میم ناگ :کوئی زیر زمیں سویا پڑا ہے،کہانی کا کوئی کردار گم ہے

ڈاکٹر سلیم خان

میم ناگ کی کہانی میں  چوتھی سیٹ کا مسافر جب اچانک اپنی سیٹ سے کھڑا ہوجاتا ہے تو تیسرا مسافر دھڑام سے زمین پر آجاتا ہے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آخر یہ کیسے ہوگیا اور پھر ایک نئے مسافرکے اس سیٹ پر بیٹھ جانے سے کشمکش حیات کا سفر حسب ِ معمول جاری و ساری ہوجاتا ہے۔  لیکن اس بار چپ چاپ چوتھی   سیٹ سے اٹھ  کرمیم ناگ دنیا کی چلتی گاڑی سے اترااورایک  لامتناہی سفر پر روانہ ہوگیا۔ لمحہ بھر کیلئے وقت کا پہیہ  ٹھہرساگیا ہےاور اس کے ساتھ سفر کرنے والے بے حس و حرکت مسافر کھڑکی سے نکل ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ اس کے بعد فضا میں صرف  ناگ کی سرسراہٹ تھی۔ زمان و مکان کے قیدو بند سے آزاد ایک بے ربط کہانی کی  آہٹ میں  سمندر پارابوظبی میں سن رہاتھا ؎

بہت بے ربط ہوتی جارہی ہے ، کہانی کا کوئی کردار گم ہے                     کوئی زیر زمیں سویا پڑا ہے ، کوئی ساتھی سمندر پار گم ہے

مختارسید ناگپوری کو جبمحسوس ہوا کہ ان  کا نام بہت طویل ہے تو اس قناعت پسند فنکار نے اپنی آرزووں اور تمناوں کی طرح اسے بھی مختصر کرکے صرف میم ناگ پر اکتفاء کرلیا ۔ سادگی اور پرکاری ان کی فطرت میں رچی بسی تھی ۔ ممبئی کی ادبی فضا میں وہ گوندیا سے ان کے ساتھ آئی  اور انہیں  کے ہمراہ رخصت ہوگئی  ۔  ناگ کا میم  نہ ان کی موجودگی میں کوئی اور تھا اور نہ بعد میں ہوگا۔ یہ ایک ایسا ناگ تھا جو ۶۶ سال انسانوں کے درمیان رہا لیکن کسی نے اس  کی پھنکار نہیں دیکھی۔اس ناگ  کا زہرمیم  کی  کہانیوں سے نکل کر قاری کے قلب و ذہن میں سرائیت کرجاتاتھا۔ ناگ گزیدہ زہر کے عادی  قارئین کے  قلب کی کیفیت پریہ شعرصادق آتا ہے ؎

آج کچھ لطف و کرم حد سے سوا ہے دل پر                                           جیسے اک کوہِ گراں ٹوٹ پڑا ہے دل پر

چوتھی سیٹ کا مسافر وہی لکھ سکتا ہے کہ جسے تین افراد کی بنی سیٹ پر مزید  ایک شخص کی گنجائش کا علم ہو۔ ایک ایسے فردکی گنجائش جو کہیں بھی اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیتا ہے۔ جس کا مطمح نظر سفر سے لطف اندوز  ہونا نہ  ہوبلکہ جس کی نگاہ منزل پرمرکوزہو۔ ایسے مسافر  کو کبھی فرصت میسر نہیں آتی کہ گرانٹ روڈ سے الٹا چرچ گیٹ کی طرف جائے اور پھر وہاں سے بوریولی کی جانب  لوٹے ۔ وہ چوتھی سیٹ پر گذارہ کرلیتا ہے۔ چوتھی سیٹ پر زندگی گذارنے والے ہم جیسے لوگ ہر رات مرتے ہیں اور پھرصبح میں  جی اٹھتے ہیں ۔بقول شاعر؎

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتے ہیں           رات بستر پہ جو سوتے ہیں تو مرجاتے ہیں

گردش ایام نےبرسوں تک میم ناگ کو اس سونے اور جاگنے کے سحر میں  مبتلارکھا لیکن پھر ایک دن آزاد کیا تو کچھ ایسے کہ ہمیشہ کیلئے سلادیا ۔پچھلے دنوں صحافت کے مدیر جاوید جمال الدین سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے میم ناگ کی خیریت دریافت کی ۔ جاوید بولے وہ ہمیں چھوڑ کر ’ہم آپ ‘ میں چلے گئے ۔ میں نے سوال کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ہمارا اپنا میم ناگ تو ہم اور آپ کا فرق ہی نہیں جانتا ۔ جاوید بھائی کہامیری مراد ’ہم آپ ‘ اخبار سے ہے۔ میم ناگ نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں  کئی اخبار بدلے لیکن یہ تبدیلیاں انہیں بدلنے سے قاصر رہیں  اور نہ اس کے حالات کو تبدیل کرسکیں  ۔ گردشِ زمانہ سے بے نیاز ان کے قلم کی دھار بھی نہیں بدلی اور وہ کیوں کر بدلتی کہ کسی ناگ کو اپنے زہر پر اختیار ہی کب ہوتا ہے؟ وہ تو بے اختیار چلتا ہے اور چلتا ہی چلا جاتا ہے میم ناگ کا قلمی سفر اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎

تھا شوق سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے                           منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا

 مجھے یاد پڑتاہے ایک روز وہ میرا انٹرویو لینے کیلئے وہ  آئے  بہت دیر تک ہم لوگ بات چیت کرتے رہے ۔ جاتے ہوئے انہوں نےہنس کر کہا یار تم نے تو مجھے کچھ پوچھنے ہی نہیں دیا اب ایسا کرو کہ میرا انٹرویو لکھ بھجوادو ۔دورانِ گفتگومیم ناگ کا ایک زہریلا  سوال آج بھی مجھے یاد ہے ۔ یہ بتاو کہ یہ ایوارڈ کیسے ملتا ہے؟ میں نے کہا ایوارڈ ہم جیسے چوتھی سیٹ والوں کیلئے  نہیں ہوتے۔ اس کیلئے فنکاری کے علاوہ عیاری درکار ہوتی ہے ۔ دوڑ کر چلتی ٹرین میں سوار ہونا پڑتا ہے ۔ جھپٹ کر کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کرنا ہوتا ہے ۔ وہ بڑی معصومیت سے بولے تب تو یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔  اور پھر یہ ہوا کہ شاید کسی نے انہیں  حامد اقبال صدیقی کے یہ اشعار سنا دیئے ؎

کیاضروری ہے جہاں میں نام کر،سرجھکا چپ چاپ اپنا کام کر                             دوڑ کر لوگوں کے پیچھے کیا ملا،تھک چکا ہے یار اب آرام کر

اس سال کی ابتداء سے اردو ادب پر پت جھڑ کا سا سماں ہے۔ میم ناگ سے میری آخری ملاقات ایک ایسی تعزیتی نشست میں ہوئی تھی جس میں  ندافاضلی، محسنانصاری،زبیررضوی،عابدسہیل،محمودالحسن اور انتظارحسین جیسے مشاہر ادب کو خراج تعزیت پیش کرنے کیلئے منعقد کیا گیا تھا  لیکن نشست سے دوچار روز قبل انور سدید کے وفات کی خبر بھی آچکی تھی  ۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہر ماہ ایک نہ ایک اندوہناک خبر سنائی دیتی ہے اور اب تو میم ناگ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی بن گئے۔  اس  نشست میں میم ناگ کو عابد سہیل پرمضمون پڑھا اور جاتے ہوئے مجھے ایک لفافہ پکڑا کر کہا اس میں’’چوتھی سیٹ کا مسافر‘‘ہے۔ میں سمجھ گیا کسی ریل گاڑی کو مسافروں سمیت لفافہ کے اندر بند کرنے کا فن کون جانتا ہے ۔ اس کے بعد بتایا  میری ایک اورزیرترتیب کتاب جس نام ’’پھٹی کتاب ‘‘ہے   جلد ہی آجائیگی ۔کون جانتا تھا کہ اس کتاب کے آنے سے قبل کہ میم ناگ ہمارے درمیان سےاٹھ کر چلے  جائیں گے اور ہم اپنی نمناک آنکھوں سے ایک کٹی ڈور  کو جوڑنے کی سعی لاحاصل اس شعرکے ساتھ کررہے ہوں  گے ؎

ذرا کھل کر بھی رو لینے دو ہم کو                        کہ دل کی آگ تک، پانی تو جائے

میم ناگ تو بڑی پھرتی سے کارِ جہاں  نمٹا گئے مگر مجھ سے کاہلی سرزد ہوئی۔ میرے ناول آتش صلیب کی پشت پر میم ناگ کے تبصرے کا اقتباس ہے ۔ اس کتاب کے اجراء کا حق  انہیں کو تھا اور یہ میری خواہش بھی تھی  لیکن تاخیر ہوگئی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ انہیں  جانے کی جلدی ہے، انہیں بھی نہیں پتہ تھا اور کسی بھی کو پتہ نہیں ہوتا۔ کون جانے یہ خراج تعزیت  مکمل ہوگا بھی کہ نہیں اور اگر  تکمیل کے مراحل سے گذر جائے تب بھی شائع ہوسکے گا یا نہیں،اور شائع بھی ہوجائے تو یہ اگلاچوتھی سیٹ کا مسافر اسے پڑھ سکے گا یا نہیں ؟ کوئی نہیں جانتا ! کوئی بھی نہیں جانتا !!اور جان بھی کیسے سکتا ہے !!!عالم الغیب تو وہی یکہ و تنہا ذاتِ باری تعالیٰ ہے کہ جو اپنی مرضی سےاپنے بندوں  کو دنیا کی ریل میں سوار کرتا اور جب چاہتا ہے اپنے پاس بلا لیتا ہے ۔ اس پر کسی مختار کاکوئی اختیارنہیں  ۔ ہم بے اختیار لوگ اپنی محرومی پر اس شکوہ کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں ؎

غمِ جسم و جاں، غمِ دوستاں، غمِ رفتگاں بھی بجا مگر                              وہ جو غم کدے کا نکھار تھا، غمِ یار تھا، وہ نہیں رہا

تبصرے بند ہیں۔