حضور اکرم کے حسن اخلاق سے اسلام پھیلا ہے

محمد رضا ایلیاؔ

حضرت محمد مصطفی( صلعم) نے الٰہی پیغام اور وحی کے ذریعہ سے علم و عمل اور آگہی سے بے خبر عوام الناس کواسلامی اصول وضوابط سے روشناس کرایا جس سے آپ امتی نا شناسا تھے۔ پیارے نبی ؐ نے اپنے کر دار سے حسن اخلاق،نرم لہجے میں پیغام حق اس طرح دیا جو مخالف تھے وہ بھی ہمنوا ہو گئے۔ جب بھی آپ کے دہن اقدس کوئی بھی جملہ ادا ہو تا تھا وہ نہایت پر سکون اور اطمینان بخش انداز میں ہو تا، کوئی بھی جب آپ سے ملاقات کی غرض آپ کے پاس آیا کر تا تھا تو آپ ہمیشہ مسکرا کر اس سے کلام کر تے تھے۔ اسلام کی تشہیر میں سب بڑا کردار اخلاق کا ہے۔

تاریخ اسلام میں یہ بات بڑے سنہرے الفاظ میں درج ہے کہ آپ کے دشمن بھی آپ کو صادق الامین کہتے تھے۔ حضور پاکؐ نے پہلے اپنے کردار اور عمل کے ذریعہ اسلام کو پروان چڑھا ہے۔ اما نتیں لیں تو اسے اسی حالت میں واپس کیا، کسی کی مدد کی تو اس سے یہ دریافت نہیں کیا کہ تمہار ا مذہب کیا ہے، جو ضرورت منداور حاجت مند آپ کے پاس دامن امید پھیلا کر تشریف لایا فوراً اس کے مطالبات کو پورا کیا۔ ایک مر تبہ حضور پاک صلعم کہیں تشریف لے جا رہے تھے راستہ میں ایک بچہ دیکھائی دیا آپ حضور پاکؐ نے اس بچے سے سلام کیا۔ اسی راستے پر آگے چلے ہی تھے کہ ایک بزرگ دکھائی دیا جو عمر آپ سے بڑا تھا آپ نے اس سے بھی سلام کیا۔ صحابی بڑے حیران ہوئے اصحاب نے پو چھا یا رسول اللہؐ آپ نے بچے اورسلام کیا وہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر بزرگ سے سلام کیا اس کی وجہ کیا ہے۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا میں بچے سے اس لیے سلام کیا کہ اس نے مجھ سے کم گناہ کیا ہے اور بزرگ سے سلام اس لیے کیا کہ اس نے مجھ سے زیا دہ نیکیاں کی ہیں۔

اس واقعہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ جہاں کوئی بھی نظر آئے اس سے حضورؐ پاک کے نظریہ کو اپناتے ہوئے بچے سے اس نظریہ سے سلام کریں کہ اس نے ہم سے کم گناہ کیا ہے اور بزرگوں کو اس لیے سلام کریں کہ وہ ہم سے زیا دہ نیکیاں کر چکاہے۔ مگر افسوس اس دور میں لوگ رتبہ اور منزلت کو بنیاد بنا کراپنے سے کمترکو سلام کرنا عیب سمجھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام (صلعم) نے جو پیغام دیا وہ سارے سارے انسان اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تھا۔ اس صورت حال میں اسلام کا پیغام دیا جب آپ پر پتھرما را جا تا تھا کوڑا کرکٹ آپ کے اوپر پھینکاجاتاتھا آپ جا دو گر کہا جا تا تھا مگر ایسی سنگین صورت حال میں ہمیشہ اسلام کو بے داغ رکھا اور دنیا کو پیغام دیا کہ دیکھو اسلام کو داغدارنہ ہونے دیناچاہئے تم کو کسی بھی مشکل ترین منزل سے گزرنا پڑے کیونکہ اسلام اللہ کا سب سے پسندید ہ دین ہے۔

تاریخ اسلام میں حضرت ابوطالب علیہ السلام ایک عظیم ترین ایسی شخصیت گزری ہے جو اسلام کے آنے سے قبل اسلام کے بانی حضرت محمد مصطفیؐکی حفاظت پاسبانی کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے لی تھی۔ نبی کریم ؐ کو اپنے بیٹے سے زیا دہ چاہا۔ ’’بیٹوں سے بڑھ کی ہے محمدپرورش، تھے مصطفیؐ کے ایسا چچا کچھ نہ پو چھئے ‘‘جب تک جناب ابو طالب ؑ با حیات تھے کسی دشمن یا منا فق کی اتنی نہیں ہوئی کہ کبھی نبی کریمؐ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لے۔ تاریخ اسلام متعدد کتابوں نے اس بات کو بڑے نمایاں طورلکھا ہے کہ خودحضور پاک (صلعم)نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جب تک حضرت ابوطالب باحیات رہے مجھے کفار قریش اور منافقین نے کسی طرح کی تکلیف نہیں دی۔ جناب شیخ صدوق ؒ اپنے کتاب ک’امالی ‘ میں لکھا ہے کہ جناب ابوطالب ؑ کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے جنہوں نے اپنا ایمان پوشیدہ رکھ کر اللہ کے مشن کو عوام تک پہنچایا اور اس کا اجرا اللہ نے انہیں دیا۔ آج کے اس پر آشوب دور میں ہمیں کسی سے ساتھ نیکی، بھلائی کر تے وقت یہ بالکل نہیں دیکھنا چاہئے کہ کون ہے ؟ کس قبیلہ سے ہے ؟ اس کا مقام ورتبہ کیا ہے؟ بلکہ اپنے نبیؐ کے بتائے اصول کو اپنا کر اس کی مدد فوراً کرنا چاہئے اور یہ مدد چاہئے جس شکل میں ہو۔

تبصرے بند ہیں۔