ڈاکٹر محمد بہاء الدین سے ایک علمی گفتگو

ہلال احمد

طشت افق پر سورج دم توڑ رہا تھا مشرق سے اندھیروں کا ہجوم پوری طاقت سے دوڑا آرہا تھا، روزآنہ کی طرح آج بھی پرندے اپنے کھوتوں کی طرف رواں دواں تھے، ساحلی ہوائیں درختوں پر مستی میں کھیل رہی تھیں، مکین اپنے مکانوں کی طرف سرپٹ بھاگ رہے تھے ممبئی کی آباد سڑکوں پر گاڑیوں کی متنوع آوازیں اور ان کی سیٹی بج رہی تھیں، بندہ ناچیز کئی دنوں کے بعد آج پارک کی جانب موڈ بناکر سیروتفریح کے لیے نکل رہا تھا، جوڑا جامہ زیب تن کرکے کمرے کی قفل بندی بھی کرچکا تھا، سینڈل پہننے ہی والا تھا کہ رنگنگ ہوئی موبائل پر نگاہ پڑی تو دوسری طرف محسن ملت جرنیل تحریک ختم نبوت ڈاکٹر محمد بہاء الدین حفظہ اللہ تھے۔ اب کیا تھا جلدی جلدی دروازے کا لاک کھولا، آہستہ سے فین چالو کیا اور بغیر کسی تاخیر کے قلم اور کاپی ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا۔ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے جب اتنی عظیم ہستیاں ہم جیسے کم مائیگی علم لڑکوں کو کچھ وقت دے سکیں۔  یہ ڈاکٹر صاحب کی ہستی ہے جو بات کرنا لائق اعتناء سمجھتی ہے۔ خیر علیل سلیک اور حالت و کوائف کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔

 درازیٔ عمر کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی سانس بندھ رہی تھی میرے سلام کا جواب انہوں نے ایک ساتھ کئی مرتبہ دیئے۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد تقریبا نصف گھنٹہ باتیں ہوئیں جس میں اکثر تاریخ اور ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کے سلسلے پر مشتمل رہیں۔  ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ اس بے آب و گیاہ غیر ذی ذرع علاقے مییں جہاں ہم دیوارومتصل المکان گورے عیسائی انگریز ہیں سلام کرنے والا کوئی نہیں بس فون پر ہی سلام کی آوازیں پردہ سماعت سے ٹکراتی ہیں آپ سے بات کررہا ہوں انسیت کا احساس ہوتا ہے، جہاں میں ہوں جناب شیر خان صاحب یہاں سے کوئی دوڈھائی سو میل دوری پر رہتے ہیں ، اس دوری کے باوجود یہی بندہ ہے جو مجھ سے ہمیشہ رابطے میں رہتا ہے ہمارے کاموں کے بارے میں جانکاری حاصل کرتا ہے حوصلہ دیتا ہے اور پیش قدمی بھی کرتا ہے۔

اس غیر ذی ذرع علاقے میں مجھ جیسا بیمار قوت حافظہ سے معذور اور تمام امور سے فارغ البال شخص کچھ کام کررہا ہے جس کی کچھ بھی خبر میرے پڑوسیوں کو نہیں کہ یہ کون ہے؟ کیا کررہاہے؟ اگر خدانخواستہ کوئی سانحہ میرے ساتھ پیش آجائے تو پھر کوئی میرا پرسان حال نہیں سوائے اس مالک اور محافظ کے علاوہ۔   مجھے یہاں کوئی ایک گلاس پانی پلانے والا نہیں خود ہی تمام کام کرتا ہون بازار سے سبزی بھی میں خود لاتا ہوں خود پکاتا اور پکتا ہوں اور تنہا ہی دسترخوان بچھا کر میزبانی بھی کرتا ہوں اور مہمانی بھی۔ ۔ ہاں جب شیرخان صاحب یا کوئی مہمان آتے ہیں تو ان کی محبت میں گھر کی صاف صفائی کا کام خود ہی سنبھالتا ہوں جھاڑو بہارو بھی خود ہی کرتا ہوں اور آنے سے پہلے پہلے کمرہ مزین کرکے استقبال کے لیے بے صبری سے منتظر رہتا ہوں۔ ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ جب میں نے آپ کو کال کیا تھا اس وقت میں چل کر کواڑ کے پاس آرہا تھا کیونکہ بہت دنوں بعد آج دھوپ نے اپنے دیدار کا موقع دیا ہے۔ [سورج بھی ٹھنڈک میں آنکھ مچولی خوب کھیلتا ہے خاص کر بزرگوں اور ضعیفوں کو تو اور چٹکی کاٹتا ہے]گزشتہ دنوں جناب شیر خان صاحب نے مجھے اپنی ایک تصویر بھیجی تھی جس میں ان کے دیوڑھی، دیواروں اور ان کے کار پر سخت سردی کی وجہ سے برف جمے ہوتے تھے اور مولانا ایک خاص قسم کے وائپر سے اپنی گاڑی کا شیشہ صاف کررہے تھے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹھنڈک کا حال وہاں کیسا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ شیشہ بند کمرے میں دھوپ کی تمازت حاصل کرنے کے لیے کواڑ پر آگیاہوں۔   تاریخ چھیڑتے ہوئے ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بیرون ملک میں جہاں میں بیٹھا ہوں میرے پاس تاریخ یا تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں ورق کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا بس اللہ کی مدد ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے آہستہ آہستہ وسائل فراہم کیے اور ایک تاریخ مرتب ہوگئی، تاریخ پر کام کرنا کوئی سائنس یا فلسفے کا کام نہیں کہ دماغ سے کریئیٹ کیاجائے بلکہ اس میں تاریخی حقائق کی ورق گردانی اور بوسیدہ کتابوں پر عرق ریزی کرنی پڑتی ہے ورنہ یہ تاریخ سازی کے زمرے میں شامل ہوجائے گا اور تاریخ سازی معیوب عمل ہے۔

 ڈاکٹر صاحب نے بتایاکہ 90/ کے دہے میں جب میرے مضامین ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم میں شائع ہورہے تھے اس وقت ہندوستان سے جن علماء کرام نے تعاون کیااور میرا ساتھ دیا ان میں ایک اہم شخصیت ڈاکٹر عبدالوہاب کاس گنجی کی بھی ہیں، عبدالوہاب صاحب سے میری شناسائی بھی نہیں تھی اور وہ میرے رہائشی ایڈریس وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے لیکن ان کا جذبہ دیکھئے کہ خود انہوں ماہنامہ صراط مستقیم کے ایڈیٹر کے نام خط لکھ کر ” ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر” 1935ء کی تین جلدیں مجھے دینے کی پیشکش کیں۔ اور اب بھی وہ تاریخی مواد فراہم کرنے میں ہمارا تعاون کرتے رہتے ہیں جس میں شیرخان صاحب کا کردار سب سے اہم ہے۔

 گفتگوکو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے ڈاکٹر صاحب سے مستقبل کے عزائم اور کاموں کے بارے پوچھا جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ آریہ سماج پر اہل حدیث نے جو کام کیا ہے اس پر دیڑھ ہزار1500/ سے زائد صفحات کمپوز کرچکا ہوں جو سیدھا سیدھا تاریخ اہل حدیث کا حصہ ہیں۔  مزید بتائے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاریخ اہل حدیث کی 7ویں اور 8ویں جلد میں نیچریت اورسرسید احمدخان پر کام کیا ہے جو ان شاء اللہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی جانب سے ہونی والی قریبی کانفرنس میں منظر عام پر آرہی ہے۔ جامعہ سلفیہ اور سینٹرل لائبریری کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میرے مضامین کے بعد پوری دنیا سے لوگ مجھے تاریخ اہل حدیث اور ختم نبوت پر کام کرنے کا حوصلہ دینے لگے تھے جس میں ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ (اللہ ان کو غریق رحمت کرے) بھی شامل تھے انہوں نے سلفیہ سے پیرا میٹر سیٹ کیا۔ آریہ سماج پر لکھنے میں جن لوگوں نے مدد کی ان میں سے کوئی شخص جامعہ سلفیہ بنارس کی لائبریری سے متعلق بھی ہیں جن کا نام ڈاکٹر صاحب نے پوچھنے پر بھی ظاہر نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ رہنے دیں کوئی اللہ کا بندہ ہے جو میرا تعاون کررہا ہے، میں نے پیشقدمی کرتے ہوئے سینڑل لائبریری کے نگراں اعلی مولانا محفوظ الرحمن سلفی کا نام داغا لیکن تب بھی ڈاکٹر صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہاں البتہ محفوظ بھائی کی تعریف خوب کرتے ہیں محفوظ بھائی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے میں ملاتے ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے کہ مولانا محفوظ الرحمن سلفی صاحب نے علمی مواد فراہم کرنے میں میری بہت مدد کی ہے۔

 ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ قادیانیت پر جماعت اہل حدیث نے کتنا کام کیا ہے کسی کو اتنی معلوما ت فراہم نہ تھیں جستہ جستہ کتابیں یا مواد تھے لیکن اللہ کی توفیق سے اب ہماری تاریخ مرتب ہوچکی ہے۔ فی الحال پرانی فائلیں میں فیس بک پر شیئر بھی کررہا ہوں تاکہ وہ کام جو ہوچکا ہے منظر عام پر آئے یہ ساری چیزیں بہت اہم ہیں اور ہماری تاریخ کا حصہ بھی ہیں ، کیا پتہ زندگی کی شام کب ہوجائے اور لوگ ان کاموں سے ناواقف ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول”اللہ تعالی کو جو منظور ہوا، فیس بک پر تقریبا سب چیزیں اب موجود ہیں جو مجھے بھی یاد نہیں ہیں کیونکہ میرا حافظہ اب ایسا ہی ہے، آپ نے فیس بک کی ورق گردانی کی، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فر مائے مولانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتابوں پر جو تاثرات وغیرہ بزرگوں نے لکھے ہیں اور مختلف بزرگوں نے مختلف اوقات میں جو اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بھی ٹیبلٹ کی صورت میں فیس بک پر ڈالا ہوا ہے، اور میں تو یہاں اکیلا بیمار پڑا ہوا ہوں ، کچھ بھی نہیں کر سکتا، بس سب کچھ ادھر ادھر سے ہورہا ہے ان اسباب و وسائل کے ذریعے جو اللہ نے مختلف مقامات پر مختلف شکلوں میں پیدا فرما رکھے ہیں۔  ہندوستان میں کاس گنج کے ڈاکٹر عبد الوہاب، اور پاکستان مین میرا بیٹا سہیل ہے۔ کاس گنج کے بہت سے خطوط بھی میں نے فیس بک پر ڈال رکھے ہیں ، اس بزرگ نے میری بہت بہت بہت مدد کی ہے” یہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ ہیں جو انہوں نے مجھے میسیج کیے ہیں ساتھ ہی قلمی ورقہ بھی بھیجا ہے اور بعد میں اس کو بھی ٹائپ کرکے بھیجے ہیں جس میں لکھا ہوا ہے:

”یخرج الحی من المیت”

 یہ کام ایسے شخص سے کرایا جو خرابیء صحت کے باعث ریٹائر ہو چکا تھا یعنی وہ لکھنے پڑھنے جیسے فرائض انجام دینے کے قابل نہیں رہا تھا، اس سے یہ کام لے لیا کہ اس کی ضخامت (خواہ ردی ہی کہا جائے) پچاس ہزار صفحات تک پہنچ گئی ہے، چونکہ یہ تاریخ ہے فلسفہ یا سائنس نہیں کہ ذہنی تخلیق ہو، یہ تاریخ ہے جو اوراق پا رینہ سے ہی مل سکتی ہے، اور ایک ایسے شخص سے کام لیا جو اپنا وطن چھوڑ کر جب 1986 مین برطانیہ آیا تو اس کے پا اس کی دسترس میں ان موضوعات (تحریک ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث) سے متعلق ایک صفحہ یا ورق تک موجود نہ تھا، اور برطانیہ مین اس کا مستقر کسی علمی مرکز، کسی دار الکتب، یا کسی لائبریری میں ، یا کسی علمی ماحول میں نہیں کرایا بلکہ ایک ایسی جگہ ہوا جو اہل حدیث اور ختم نبوت کی تاریخ کے لحاظ سے بالکل بنجر یا صحرائی میدان ہے، نہ کوئی علمی ہم نشین ہے نہ کتب، نہ علمی دینی اخبارات و رسائل” یہ الفاظ محسن ملت ڈاکٹر محمدبہاء الدین حفظہ اللہ کے ہیں جو انہوں نے آج مجھے بھیجے ہیں۔

گفتگو کرتے ہوئے ہمارے یہاں ممبئی میں مغرب کی اذان ہونے لگی جس پر ڈاکٹر صاحب نیکلام کو منطقع کرتے ہوئے بعد میں پھر کبھی تفصیلی گفتگو کرنے کی بات کہی اور فون کٹ گیا اور ہم مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد چلے گیے۔

 یہ توٹے پھوٹے الفاظ اور باتیں میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہوسکتا ہے کسی کے کام آسکیں ، کیونکہ تاریخی اور علمی شخصیت سے وابستہ باتیں تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ گفتگوکا یہ دورانیہ 35/ منٹ 22/سکنڈ رہا ہے بروز سوموار 05/03/2018۔

تبصرے بند ہیں۔