آپ نے ابھی تک روہنگیا اور فلسطینی مسلمانوں کیلئے کیا کیا؟

ذاکر حسین

مکرمی

ہمارا ماننا ہیکہ ہندوستان سمیت دنیا کے تمام مسلمانوںکو خود سے سوال کرنا چاہئے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روہنگیا اور فلسطینی مسلمانوں پر جاری مظالم کو روکنے کیلئے ہم نے کیا کیا؟ اس سوال کے جواب تلاش کرنے بعد بیشتر مسلمانوں کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ کیونکہ یہ کڑوای اور شرمناک حقیقت ہیکہ ہم سب نے عملی طور پرنہ تو فلسطین اور نہ ہی میانمار (برما) کیلئے مسلمانو کیلئے کچھ کیاکیاہے۔ جس قوم کو اپنے نفس پر اتناکنٹرو ل نہ ہوکہ وہ قوم کی خاطر کو کا کولا کی چسکی لینے سے خود کو نہیں روک پاتی ہے تو اس قوم کی حالت کیا ہوگی ؟دنیا کے دیگر ممالک اور خطے کی طرح میانمار(برما) ور فلسطین میں گزشتہ ایک دہائی سے غیر قومیں بڑی درندگی سے مسلمانوں کی عزت، عصمت اور جان ومال کا سودا کر رہی ہیں لیکن بے حس اور مردہ قوم مسلمانوں کو اپنے بھائیوں پر ہورہے ظلم کے تئیں نہ تو غصہ آتا ہے اور نہ ہی قوم کے افراد ان کیلئے کچھ عمل بھی کرتے ہیں؟

واضح ہوکہ میانمار کے راخین علاقے میں 2012 میںہونے والے پُر تشدد واقعات میں ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تھااور لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا آشیانے کو نم آنکھوں سے جدا ہو کر راحتی کیمپوں میں پناہ گزیں ہونا پڑا تھا۔میانمار میں بودھسٹ طبقے کے لوگ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلا دیشی بتاتے ہوئے ان کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی مذموم حرکت کرتے رہتے ہیں۔میانمار حکومت کی عدم توجہی کہئے یا پھر حکومت کا مسلمانوں کے تئیں سرد برتائو کہ روہنگیا مسلمانوں کے پاس ابھی تک میانمار کی شہریت کا کوئی دستا ویز نہیں ہے۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر میانمار کا تخریب پسند طبقہ روہنگیا مسلمانوںکے خلاف تشدد کی راہ ہموار کرتا ہے۔

تشویشناک بات یہ ہیکہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو ایک طویل عرصہ سے تشددکا سامنا ہے۔ لیکن میڈیا اور حقو ق علمبردارکی تنظیموں کی خاموشی نے عالمی سطح پر روہنگیا مسلمانو ں کی دردناک داستان گردش نہیں کر سکی۔ معاملہ اس وقت منظرِعام پر آیا جب روہنگیا مسلمانوں پر شدت سے عرصئہ حیات تنگ کیا جانے لگااور روہنگیا مسلمانوںپر ہورہے ناقابلِ برداشت ظلم کی وجہ سے جب ساری انسانیت چٰیخ پڑی۔ حیرت وافسو س کی بات یہ ہیکہ میانمار کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوکی بھی روہنگیا مسلمانوں کے تئیں مذمو م اور قابلِ نفرت رویے کی مرتکب ہو رہی ہیں؟ آنگ سان سوکی کے ا س رویے کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

واضح ہوکہ فی الوقت میانمار میں آنگ سان سوکی اس حیثیت میں ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں انہیںزیادہ دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔خیال رہے کہ آئینِ میانمار کے مطابق آگ سان سوکی ملک کی صدرتو نہیں ہیں لیکن اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ برما حکومت کی سربراہ ہیں۔ وہیں دوسری طرف فلسطینی مسلمانوں کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی ہے، لیکن انہیں بھی اپنی قوم کے لوگوں سے کسی طرح کی مدد نہیں مل رہی ہے۔ اگر آپ برما اور فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو آ پ آج اور ابھی سے اسرائیلی اور امریکی مصنوعات بالخصوص کوکا کولا کا بائیکاٹ کریں۔ اب قوم کے پڑھے لکھے افراد سوال پوچھیں گے کہ اس سے کیاہوگا؟

 سوال پوچھنااور اختلاف کرنابری بات نہیں بلکہ یہ تو آپ کے اندر زندگی ہونے کی علامت ہے۔ لیکن قوم کے لوگوں کا المیہ ہیکہ انہیں قوم کے مسائل سے نہیں بلکہ اپنی قابلیت کے مظاہرے کا شوق اس وقت شدت اختیار کر  لیتا ہے جب کوئی قوم کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہے یا پھر کر رہاہوتا ہے۔ ہم نے گزشتہ دنوں مشن بائیکاٹ مہم کا آغاز کیا۔ مہم کو لیکر نا چیز پر کئی طرف سے حملے ہوئے۔ کسی کا کہنا تھا کہ اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ جن لوگوں کا یہ کہنا ہیکہ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے توا ن سے ہمارا سوال ہیکہ ان مصنوعات بالخصوص کوکا کولا کے بائیکاٹ سے اگر مسلمانوںکاکوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے تو ان کے استعمال سے ہی مسلمانو ں کا کون سا فائدہ ہونے والا ہے۔

چلئے دیگر اشیاء کے بجائے ہم صرف کوکا کولا کے بائیکا ٹ کی بات کر رہے ہیں تب بھی کچھ پڑے لکھے مسلمانو ں کو اس پر بھی اعترا ض ہے۔ مسلمانوں بالخصوص ان پڑھے لکھے مسلمانو ں سے موئدبانہ درخواست ہیکہ برائے مہربانی اگر کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم کوئی اگر کچھ کر رہا ہو تو اس کے کاموں میں ٹانگ نہ اڑائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔