سیرت نبوی میں وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

اللہ عزوجل نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کوظاہری وباطنی تمام تر خوبیوں سےایسا  آراستہ کیا تھا کہ کوئی آپ ﷺ کے اخلاق کے کمال، اور آپ ﷺ کی شخصیت کے انوکھے پہلوؤں کی نظیر پیش نہیں کرسکتا،آپ جہاں وحی الہی اور احکام خداوندی کے مبلغ ومعلم تھے، کفر وشرک کے زنگ سے دلوں کو صاف کرنے والے تھے، ایک حقیقی معبود سے انسانوں کے رشتہ کی تصحیح وتنظیم کرنے والے، اور خالق سے مخلوق کے ربط وتعلق کو مستحکم بنانے والے تھے وہیں آپ کی زندگی اخلاق حسنہ کی حسین تشریح تھی،اور اخلاقیات کے تمام تر پہلو اور اوصاف آپ کی شخصیت میں کامل ومکمل موجود تھے۔ اورآپ کی زندگی کے حقائق و واقعات آپ کے اس ارشاد:   بعثت لاتمم مکارم الاخلاق کا عملی ثبوت تھے۔

اخلاقی اوصاف میں سے ایک اہم وصف عہد وپیمان کی پاسداری اور وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ جس طرح دیگر اخلاقی خوبیوں کے آپ بے نظیر نمونہ تھے وہیں آپ عہد وپیمان کی پاسداری اور وعدوں کو پورا کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔اور یہ وصف آپ میں اتنا کامل موجود تھا کہ آپ نے اپنے صحابہ سے تو درکنار کبھی اپنے دشمنوں سے کئے ہوئے وعدوں کی بھی خلاف ورزی نہیں کی، چاہے اس کے لئے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ پیش کرنی پڑی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مخالفین کوبھی آپ کی اخلاقی خوبیوں کے اعتراف ساتھ اس بات کا بھی اعتراف تھا کہ آپ وعدوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں ، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ابوسفیان سے جب کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، ہرقل بادشاہ نے آپ کے بارے میں پوچھا : کہ کیا آپ وعدوں اور معاہدوں کو توڑتے ہیں ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا : نہیں ۔ تو اس پر ہرقل نے کہا کہ انبیاء کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ وعدہ خلافی اور معاہدہ شکنی نہیں کرتے ہیں ۔

اسی طرح صلح حدیبیہ کے اگلے سال جب عمرۃ القضاء کے لئے رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو اس موقع پر ’’مکرزبن حفص ‘‘ نے آپ ﷺکے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:

ما عُرِفتَ بالغدر صغيرا ولا كبيرا، بل عُرِفتَ بالبر والوفا

’’آپ نہ تو بچپن میں عہد شکنی کرنے والے سمجھے گئے اور نہ بڑے ہونے کے بعد، بلکہ آپ تو حسن سلوک اور وفاداری کے حوالے سے معروف ہیں ‘‘

عمان کے بادشاہ کے پاس جب اسلام کی دعوت پہونچی تو اس نے اس موقع پر نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کہا کہ بخدا مجھے ان کے نبی ہونے کا یقین اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ جس خیر کا حکم دیتے ہیں پہلے خود ہی اسے اختیار کرتے ہیں ، کسی برائی سے بھی روکتے ہیں تو سب سے پہلے وہ خوداس برائی کو چھوڑتے ہیں ، کسی قوم پر غالب آتے ہیں تو فخر وتکبر نہیں کرتے، اورمعاہدوں اور وعدوں کو پورا کرتے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ نبی ہیں ۔

اس حقیقت کا مخالفین اظہار کیوں نہ کریں کہ کبھی بھی آپ نے غدر وبے وفائی اور وعدہ خلافی کو گوارا ہی نہیں کیا بلکہ حالات ا ورتقاضوں سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ نے وعدوں کو پورا کیا اور عہد وپیمان کی پاسداری کی۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کہ صلح نامہ لکھا جارہا تھا، اور اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھا کہ’’ اگر قریش میں کا کوئی شخص اپنے ولی یا آقا کی اجازت کے بغیرمدینہ جائے گا تو وہ واپس کیا جائے گااگر چہ وہ مسلمان ہوکر جائےاور جو شخص مسلمانوں میں سے مدینہ سے مکہ آجائےتو اس کو واپس نہ دیا جائے گا ‘‘، حضرت  ابوجندل بن سہیل بن عمر بیڑیوں میں جکڑے ہوئے قریش کے ظلم کی منہ بولتی تصویر بن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس چھپتے چھپاتے پہونچ گئے، ابو جندلؓ کے والد سہیل نے فورا ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ اس معاہدہ کے مطابق اسے واپس کیا جائے، چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے حسب معاہدہ انہیں واپس کردیا، حضرت ابوجندلؓ نے فریاد کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ اے مسلمانوں کیا مجھے مشرکین کے حوالے کیا جارہاہے کہ وہ مجھے آزمائشوں اور تکالیف سے دوچار کریں ؟؟!! یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے اور قریش کے مابین ایک معاہدہ ہوا ہے اور ہم عہد شکنی نہیں کرسکتے، اے ابو جندل صبر کرو اور اس پر اللہ سے اجر کی امید رکھو، بے شک اللہ تعالی تمہارے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو تمہارے ساتھ ہیں بہت جلد نجات کا کوئی راستہ ضرور نکالے گا۔(مسند احمد)

اسی طرح حضرت ابو بصیرؓصلح حدیبہ کے بعد مدینہ مکہ سے مدینہ پہونچ گئے، قریش نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس کردیا، ان کو قریش کے دو آدمی مکہ واپس لے جارہے تھے، ابو بصیرؓ نے راستہ میں ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرے شخص کے چنگل سے خود کو چھڑا لیا اور پھر واپس مدینہ پہونچ گئے، رسول اللہ ﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا، جس سے ابو بصیر ؓ نے محسوس کرلیا کہ مجھے پھر آپ واپس کردیں گے، چناں چہ مدینہ سے نکل کر وہ بحر احمر کے قریب واقع’’ سیف البحر‘‘نامی مقام پر مقیم ہوگئے، جہاں بعد میں ابوجندلؓ بھی پہونچ گئے، اور پھر رفتہ رفتہ وہ تمام لوگ مکہ سے یہاں پہونچ گئے جنہیں مکہ میں ایمان لانے کی پاداش میں درناک اذیتیں دی جارہی تھیں ۔

اسی طرح حضرت ابو رافع ؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ قریش نےمجھے اپنا قاصد بناکر مدینہ بھیجا،جب میں مدینہ پہونچا اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی شمع روشن ہوگئی اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ مجھے اسلام کا کلمہ پڑھا دیجئے، اوراب میں قریش کے پاس ہرگز واپس نہیں جاؤں گا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  میں نہ عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ ہی کسی قوم کے قاصد کو قید کرتا ہوں ، (اگر میں تمہیں ابھی یہاں تمہاری مرضی کے مطابق روک لوں گا تو یہ عہد شکنی ہوگی)تم مکہ واپس جاؤ، اور وہاں جانے کے بعد بھی تمہارادل اسلام پر مطمئن رہے تو واپس آؤ، حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ میں واپس ہوگیا اور اس کے بعد پھر میں نبی ﷺ کے پاس آکر مسلمان ہوگیا۔(ابوداؤد)واضح رہے کہ خود مکہ کے مشرکین نے چند دنوں کے بعد صلح کے اس دفعہ کو کالعدم کردیا اور رسول اللہ ﷺ سے اس دفعہ کو ختم کرنے کی درخواست کی۔(سیرۃ النبیﷺ)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شرکت سے محرومی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں ابو حسیل کے ساتھ غزوہ بدر کے لئے نکل چکا تھا، لیکن ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا، اورہم سے پوچھا کہ کیا محمد کے ساتھ ہو؟ ہم نے کہا: نہیں ہم تو مدینہ جارہے ہیں ،قریش نے ہماری بات مان لی، مگر ہم سے یہ وعدہ لے کر ہمیں رہا کیا کہ ہم ضرورمدینہ واپس جائیں گے اور جنگ میں شریک نہ ہوں گے، اس کے بعد ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ آپ کے سامنے بیان کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے ہم دونوں کو یہ کہتے ہوئے مدینہ واپس کردیا کہ ہم کفار سے کیا ہوا وعدہ پورا کریں گے، اور ان سے مقابلہ کے لئے اللہ سے مدد مانگیں گے( مسلم) حالانکہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو افراد کی شدیدضرورت تھی؛کیونکہ مقابلہ میں ایک ہزار کا لشکر تھا اور ادھر صرف تین سو تیرہ افراد تھے اور وہ بھی  بے سروسامانی کے عالم میں خالی ہاتھ تھے۔

وعدوں اور معاہدوں کو پورا کرنےکے لئے بڑی قربانی کی ایک بے نظیرمثال یہ بھی ہے کہ نبوت ملنے سے قبل ایک مرتبہ عبد اللہ بن ابی الحسماء نے نبی ﷺ سے کسی چیز کے خریدنے کا معاملہ کیا، اس چیز کی قیمت جتنی دینی تھی اتنی عبد اللہ بن ابی الحسماء کے پاس موجود نہ تھی، بقیہ قیمت کی ادائیگی کے سلسلہ میں عبد اللہ بن ابی الحسماء نے کہا کہ آپ یہیں ٹہریں ، میں گھر جاکر بقیہ رقم لے کر آتا ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے اسے منظور کرلیا، ادھر عبد اللہ بن ابی الحسماء گھر جاکرمعاملہ بھول گئے، اور اس طرح تین دن گزر گئے، تین دن کے بعد جب انہیں اس معاملہ اور معاہدہ کا خیال آیا تو وہ فورا آئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اسی جگہ تشریف فرما ہیں ، انہیں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اے نوجوان تم نے تو مجھ پر بڑی مشقت ڈال دی، میں یہاں پر تین روز سے تیرے انتظار میں ہوں ۔ (ابوداؤد: ۴۹۹۶)

یہ چند مثالیں ہیں ورنہ آپ کی زندگی میں عہد وپیمان کی پاسداری کی ان گنت مثالیں اور واقعات موجود ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ آپ ﷺ وعدہ اور معاہدوں کا بڑا خیال رکھتے تھے اور کبھی بھی عہد شکنی اور وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے ؛ کیونکہ وعدہ خلافی اور عہد شکنی جہاں اخلاقی نقص ہے وہیں اللہ کے نزدیک ایک جرم عظیم ہے، آپ ﷺ کا ارشادہے:

ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة يعرف به (بخاری: ۴۴۷)

’’قیامت کے دن ہر غدار کے لئے ایک جھنڈا نصب ہوگا جو اس کی بے وفائی کا نشان ہوگا‘‘

نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

أربع خلال من کن فيه کان منافقا خالصا من إذا حدث کذب وإذا وعد أخلف وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر ومن کانت فيه خصلة منهن کانت فيه خصلة من النفاق حتی يدعها(بخاری : ۴۳۹)

’’جس میں مندرجہ ذیل چار عادتیں ہوگی وہ پکا منافق ہوگا:  جب گفتگو کرے تو جھوٹ کہے جب وعدہ کرے تو پیمان شکنی کرے جب کوئی معاہدہ کرے تو معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غداری کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکنے لگے اور جب کسی میں مندرجہ بالا خصلتوں میں سے کوئی بھی خصلت ہوگی تو اس میں ایک نشانی منافقت کی ہے تاوقتیکہ وہ اس عادت کو ترک نہ کر دے‘‘

الحاصل آپ ﷺ نے زبان وعمل سے عہد وپیمان کی پاسداری کی تعلیم دی ہے، اور عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے روکا ہے، تاکہ انسانیت اس کے دنیوی واخروی مضر اثرات سے محفوظ رہ سکے۔

تبصرے بند ہیں۔