آئیے اس عید پردنیا کی رغبت ومحبت، سنتوں سے دوری کو ختم کریں

سیدفاروق احمد سید علی

محترم قارئین کرام:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔

امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوںگے۔سب سے پہلے اللہ تعالیٰ آپ تمام کو عید الاضحی کی پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو عیدالاضحی کے حقیقی پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے۔۔۔ مل کر سازشیں کریں گی۔۔ اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے۔۔۔ لذیذ۔۔۔ کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوںگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔‘‘

بتلایا جائے جس معاشرہ کا یہ حال ہو، اور جن مسلمانوں کے اعمال و اخلاق کا یہ منظر نامہ ہو، وہاں اللہ کی مدد آئے گی یا اللہ کا عذاب؟

بہر کیف میں اس حدیث کے پس منظر میں اور ہم پر آرہے حالات کے پیش نظر یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ جب کسی جگہ کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو اور پھر بھی وہ نماز نہ پڑھیں،جب کسی جگہ مسلمان روزہ رکھ سکتے ہیں اور سستی کی وجہ سے روزہ نہ رکھیں۔ زکوۃ نہ نکالیں، حرام کاموں سے بچ سکتے ہوں، قرآن کی تعلیمات کو پڑھنے اور پڑھانے کا رواج عام کرسکتے ہوں ،مسلمان اپنے نبی کی سنت پر عمل کرسکتے ہوں۔ پھر بھی نہ کریں۔ تو اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے خطرناک فیصلے آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جب تم آزادی کے دور میں خوشحالی کے دور میں میرے دین پر عمل کرسکتے تھے پھر بھی تم نے عمل نہیں کیا تو میں ایسے حالات لے آئوںگا کہ تم جب عمل کرنا چاہوگے تو تم عمل نہیں کرسکوگے۔ اندلس(اسپین) میں کیا ہوا یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔مسلمانو ںکی۸۰۰؍ سالہ حکومت چند سالو ںمیں تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی۔جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر خوشحالی کے دور لائے تب ان میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہوگئی وہ عبادتیں کرسکتے تھے، زکوۃ نکال سکتے تھے، حج وقربانی کرسکتے تھے مگر انہوں نے ان تمام چیزوں سے روگردانی کی اور اپنی دنیا میں مست رہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے حالات لائے کہ وہ قرآن پڑھنا چاہتے تھے مگر پڑھ سکے اور نہ ہی پڑھا سکے ،عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئی مگر وہ نہ بچا سکے،وہاں کے مسلمان مجبوروبے کس بے یارومددگار یا تو مارے جاتے یا پھر عیسائی بننے پر مجبو رہوجاتے یا پھرانہو ںنے راہ فرار اختیار کرلی۔اندلس وہ ملک جہاں ۸۰۰سالوں تک اذانیں گونجتی رہیں جہاں کی زمین سجدوں سے گل گلزار ہوتی گئی نمازوں سے آباد تھی مگر

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔۔یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

 کے مصداق کفرستان بن گئی۔

بخارا وسمر قندمیں ایسے حالات آگئے تھے کہ قرآن کو گھر میں نہیں رکھ نہیں سکتیتھے، کلمہ پڑھنے پڑھانے پر پابندی عائد ہوگئی تھی۔بخارا وسمرقند یہ وہ علاقے تھے جہاں درس حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسلام کا بول بالا تھا۔ اس سرزمین سے امام بخاری،ابوللیث سمرقندی،امام مسلم جیسے انسان تھے۔ او روہ یہ علاقہ تھا جہاں صاحب ھدایہ حضرت علامہ برہان الدین مرغینانی نیجس مسجد میں بیٹھ کر ھدایہ کتاب لکھی گئی وہ مسجد میں آج شراب خانہ چلتا ہے۔حضرت کے بارے میں آتا ہے جنہوں نے ھدای? جیسی کتاب لکھی اس کے لئے انہیں مسلسل ۳۱? سال لگے اور ۳۱? سال تک وہ روزانہ ’’روزہ‘‘ رکھتے تھے نہ بیوی سے ملتے او رنہ ہی بچوں سے ملا کرتے تھے۔ ان کے گھر سے کھانا’’ڈبہ‘‘آیا کرتا تھا وہ ڈبہ کو غریبوں اور فقراء میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ اور بڑے بڑے علماء ،اطباء ، وحکماء  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا کئے۔ ایسے علمائے کرام نے اپنی جان ومال کھپا کر اسلام اور دین کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ان کے بعد آنے والی نسلوں نے ان کی اس قربانیو ںکی پرواہ نہ کی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضور اکرمﷺ کی بتائی ہوئی راہوں پر عمل نہیں کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے حالات لے کر ا?ئے کہ عیسائیوں نے مسجدوں کو تالے لگا دیئے۔ اگر کوئی نماز پڑھنے کی جرا?ت کرتا تو اس کی جسم کی کھال چمٹوں سے پکڑ کر ادھیڑ دی جاتی اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا،بچوں کے سامنے مائوں ،بیٹیو ںکو زندہ جلا دیا گیا۔

برما کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح وہاں پر مسلمانو ںکے ساتھ سلوک روا کیا جارہا ہے۔جہاں کی مسجدیں مسمار، مدرسے ختم،داڑھیوں کے بال کو نوچ نوچ کر کھینچ کھینچ کر نکالا جاتا ہے،جہاں علمائ￿  کو کھڑا کرکے مارا جاتا ہے۔جہاں ایک ایک مسلم خاتون کے ساتھ ۰۲۔۰۲ اور اس سے زائد لوگ بدکاریاں کرتے ہیںاور کھلے عام کرتے ہیں جہاں مسلمان عورتوں کو زندہ جلادیا جاتا ہے بچوںکو ذبح کردیتے ہیں۔ اتنے برے حالات برما کے ہونے کے بعد ساری دنیا کے مسلمان دیکھ رہے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ا?پ اس غلط فہمی میں نہ رہے۔۔۔اللہ نہ کرے۔۔اللہ نہ کرے۔۔۔خدانخواستہ ہم پر اس طرح کے کچھ حالات آئے تو پوری دنیا کے مسلمان ہمارے لئے ا?واز اٹھائیں گے،پورے مسلمان سرگرم ہوجائیںگے۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ آج کا مسلمان بے حس ہوچکا ہے، یہودیوں وکافروں کے لئے کام کررہا ہے کسی سے کوئی امید نہیں ہے۔ہم ہرگز اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم پر وہ حالات نہیں آسکتے۔ہم پر پچھلی دفعہ گذرے ہوئے یہ وہ حالات ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے۔گذشتہ سالوں میں کشمیر میں بھی ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ نمازوں کی پابندی تھی،نمازی کی کھال نکالی جاتی تھی،سری نگر کی جامع مسجد میں تالے لگا دئے گئے تھے مسجدیں مسمار کردی گئی تھی۔جب کسی جگہ کے مسلمان دین کی نا قدری کرنے لگتے ہیں تو ایسے حالات آسکتے ہیںاور بہت ممکن ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے حالات رونما ہوجائیں۔ترکی اور مصر کا یہ حال ہیاور مسلم حکومت ہونے کے باوجود ایسا قانون نافذ ہے کہ گورنمنٹ سرونٹ داڑھی رکھ نہیں سکتا،ٹوپی پہن نہیں سکتا ،نماز کے اوقات میں نمازوں کی پابندی نہیں کرسکتا۔

میں اس جانب آپ تمام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب ایشیائی ممالک میں بھی اس طرح کے سخت حالات رونما ہوسکتے ہیں (اللہ حفاظت فرمائے، اللہ نہ کرے) مگر ا?پ ذرا غور فرمائیے۔ ا?ج ہمیںہندوستان میں ایک سنت ،سنت ابراہیمی پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کردی گئی ،پچھلے مہینہ یوپی میں لائوڈ اسپیکر پر پابندی کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ کل کو یہ ممکن ہے کہ ہمیں داڑھی کاٹنے پر مجبور کیا جائے، مدرسوں پر پابندی لگادی جائے،برقعہ اور اسکارف پر پابندی لگا دی جائے ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ حج جیسے اہم فریضہ سے بھی ہم کو مختلف اسکیمات اور پروگرام کی عمل ا?وری کے ذریعے روکا جائے۔اللہ ہم سب کی برے انجام سے حفاظت فرمائے۔

ایک بات ہم پچھلے کئی سالوں سے سنتے ا?رہے ہیں کہ تمام مسلمان عموماً اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ دوسرے یہ کہ خاص طور پر وہ نیک صالح مسلمان، جو واقعی اللہ تعالیٰ کے دین کے محافظ ہیں، ان پر مصائب و بلائوں کے پہاڑ کیوں توڑے جارہے ہیں ؟ ان کے حق میں اللہ کی مدد آنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اور ان کے دشمنوں کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟

 اس وقت مسلمان مجموعی اعتبار سے تقریباً بدعملی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں میں ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت کا فقدان ہے، بلکہ مسلمان بھی … الا ماشاء  اللہ … کفار و مشرکین کی طرح موت سے ڈرنے لگے ہیں۔ اس وقت تقریباً مسلمانوں کو دین، مذہب، ایمان، عقیدہ سے زیادہ اپنی، اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی دنیاوی راحت و آرام کی فکر ہے۔ آج کل مسلمان موت، مابعد الموت، قبر، حشر، آخرت، جہنم اور جنت کی فکر و احساس سے بے نیاز ہوچکے ہیں اور انہوں نے کافر اقوام کی طرح اپنی کامیابی و ناکامی کا مدار دنیا اور دنیاوی اسباب و ذرائع کو بنالیا ہے، اس لئے تقریباََ سب ہی اس کے حصول و تحصیل کے لئے دیوانہ وار دوڑ رہے ہیں۔مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد، بھروسہ اور توکل نہیں رہا، اس لئے وہ دنیا اور دنیاوی اسباب و وسائل کو سب کچھ باور کرنے لگے ہیں۔ جب سے مسلمانوں کا اللہ کی ذات سے رشتہ عبدیت کمزور ہوا ہے، انہوں نے عبادات و اعمال کے علاوہ قریب قریب سب ہی کچھ چھوڑ دیا ہے، حتی کہ بارگاہ الٰہی میں رونا، بلبلانا اور دعائیں مانگنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ جس طرح کفر و شرک کے معاشرہ اور بے خدا قوموں میں بدکرداری، بدکاری، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی، حرام کاری ، حرام خوری، جبر ، تشدد، ظلم اور ستم کا دور دورہ ہے، ٹھیک اسی طرح نام نہاد مسلمان بھی ان برائیوں کی دلدل میں سرتاپا غرق ہیں۔بہت کم اللہ کے جو بندے، اس غلاظت کدہ میں نور کی کرن اور امید کی روشنی ثابت ہوسکتے تھے، ان پر اللہ کی زمین تنگ کردی گئی، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان قرآن و سنت، دین و مذہب کی پاسداری اور اسوئہ نبوت کی راہ نمائی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں انہیں تعصب کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ نام نہاد مسلمانوں نے کافر اقوام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اور ان کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے کر دین و مذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین کے خلاف ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا اور ان کو اس قدر مطعون و بدنام کیا کہ کوئی سیدھا سادا مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کو اپناتے ہوئے بھی گھبراتا ہے۔ اسلام دشمن میڈیا، اخبارات، رسائل و جرائد میں اسلام اور مسلمانوں کو اس قدر خطرناک، نقصان دہ، ملک و ملت دشمن اور امن مخالف باور کرایا گیا کہ اب خود مسلمان معاشرہ ان کو اپنانے اور گلے لگانے پر آمادہ نہیں۔ مادیت پسندی نے نام نہاد مسلمان کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب اس کو حلال و حرام کی تمیز تک نہیں رہی، چنانچہ …الا ماشائ￿  اللہ … اب کوئی مسلمان حلال و حرام کی تمیز کرتا ہو، اس لئے مسلم معاشرہ میں بھی، سود، جوا، رشوت، لاٹری، انعامی اسکیموں کا دور دورہ ہے۔ جو لوگ سود خوری کے مرتکب ہوں، اللہ تعالیٰ کا ان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ ظاہر ہے جو مسلمان سود خور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے حالت جنگ میں ہیں، اور جن لوگوں سے اعلانِ جنگ ہو، کیا ان کی مدد کی جائے گی؟جو معاشرہ عموماً چوری ڈکیتی، مار دھاڑ، اغوا برائے تاوان، جوئے، لاٹری، انعامی اسکیموں اور رشوت پر پل رہا ہو، اور جہاں ظلم و تشدد عروج پر ہو، جہاں کسی غریب کی عزت و ناموس اور مال و دولت محفوظ نہ ہو، وہاں اللہ کی رحمت نازل ہوگی یا اللہ کا غضب؟ پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی، اس لئے کہ اللہ کی مدد مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور ظالم چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی مدد سے محروم ہوتا ہے۔ جو مخلوق خدا ، اللہ کے حضور، روتے ہیں، بلبلاتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعائیں کرنا چاہتے ہیں، ان کو بارگاہ الٰہی سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اپنی ذات کے لئے اور اپنی ضرورت کے لئے دعا کرو، میں قبول کروں گا لیکن عام لوگوں کے حق میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

جس کا ترجمہ : ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ  نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن، مسلمانوں کی جماعت کے لئے دعا کرے گا، مگر قبول نہیں کی جائے گی، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، تو اپنی ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دعا کر، میں قبول کروں گا، لیکن عام لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا، اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں ان سے ناراض ہوں۔‘‘ (کتاب الرقائق ص:۱۵۵،۳۸۴)

لیکن اللہ تعالیٰ(القلم:۴۵) .ارشاد فرماتے ہیں.. اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں مگر میری تدبیر غالب ہے، اسی طرح:سورہ  (ھود:۱۲۲)… تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں… مرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ کون فائدہ میں تھا اور کون نقصان میں؟؟

بہر کیف وہ تو مرنے کے بعد ہی سمجھ میں آئے گا کہ خسارہ میں تھا اورکون فائدہ میں رہا۔ مگر ہمیں اپنے آپ کی دین اسلام کی اور ایمان کی حفاظت کرنا اشد ضروری ہے اس کے لئے حکومت اوراسلام مخالف پالیسیوں کے علمبردار لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی۔بزدلی وکاہلی کو چھوڑ نڈر ہو کر بے باکی سے حکمت کے ساتھ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمارے ایمان پر یہودی چالوں اور کفار کی سازشوں کے تحت ڈاکے ڈالیں ہمیں متحد ہونا ہوگااور مکمل طور پر اللہ کے احکام کی پابندی اور رسول ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا شروع ہوگا۔پھر وہ دن دور نہیں جب غیب سے اللہ آپ کی مدد فرمائیں۔

چلئے پھر ملیں گے انشاء اللہ۔۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔دعائوں کی خصوصی درخواست۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔