جموں و کشمیر کے سرکاری اسپتال: شفاخانہ یا تجربہ گاہ؟

الطاف حسین جنجوعہ

تعلیم اور صحت دو انتہائی اہم ترین شعبے ہیں جن کی ترقی اورمعیار سے ہی کسی قوم وملک کی خوشحالی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ کسی بھی حکومت کی بھی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ تعلیم وصحت شعبہ جات کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیاجائے اور اس کی ترقی ممکن بنائی لیکن جس قدر یہ دونوں شعبے آج حکومتی عدم توجہی سے زوال پزیر ہیں وہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سرمایہ کارِ، صنعتکار جس طرح پیسوں ، مال ودولت کی لالچ دیکر عوام کے چنے ہوئے نمائندؤں (MLAs/MLCs/MPs)کے ذریعہ سرکاری اسپتالوں کا بیڑا غرق کروارہے ہیں ، اس پر ہم افسوس صد افسوس کرنے کے سیوا کچھ نہیں کرسکتے۔ ضمیرفروش اور زرخرید حکومتی عہدادران، جنہیں ہم نے اپنی حفاظت، صحت وتندرستی، امن وخوشحالی کے لئے ووٹ دیکر اقتدار میں لایاتھا، وہی آج چند حقیر مفادات کے لئے ہماری جانوں کا سودا کر رہے ہیں ۔ یہ ہم سے جینے کا حق چھین رہے ہیں ، ہمارے لئے سرکاری اسپتالوں کو شفاخانہ، باعثِ راحت کے بجائے موت کا کنواں بنادیاہے۔ جہاں ہم آج دو ٹانگوں پر چل کر جاتے ہیں اور واپس چارپائی پر اٹھاکر لائے جاتے ہیں ۔

آج میرے عنوان کا موضوع’’جموں وکشمیر میں سرکاری اسپتال بالخصوص گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال جموں ‘‘کی صورتحال ہے۔ نجی کاری(Privatization)نے جہاں تعلیم کو منافع بخش تجارت اور کاروبار میں تبدیل کردیا اور آج ڈگریاں ، ڈپلوامے پڑھ کر کم اور خرید کر زیادہ لئے جاتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح اب ڈاکٹر کے نزدیک دیانتداری، خلوص نیت سے ایک ’مریض ‘کا علاج کرکے اس سے صحت یاب بنانا نہیں رہابلکہ اب مریض اُس(ڈاکٹر) کے لئے پیسے کمانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آج ڈاکٹر کی یہ کوشش رہتی ہے کہ جتنی زیادہ دیر تک مریض دوا کھاتارہے تو بہتر ہے تاکہ دوائیاں فروخت ہوتی رہیں اور اس کو کمپنی کی طرف سے موٹی موٹی کمیشن، سالانہ مہنگے مہنگے تحفے، دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے اہل خانہ کے ساتھ Tourکرنے کا موقع ملے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ایک نئی بیماری ایجاد ہورہی ہے، جس کے لئے مہنگی مہنگی دوائیاں بھی تیار کی جارہی ہیں ۔

’معیارومقدار‘ اور زیادہ سے زیاد منافع (Profit)کمانے کی اس دوڑ میں مریض کا علاج نہیں بلکہ اس کو پیسے کمانے کی مشین تصورکیاجاتاہے جس سے ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘کا عمل جاری ہے۔ جموں صوبہ کے کلیدی طبی ادارہ گورنمنٹ میڈیکل کالج و اسپتال بخشی نگر جموں جوکہ خطہ کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریب اور مالی طور کمزور افراد کے لئے صحت مند ہونے کی آخری ’واحد اُمید کی کرن‘ہے۔ سب ہیلتھ سینٹر، کیمونٹی ہیلتھ سینٹر، سب ضلع اسپتال اور ضلع اسپتال سطح کے سرکاری شفاخانوں میں ڈاکٹروں کی مہربانیوں سے صحت یاب ہونے کے بجائے ’بسترِ علالت‘ پرپہنچنے والے افراد کے لئے بخشی نگر اسپتال ’تابو ب میں آخری کیل‘ثابت ہوتاہے۔

بخشی نگر اسپتال جموں کی حالت دیکھ کر ریاست بھر میں سرکاری اسپتالوں میں فراہم کئے جارہے علاج ومعالجہ کے معیار اور مریضوں کے تئیں ڈاکٹروں کے رویہ، سنجیدگی اور اخلاص کا بخوبی پتہ لگایاجاسکتاہے۔ GMCHبخشی نگر جموں مریضوں کے لئے شفاخانہ کم اور تجربہ گاہ زیادہ ہے، جہاں پر ڈاکٹر مریضوں پر طرح طرح کے تجربے کر کے اپنی’ پریکٹس‘کو معیاری بناتے ہیں اور پھر پرائیویٹ اسپتالوں میں جاکر علاج کرتے ہیں ۔ اگرکسی شخص نے اچھی خاصی سفارش کرائی یا کوئی ڈاکٹر اس کا قریبی رشتہ دار ہے، توپھر کسی حد تک ڈاکٹر حضرات توجہ دیتے ہیں لیکن چند روز وہاں گذارنے کے بعد انہیں بھی پرائیویٹ اسپتالوں کا ہی رخ کرنا پڑتاہے۔ دوسری طرف ایک غریب اور بے سہارا جس کی آخری ’آس اُمید‘میڈیکل کالج اسپتال بخشی نگر جموں ہے، چیخ وپکار، گریہ آہ وزاری، منت وسماجت کرتارہتا ہے لیکن اس کی کوئی سنتا نہیں ، پھر بھی بے چارا خاموش سب کچھ سہتا اور آنکھوں کے سامنے اپنے لٹتے چمن کو دیکھتارہاہے۔ دن بھر وارڈ میں بمشکل ایک مرتبہ سنیئر کوئی ڈاکٹر’’ راؤنڈ ‘‘لگاتاہے، وہ بھی ہر مریض کے پاس جاکر صرف جونیئر ڈاکٹروں اور طلبہ وطالبات سے فیڈبیک حاصل کر کے واپس چلاجاتاہے۔ باقی دن بھر مریض نرسوں ، پیرا میڈیکل سٹاف کے رحم وکرم پر ہوتا ہے جوزیادہ تر فون پر انٹرنیٹ چلانے اور Chatکرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ مریض کو زیادہ تکلیف ہونے پر جب تیماردار (Attendant)اُن کے پاس جاتا ہے، وہ جلدی میں اُٹھ کر Pain Killerانجکشن لگاکر پھر واپس آکر وٹس ایپ اور فیس بک پر Chatting میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔

اسپتال میں کوئی مریض داخل ہوتا ہے تو اس کو فوری علاج ومعالجہ فراہم کرنے کے بجائے پہلے دس دن صرف ٹسٹوں (Tests)کرانے اور رپورٹیں حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔ جتنے بھی مہنگے ٹسٹ ہیں وہ بخشی نگر اسپتال میں کئے ہی نہیں جاتے۔ باہرPvt. Clinicsسے کرانے کو کہاجاتاہے، وہ بھی ڈاکٹر پرچی پر لکھ کر کسی مخصوص کلینک کا نام تجویز کرتے ہیں ۔ اسپتال کے اندر ہونے والے ’ٹسٹوں ‘کی رپورٹیں دینے میں بھی کئی کئی دن لگادیئے جاتے ہیں ، ٹسٹ رپورٹیں بھی صحیح ہیں یا غلط، اس پر یقین کرنا بھی آسان نہیں ۔ ایک مرتبہ راقم کو ٹسٹ کرنے والی بخشی نگر کی لیبارٹری کے مختلف بلاکوں کا ایک دوست کے ساتھ تفصیلی دورہ کرنے اور جائزہ لینے کا موقع ملاتو وہاں پر جوحالات ومناظر دیکھے انہیں الفاظ میں بیان کرنا مشکل نہیں ۔ لیبارٹریوں میں ایم بی بی ایس طلبہ وطالبات اور پیرا میڈیکس سے ٹسٹ کروائے جاتے ہیں جبکہ سنیئرلیبارٹری ملازمین آرام فرماتے ہیں ۔ وہاں پر85فیصد سے زائد ٹسٹ Studentsسے کرائے جاتے ہیں ۔ اگر آپ غریب، ناخواندہ اور سادہ لوح ہیں تو پھر آپ یقین مان کر چلیں گے اسپتال میں داخل آپ معمولی سی بیماری کا علاج کرانے داخل ہوئے تو باہر آپ کی نعش نکلتی ہے۔ غریب اور سادہ لوح مریض کے پاس دن پردرجنوں کی تعداد میں سٹوڈنٹس آتے ہیں ، اس کو طرح طرح سے سوال وجواب کر تے رہتے ہیں ، مریض بے چارے کو لگتا ہے کہ اس کا اعلاج کیاجارہاہے لیکن اصل میں سٹوڈنٹس اپنے علم وتجربہ میں اضافہ کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ پھر اس پر نسخے آزمائے جاتے ہیں ، کبھی اسے کوئی دوائی تو کبھی کوئی انجکشن لگایاجاتاہے تاکہ یہ پتہ لگایاجاسکے کہ اس کااثر مریض پر کیا ہوتا ہے۔ بچ گیا تو بچ گیا نہیں تو موت بھی واقع ہوتی ہے۔ ایم بی بی ایس طلبہ اور پی جی طلبہ وطالبات کی گروپوں میں آکر دن بھر مریض سے سوالا ت وجواب کرنا اور اس پر طرح طرح کے نسخے آزمانے کا یہ عمل چھٹی ہونے تک جاری رہتاہے۔

جس دن کوئی سرکاری تعطیل ہوتی ہے، اس روز کوئی بھی ڈاکٹر کسی بھی وارڈ کا Roundنہیں لگاتے، چاہئے اس دن مریض کی حالت نازک سے نازک کیوں نہ ہوجائے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج واسپتال بخشی نگر میں ڈاکٹرز مریضوں پر طرح طرح کے تجربے کرتے ہیں اور پھر نجی کلینکوں (Private Clinics & Hospitals)، نرسنگ ہوموں میں جاکر ’پرائیویٹ پریکٹس‘کرتے وقت مریضوں کا علاج کیاجاتاہے۔ بخشی نگر اسپتال سمیت سرکاری اسپتالوں میں اس وقت علاج ومعالجہ کرانے والوں میں زیادہ تعداد غریبوں کی ہی ہوتی ہے۔ امیر لوگ زیادہ تر پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں کا ہی رُخ کرتے ہیں ۔ سرکاری اسپتال کی OPDمیں اگر کسی ڈاکٹر کو چیک اپ کرایاجاتاہے تو وہ لمبے چوڑے ٹسٹ لکھتاہے، جن میں سے بیشتر اسپتال کے اندر سے ہی ہوسکتے ہیں لیکن جان بوجھ کر ایک سے ڈیڑھ ماہ کی لمبی Dateدی جاتی ہے۔

ٹسٹ لکھتے وقت ڈاکٹر مریضوں کو نرمی سے یہ بھی کہہ دیتا ہے’’ یہ ٹسٹ اندر سے ہوتو ہوسکتا ہے لیکن یہاں پرRush(بھیڑ)ہے، جلدی نمبر نہیں آئے گا، اس لئے آپ مجھے باہر سے ٹسٹ کروا کر اگلے ہفتے چیک کروادیں ، باہر سے اگر ٹسٹ کروانا ہے تو یہ لو ,فلاں جگہ لیبارٹری ہے، اس کو میرا کہنا، جلدی اور سستا ٹسٹ ہوجائے گا‘‘۔ چوبیس گھنٹے کیا لگاتار 12-15گھنٹے بھی سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریوں میں ٹسٹ کئے جائیں تو باآسانی سبھی مریضوں کی تشخیص ہوسکتی ہے لیکن جان بوجھ کر Rushکا بہانہ بناکر انہیں باہر بھیجا جاتاہے۔ میڈیکل کالج اسپتال میں ٹسٹوں کی مشینیں ہیں ، انہیں جان بوجھ کر خراب کر دیاجاتاہے جنہیں پھر ٹھیک کرانے کے لئے کئی کئی ماہ لگادیئے جاتے ہیں ، اس کا مقصد صرف اور صرف پرائیویٹ لیبارٹریوں سے لوگوں کو ٹسٹ کرانے پر مجبور کرنا ہوتاہے۔ سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریوں کے لئے مشینیں خریدنے میں بھی بڑے پیمانے پر ہیرا پھیر ی کی جاتی ہے۔ بل لاکھوں کے بنوائے جاتے ہیں پر مشین کی اس سے بہت کم قیمت ہوتی ہے۔

سرکاری اسپتالوں کے لئے ’’دوائیاں اور مشینیں ‘‘ دعویٰ تو یہ کر کے خریدی جاتی ہیں ، کہ یہ معیاری اور اعلیٰ پایہ کی ہیں لیکن اصل میں یہ معیاری ہوتی نہیں ۔ بخشی نگر اسپتال کو جس طرح سے’تجربہ گاہ‘(Experimental)بنادیاگیاہے جہاں پر ایک ہی مرض کے لئے مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی طرف بنائی گئی دوائیوں کا غریبوں پر استعمال کر کے، اس کے فائیدے اور نقصانات معلوم کئے جاتے ہیں ۔ کئی کئی ماہ غریب لوگ وارڈوں میں پڑے رہتے ہیں کیونکہ مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ کہیں اور جانہیں سکتے۔ ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائیں گے لیکن ڈاکٹروں کے اس رویہ سے ان کی حالت ہر گذرتے دن کے ساتھ ساتھ بگڑتی جاتی ہے اور ایک دن وہ اللہ کو پیار ے ہوجاتے ہیں ، ڈاکٹروں کا یہی کہنا ہوتاہے کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی لیکن بچا نہ سکے۔ ایمرجنسی بلاک جہاں پرمنٹ منٹ کے بعدسڑک حادثات، فائرنگ سے زخمی ہونے والے یا پھرکسی بیماری میں مبتلاSeriousمریضوں کو لایاجاتاہے، پر اتفراتفری، چیخ وپکا ر کا ماحول بنا رہتاہے، وہاں پر سنیئرڈاکٹرز دستیاب نہیں ہوتے، رجسٹرار یا پھر پی جی ڈاکٹرہی مامور ہوتے ہیں ، انہیں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لانا پڑتاہے۔ بروقت علاج نہ ملنے سے مریض کی حالت مزید خراب ہوتی جاتی ہے۔

بخشی نگر اسپتال جموں اورریاست کے دیگر سرکاری اسپتالوں کی جوصورتحال ہے، وہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ منسٹروں اور اراکین قانون سازیہ وسیاسی لیڈران سے اس میں بہتری کی توقع کرنا تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ اس لئے سماج کے ذی شعور افراد، تعلیم یافتہ نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ Privatizationکے اس اثرسے سرکاری اسپتالوں کوبچانے میں اپنا رول ادا کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں موجود سب ہیلتھ سینٹرز، پرائمری ہیلتھ سینٹرز، کیمونٹی ہیلتھ سینٹرز، سب ضلع اسپتال اور ضلع اسپتال پر نظر رکھیں ۔ اگر آخری خزانہ عامرہ سے لاکھوں ، کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے ڈاکٹروں کو بے لگام چھوڑا گیا تو ریاست کی وہ 60-70فیصد غریب آبادی کیا کیا ہوگا جس سے علاج کے لئے سرکاری اسپتالوں کے علاوہ اور کوئی وسیلہ اور امید نہیں ………………!

تبصرے بند ہیں۔