سیدالشہداء حضرت حمزہؓ کی شجاعت و شہادت

ندیم احمد انصاری

        سیدنا حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر تھے۔ ان کی کنیت ابو عمارہ تھی، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ ابتدا ہی میں اسلام قبول کیا، بدر میں شریک رہے اور اُحد میں جامِ شہادت نوش کیا۔ (سیرت سید البشر:171)

بارگاہِ رسالتؐ سے اعزاز

        یوں تو تاریخ ِاسلام میں ہزاروں شہداء کا تذکرہ موجود ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنی قربانی اور بہادری میں اپنی مثال آپ ہے، مگر دربارِ سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جس ذاتِ عالی کو ان تمام شہیدوں کا سردار ہونے کا اعزاز عطا کیا گیا، وہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی ذاتِ با برکات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’شہیدوں کے سردار ،اللہ کے ہاں قیامت میں سیدنا حضرت حمزہؓ ہوں گے‘‘۔ (الجامع الصغیر:4846)

قبولِ اسلام

        سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نہایت بہادر تھے۔ ایک دن ابو جہل ’صفا‘ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ میں گستاخی کی اور اذیت پہنچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، تو وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں حضرت حمزہ تیر کمان لگائے ہوئے شکار سے واپس آئے، یہ قریش کے سب سے بہادر اور حوصلہ مند جوان سمجھے جاتے تھے۔ ان کو عبد اللہ بن جدعان کی باندی نے سارا ماجرا بتا یا، وہ غصّے میں اسی وقت مسجدِ حرام میں داخل ہوئے اور دیکھا کہ ابو جہل اپنے آدمیوں کے حلقے میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ اس کے قریب گئے اور بالکل سر پر کھڑے ہو کر یہی کمان اس کے سر پر دے ماری اور اسے سخت زخمی کر دیا اور کہا’تمھاری یہ جرأت کہ تم میرے بھتیجے کو برا بھلا کہو اور گالی دوحالاں کہ میں ان ہی کے دین پر ہوں اور جو وہ کہتے ہیں ، وہی میں کہتا ہوں ‘۔ ابو جہل خاموش رہا، حضرت حمزہؓ اسلام لے آئے اور قریش کو ان شجاعت، رسوخ اور وجاہت کی وجہ سے اس بات سے سخت ضرب پہنچی۔ (نبیِ رحمت:169-170بتغیر)

شہادت کا مختصر واقعہ

        حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے شیرانہ حملے سے کفار سخت پریشان تھے، جس پر تلوار اٹھاتے، اسی کی لاش زمین پر نظر آتی۔ وحشی بن حرب جو جبیر بن مطعم کا حبشی غلام تھا، جنگِ بدر میں جبیر کا چچا طعیمہ بن عدی حضرت حمزہ کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا، جبیر کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ جبیر نے وحشی سے یہ کہا کہ اگر میرے چچا کے بدلے میں حمزہ کو قتل کر دے تو تو آزاد ہے۔ جب قریش جنگِ احد کے لیے روانہ ہوئے تو وحشی بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب احد پر فریقین کی صفیں قتال کے لیے مرتب ہو گئیں اور لڑائی شروع ہوئی تو سباع بن عبد العزّی ’ہے کوئی میرا مقابل‘ پکارتا ہوا میدان میں آیا۔ حضرت حمزہؓ اس کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے ’اے سباع! عورتوں کی ختنہ کرنے والی عورت کے بچّے، تو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے‘۔ یہ کہہ کر اس پر تلوار کا ایک وار کیا اور ایک ہی وار میں اس کو فنا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔وحشی حضرت حمزہؓ کی تاک میں ایک پتھر کے نیچے چھپا بیٹھا تھا، جب حضرت حمزہؓ ادھر سے گزرے تو وحشی نے پیچھے سے ناف پر نیزہ مارا، جو پار ہو گیا۔ حضرت حمزہؓ چند قدم چلے مگر لڑ کھڑا کر گر پڑے اور جامِ شہادت نوش فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

        وحشی کہتے ہیں کہ جب مکّہ آیا تو آزاد ہو گیا اور قریش کے ساتھ فقط حضرت حمزہ کے قتل کے ارادے سے آیا تھا۔ حضرت حمزہ کو قتل کرکے لشکر سے علاحدہ جاکر بیٹھ گیا، اس لیے کہ میرا اور کوئی مقصد نہ تھا، صرف آزاد ہونے کی خاطر حضرت حمزہؓ کو قتل کیا۔ فتحِ مکہ کے بعد وفدِ طائف کے ساتھ وحشی بارگاہِ رسالت میں مدینہ منورہ مشرف بہ اسلام ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے، لوگوں نے ان کو دیکھ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ وحشی ہے یعنی آپ کے عمِ محترم کا قاتل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو۔ ایک شخص کا مسلمان ہونا میرے نزدیک ہزار کافروں کے قتل سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔بعد ازاں آپ نے وحشی سے حضرت حمزہؓ کے قتل کا واقعہ دریافت کیا، وحشی نے نہایت خجالت و ندامت کے ساتھ محض تعمیلِ ارشاد کی غرض سے واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا اسلام قبول کیا اور فرمایا کہ اگر ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو، اس لیے کہ تم کو دیکھ کر چچا کا صدمہ تازہ ہو جاتا ہے۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو چوں کہ آپ کو ایذا پہنچانا مقصود نہ تھا، اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اسی لیے پسِ پشت بیٹھتے اور اس کی فکر میں رہتے کہ کوئی کفارہ اداکروں۔ چناں چہ اس کے کفارے میں مسیلمہ کذاب کو اسی نیزے سے مار کر واصلِ جہنم کیا۔۔ جس نے خاتم النبیین صلوات اللہ وسلامہ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔۔اور جس طرح حضرت حمزہ کو ناف پر نیزہ مار کر شہید کیاتھا، اسی طرح مسیلمہ کذاب کو بھی ناف ہی پر نیزہ مار کر قتل کیا۔ اس طرح ایک خیر الناس کے قتل کی ایک شر الناس کے قتل سے مکافات کی۔ (دیکھیے سیرۃ المصطفیٰ: 1/201-202)

تبصرے بند ہیں۔