مذہب زندگی اور تجربہ کی نفی کا قائل نہیں بلکہ اثبات کا داعی ہے‘‘۔

اقبال کی ترتیب برائے مذہبی زندگی، ایمان، فکر اور معرفت ہے۔ ایمان عقائد اختیار کرنے کا مقام ہے۔ فکر اُن عقائد کی اصل رُوح تک پہنچنے اور ان پر غور کرنے کا دور ہے اور معرفت حواس اور عقل سے حاصل ہونے والے مذہب کو اس طرح اپنے اندر جذب کرلینے کا نام ہے کہ ظاہری و باطنی زندگی خودکار طریقے سے حسن ِ عمل کا شاہکار نظرآئے۔

اسی ترتیب سے انسانوں کی بھی قسمیں ہیں۔

۱۔ وہ لوگ جو مقامِ اوّل یعنی ایمان اور عقیدہ کے مقام پر ہی مذہبی زندگی کے ساتھ بلاتردد وابستہ ہوگئے۔ ان کا دوسرا دوریعنی جب وہ اپنے ہی عقائد پر غوروفکر کے عمل سے گزرتے اگرچہ اپنی پوری قوت سے جاری رہا لیکن انہوں نے ہرطرح کی فکر کو ملعون قرار دیا اور تادم ِ مرگ ایمان کے سہارے ہی مذہبی زندگی اختیار کیے رکھی۔

۲۔ وہ لوگ جو ایمان اور عقیدہ کے مقام سے آگے بڑھے اور مذہبی زندگی کے اگلے درجہ یعنی فکر اور تدبر کے مرحلہ میں داخل ہوگئے اور وہیں رہ گئے۔ یعنی غوروفکر کے عمل میں ان کےلیے اتنا سامان تھا کہ مذہبی زندگی کو بطور عقیدہ اختیار کرنے اور پھر اس پر غوروفکر کرنے پر ہی اکتفا کرلیا۔ یہ لوگ نور بشر اور شریعت و الٰہیات کے مباحث میں عمر بسرکرسکتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ فکر کے حامل لوگ متکلمین بن کر مذہب کا، فلسفہ و منطق کے طور طریقوں پر دفاع کرتے ہیں اور اسی میں عمر گزار سکتے ہیں۔

۳۔ اگر مذہبی زندگی کے مراحل بخیریت طے ہوتے رہیں تو تیسرا اور آخری دور شروع ہوتاہے۔ یہ دور نہ اعتقادی ہے اور نہ اجتہادی۔ اس دور میں ایمان اور فکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے دونوں درجات سے گزرمکمل ہوجاتاہے۔ اس دور میں عقیدہ جیسی سطحی اور فکر جیسی فقط عقلی زندگی بتدریج معرفت میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں جن حقائق کا ادراک تھا ان کی بھی تصدیق کا سامان موجود ہے اور ان جن کا ادراک نہیں تھا ان کے اسرار کھل جانے کا بھی سارا سامان موجود ہے۔

اب جب ہم بات کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کے اسلامی عقائد کیا تھے؟

تو ہم اُس درجہ کی بات کرتے ہیں جو مذہبی زندگی کا پہلا درجہ ہے۔ یعنی ایمان۔ نہ کہ اس سے اگلے مدارج یعنی فکر اور معرفت(یعنی وجدانی طور پر سرزد ہونےوالا حسنِ عمل) کی۔

نقوی صاحب! آپ نے فقط جنت اور جہنم یا حیات بعدالموت کے حوالے سے سوال کیا ہے۔

عام عقیدہ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔جنت میں حوریں ہونگی۔ شراباً طہورا ہوگی۔ ہرقسم کے کھانے ہونگے۔ دودھ کی نہریں بہتی ہونگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا جہنم میں آگ ہوگی۔

آگ والے کوڑا بردار فرشتے ہونگے۔ ہزاروں سال اُس آگ میں جلنا ہوگا۔ یا قبر میں عذاب ہوگا۔ سانپ اور بچھو ہونگے۔ مَنْ رَبُّکَ ، مَنْ نَبِیُّکَ، مَنْ دِیْنُکَ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے سوالات ہونگے۔

یہ ہے مذہبی زندگی کا وہ درجہ جو اقبال کے نزدیک عقائد تک محدود ہے۔ پھر اس سے اگلا درجہ ہے جب انہی عقائد پر ہم غوروفکر کرنے لگ جاتے ہیں۔

ہرکوئی کرتاہے۔ ازخود ہوتاہے۔ اوپر میں وضاحت کرچکا ہوں کہ کون کون کس درجہ کی مذہبی زندگی میں پھنس کر رُک جاتاہے ۔

اب یہ درست ہے کہ

’’علامہ اقبال نے اسلامی عقائد کو ایک نئے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال کی اس کاوش کا تنقیدی جائزہ لینا بہرحال ضروری ہے‘‘۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اسلامی عقائد میں اجماع ِ اُمت کے اُصول کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے اُس کے ہوتے ہوئے کیا ہم کسی فردِ واحد کی کوئی کاوش قابل ِ اعتنأ سمجھ سکتے ہیں؟

جواب یہ ہے کہ، فردِ واحد کی کاوش کی اپنی اہمیت ہے اور جب کبھی بھی اُمت کو اجماع کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمیشہ افراد کی انہی کاوشوں کی طرف رجوع کیا جاتاہے جو اپنے اپنے زمانوں میں تقریباً انفرادی سطح کی کوششیں ہی رہی ہوتی ہیں۔

خیر! تو اِس مضمون میں ہم علامہ اقبال کے اسلامی عقائد پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے لیے صرف میسم نقوی کے سوال یعنی جنت جہنم تک ہی محدود نہیں رہینگے بلکہ مجموعی طور پر تمام بڑے بڑے عقائد پر علامہ اقبال کی گفتگو ملاحظہ کرنے کی کوشش کرینگے جو مذہبی زندگی کے ابتدائی درجہ میں اپنی نہایت سادہ سطح پر موجود ہیں اور اقبال (اپنے ہی بقول مذہبی زندگی کے دوسرے درجہ میں) ان میں اپنی فکر کے ذریعے کیا رنگ بھردیتے ہیں۔

اس مقام تک ہرکاوش کو ’’ علم کلام‘‘ کہا جاتاہے۔

ہمارے بنیادی سورسز میں سب سے اہم خطبات ِ اقبال ہے۔کیونکہ ایک تو یہ نثر ہے اور شعر کے مقابلے میں اِس میں براہِ راست یعنی ڈائریکٹ بات ہوتی ہے نہ کہ استعاروں اور اشاروں کنایوں میں۔

دوسرا یہ کہ یہی کتاب علامہ اقبال کی آخری عمر کی مفصل تحریر ہےاور اس لحاظ اقبال کے عقائد کا یہ وہ ورژن ہے جسے علامہ اقبال کے کسی سابقہ بیان یا تحریر سے رد نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ہم اقبال کے ہر سورس سے بھرپور مدد لینے کی کوشش کرینگے۔ تاکہ پوری طرح جان سکیں کہ اقبال کے عقائد کیا ہیں؟

اقبال خطبات کے دیباچہ میں خود اس بات کا اظہار ہےکہ،

’’وما خلقکم وبعثکم الا کنفس واحدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس (آیت) کا اشارہ جس حیاتی وحدت کی طرف ہے اگر آج اسے تجربے میں لایا جائے تو کسی ایسے منہاج کی ضرورت ہوگی جو عضویاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو، مگر نفسیاتی اعتبار سے اُس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خُوگر ہوچکا ہے‘‘

اس اقتباس کے بعد اقبال دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ

’’چنانچہ یہی وہ مطالبہ ہے جسے اِن خطبات میں جو،  ’مدراس مسلم ایسویسی ایشن‘   کی دعوت پر مرتب ہوئے اور مدراس، حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے گئے، مَیں نے اسلام کی روایاتِ فکر، علی ھذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم اِنسانی کے مختلف شعبوں میں حال میں رُونما ہوئیں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل ِ جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔

پہلے اقتباس میں، آپ نے اس جملے پر غور کیا؟

’’جو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو‘‘

اس سے ماسوائے اس کے اور کیا مراد ہوسکتی ہے کہ اب ایسے منہاج کی ضرورت ہے جو ’’صوم و صلاۃ‘‘ اور عباداتِ بدنی کی شدت میں کمی لائے؟

اس کے مقابلے میں ’’نفسیاتی اعتبار سے اُس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خُوگر ہوچکا ہے‘‘۔

یعنی موجودہ دور کا سائنسی اور مادی ذہن۔ چنانچہ اقبال کا مدعا دیباچے سے ہی معلوم ہوجاتاہے کہ اقبال کس نوعیت کی تشکیل ِ جدید کرنے جارہے ہیں۔

اقبال کے اسلامی عقائد پر تنقیدی نظر ڈالنے کے لیے ہم ترتیب وار چلتے ہیں۔ جاری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔