پولیو ویکسین کے حوالے سے ایک ہولناک خطرہ اور انکشاف

ترجمہ: احید حسن

انسانیت سب سے بڑا مذہب کا نعرہ لگانے والے منافقوں کی انسانیت کہاں مر گئی ہے؟

پولیو ویکسین میں کینسر کی وجہ بننے والے بندر کے وائرس کی دریافت اور اس حوالے سے خفیہ حیاتیاتی ہتھیاروں کا پروجیکٹ اور اس کے انکشاف پہ ڈاکٹر میری شیرمین کا دردناک قتل۔

1960ء میں طبی تحقیقات نے اس کی تصدیق کی پولیو کی ساک ویکسین(  ipv) میں سیمین وائرس 40 یا sv 40 موجود ہے جو کہ کینسر کی وجہ بننے والا ایک وائرس ہے جو کہ اس ویکسین میں بندر کے گردوں کے خلیوں سے آیا تھا جو کہ اس پولیو ویکسین کی تیاری کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔

1950ءکے عشرے کے وسط سے 1960ء تک کینسر کے وائرس رکھنے والی یہ ویکیسین 98 ملین یعنی لگ بھگ دس کروڑ انسانوں کو کھلائی جاتی جا چکی تھی۔ 1960 ء کے بعد اس ویکسین کے کئی ملین مزید نمونے تیار کرکے انسانوں میں منتقل کیے گئے۔ لیکن اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ یہاں تک کہ پہلی قابل عمل پولیو ویکسین بنانے والے ڈاکٹر سابن نے اس کے بارے میں اس طرح انکشاف کیا

” عوام کو ہراساں کرنے کے لیے یہ بہت ہی زیادہ ہے۔ اوہو! آپ کے بچوں کو وہ ویکسین دی گئی جس میں کینسر کی وجہ بننے والے وائرس موجود تھے۔ یہ بہت برا ہے۔ "

طبی تحقیقات کرنے والوں نے بیسویں صدی کے آخری پچاس سالوں میں کینسر کی شرح میں خوفناک اضافے کو بیان کیا جو کہ 1950ء یعنی اس پولیو ویکسین سے پہلے نامعلوم تھے۔ ان کے مطابق اس کی وجہ پولیو ویکسین میں موجود سیمین وائرس تھا۔
کینسر کی وجہ بننے والے وائرس کی دریافت کے جلد ہی بعد , امریکی حکومت نے ایسے خفیہ منصوبے شروع کیے جن کا مقصد کینسر کو ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پہ استعمال کرنا تھا۔ کینسر کی وجہ بننے والے ان وائرس کو لائنیئر پارٹیکل ایکسلیریٹر کے ذریعے ان کا جینیاتی مواد تبدیل کیا گیا۔ پھر ان کو چوہوں میں منتقل کیا گیا تاکہ ان سے کینسر کے پیدا ہونے پہ تحقیق کی جا سکے۔ ڈاکٹر میری شرمین کو اس خفیہ تحقیق کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ 1964ء میں خاتون  ڈاکٹر شرمین کو اس کی رہائش  گاہ میں دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا۔ ان کو کئی بار خنجر گھونپے گئے تھے اور ان کے دائیں بازو اور پسلیوں کو جلا دیا گیا تھا۔ ان کی حیران کن داستان ایک تصنیف Dr Mary,s Monkey میں ہے۔

1963ء کے موسم بہار میں انیس سالہ جودتھ واری بیکر کو نیو اورلیانز میں ڈاکٹر اوشنر کے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ وہ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والا کینسر تحقیق کی ایک محنتی طالبعلم تھی۔ جلد ہی اس نے لی ہاروے اوسوالڈ سے عشقیہ مراسم استوار کر لیے جس نے اسے بتایا کہ وہ ایک خفیہ ایجنسی کا رکن ہے۔

اوسوالڈ نے بیکر کا تعارف ڈیوڈ فیری سے کرایا جو جم گیریسن کے مطابق صہیونی الومیناٹی کو چیلنج کرنے والے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی  کے قتل کا بنیادی سرغنہ تھا۔ فیری نے بیکر کو بتایا کہ فیدل کاسترو کو کینسر سے متاثر کرکے امریکی حکومت قتل کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔ اس طرح قتل کا الزام بھی امریکی حکومت پہ نہیں آیے گا۔

بیکر اور اوسوالڈ کو ریلی کافی کمپنی میں خفیہ کام دیے گئے۔ اس کا اصل کام فیری کی رہائش گاہ میں تھا جس کے کچھ حصے تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیے گئے تھے۔ بیکر ایک وقت میں پچاس سے ساٹھ چوہوں پہ تحقیق کرتی جن کو کینسر کی وجہ بننے والے وائرس کی وجہ سے کینسر کا شکار کیا گیا تھا۔ بیکر پھر ان چوہوں کو قتل کرتی اور ان کے جسم میں موجود کینسر کی رسولی کا وزن کرتی۔ پھر ان کینسر خلیوں کو آپس میں ملا دیا جاتا۔ اس کے بعد بیکر ان تحقیقات کی رپورٹ مرتب کرتی اور اس مزید نظر ثانی کے لیے ڈاکٹر میری شیرمین کے حوالے کر دیتی۔ اوسوالڈ ان سائنسدانوں اور اس خفیہ تحقیقاتی منصوبے کے زمہ داران امریکی خفیہ ایجنسی کے نمائندوں کے درمیان ایک رابطے اور دلال کا کردار ادا کر رہا تھا۔

بیکر کو بعد میں پتہ چلا کہ انگولا کے قیدیوں پہ کینسر کی وجہ بننے والے وائرس کے تجربات کیے گئے تھے۔ اس پہ بیکر نے اس جرم کے خلاف ایک خط لکھا جس نے اسے ڈاکٹر اوشنر کا دشمن بنا دیا۔ اس پہ اس نے یہ تحقیق چھوڑ دی اور اپنے شوہر کے ساتھ فلوریڈا اپنے گھر واپس آگئی۔ جب کہ باقی سائینسدانوں نے یہ کام جاری رکھا۔ اس کے بعد اوسوالڈ نے میکسیکو کے راستے کیوبا کا سفر کرنے کی کوشش کی تاکہ کینسر کی وجہ بننے والے وائرس کو فیدل کاسترو کے قتل کے لیے کیوبا منتقل کیا جا سکے۔
بعد ازاں میری شیرمین نے اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کی جس کی پاداش میں اسے دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔

یہ ہے پولیو ویکسین میں شامل کینسر کی وجہ بننے والے وائرس اور عوام میں مصنوعی کینسر پیدا کرنے کی خفیہ سائنسی تحقیق جس کا انکشاف کرنے والے سائنسدانوں کو دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا۔

یہ انسانیت کو تباہ کرنے کے خفیہ صہیونی الومیناٹی منصوبوں میں سے صرف ایک کی مختصر تفصیل ہے۔ ورنہ ایسے سینکڑوں ہی نہیں ہزاروں خفیہ امریکی اور یورپی منصوبے ہیں جو آج بھی جاری ہیں۔

انسانیت سب سے بڑا مذہب کا نعرہ لگانے والے اور اسلام کو دنیا کی تباہی کا زمہ دار کہنے والے لبرل ،سیکولرز اور ارشد محمود جیسے ملحدین جو یورپی اور امریکی معاشروں کو مثالی معاشرے بتا کر اس کی پیروی کی تلقین اور اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، وہ انسانیت کی تباہی کی اس امریکی و یورپی جدوجھد پہ منافقانہ طور پہ کیوں چپ ہیں؟ لعنت ہو ان سب پہ اللہ کی جو انسانیت کی تباہی کا تماشا دیکھیں لیکن پھر بھی منافق بن کر اپنی زبان بند رکھیں۔ جب تک دنیا کی کمان یورپ اور امریکا کے ہاتھ میں ہے دنیا اور انسانیت ایسے ہی تباہ ہوتی رہے گی۔

سوچیں اور اس بارے میں آگاہی کی تحریک چلائیں ورنہ نہ سوچنے کا وقت ہوگا اور نہ کچھ کرنے کا اور ان نام نہاد دانشوروں اور کالم نگاروں سے ہوشیار رہیں جو اصل حقیقت چھپا کر آپ کو یورپی اور امریکی معاشروں کو مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا

دنیا میں اگر رہنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر 
لباس خضر میں اکثر رہزن بھی ہوا کرتےہیں

تبصرے بند ہیں۔