خطبۂ جمعہ میں ویڈیو گرافی کے متعلق دیوبند کا فتویٰ

زبیر خان سعیدی العمری

خبر آپ سب تک پہنچ ہی گئی ہوگی، وہی خبر جس میں ایک بار پھر دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاء ہے جو  اپنی محدود عقل سلیم کا استعمال کرتے ہوئے اس بار مسجد میں ہونے والے خطبے کی ویڈیو ریکارڈنگ اور اس کی سوشل میڈیا بالخصوص یو ٹیوب پر اپلوڈنگ کو حرام قرار دے رہا ہے۔

میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ ان سب باتوں کا جواب لکھ کر اپنا وقت ہرگز ضائع نہ کروں لیکن کبھی جو کہا جاتا ہے دراصل اس کے پیچھے محرکات کچھ اور ہی ہوتے ہیں جس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور ہوتے ہیں ، میں اپنی تحریر کے آخری حصے میں اس اصل محرک کی نشاندہی بھی کروں گا پہلے آتے ہیں اچھے کاموں کی تشہیر پر یہ بات مسلم ہے کہ ایک تصویر یا ایک اچھی ویڈیو کلپ کئی ہزار الفاظ کا درجہ رکھتی ہے،

جو پیغام آپ لوگوں کو ایک ہزار الفاظ بول کر دیتے ہیں وہی پیغام صرف ایک تصویر دکھا کے دیا جا سکتا ہے۔

یہ دور اشتہار بازی کا ہے اور یہ بھی کہتا چلوں کہ یہ اشتہار بازی ہمارے معاشرے میں ایک ناسور کی طرح پھیل رہی ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ میں صرف اس کی اچھائیوں سے بحث نہیں کروں گا بلکہ سد باب کا طریقہ بھی اجاگر کرنے کی ایک چھوٹی سی سعی کروں گا، یہ اشتہار بازی دراصل ایک فلاسفی کا کمال ہے، افسوس تو  اس بات کا ہے کہ اس معاشرے کو ‘کنزیومر سوسائٹی’ میں بہت تیزی سے کنورٹ کیا جا رہا ہے جبکہ اسکو بیلنس میں رکھنے کے لئے ایک فیصد کوشش بھی نظر نہیں آ رہی ہے، اس کا یہ مطلب بھی قطعی نہیں کہ اس معاشرے میں سب کے ضمیر مردہ ہو گئے ہیں یا سب ہی نے ان مردہ نفسیات کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں ، ہمارے درمیان کچھ بزرگ اور فاضل اساتذہ ابھی موجود ہیں جنہوں نے اس ملک کو، اس معاشرے کو بنتے دیکھا ہے اور ہمیں شاید کچھ ایسے لوگوں سے بھی ضرور واسطہ پڑتا ہوگا جو اس ‘کنزیومر سوسائٹی’ کے نقصانات پر لیکچرز بھی دیتے ہوں گے اور ملک میں ہونے والی اخلاقی معیارات کی تبدیلیوں پر کڑھتے بھی ہوں گے اور جتنا ان سے ممکن ہے مزاحمت بھی کرتے ہوں گے-

اس تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج اس فتوے نے مجھے اتنا جھنجھوڑ دیا ہے کہ میں اپنا فرض منصبی سمجھ کر کچھ لکھ دینا ہی چاہ رہا ہوں ، تحریر کا ربط اختتام میں ہی سمجھ آئے گا-

آج ہمارے معاشرے کی اجتماعی نفسیات کا کیا حال ہے ہم کسی بھی اچھے کام کی تشہیر یا پروموشن کو فوراً ریاکاری سے جوڑتے نظر آتے ہیں جبکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، دوسری جانب ہمارا دشمن ہے جو  برے کاموں کو بھی اسی اشتہار بازی کے ذریعہ ہماری معاشرتی روایات اور ہمارے اخلاقی معیارات کو تیزی سے خطرناک حد تک تباہ کرنے پر لگا ہوا ہے-ہماری اجتماعی نفسیات اور ہمارا دین یہی کہتا ہے اچھے کاموں کی ریاکاری بہت بڑا گناہ ہے- میں کوئی سند یافتہ مفتی نہیں لیکن عالم دین تو بہر کیف ہوں اور میں نے الصحیح البخاری میں یہ حدیث پڑھی ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے” اور اس بات پر بھی کوئ دو راۓ نہیں کہ حدیث پاک کسی خاص زمانے کے لئے ارشاد نہیں فرمائی گئی ہے-

جب ہمارا دین ہمیں اس بات کی اجازت دے رہا ہے کہ اگر ہماری نیت ریاکاری کی نہیں ہے تو ہمارا کوئ عمل جو ہم لوگوں کو بتا رہے ہیں یا کر کے دکھا رہے ہیں وہ کبھی بھی ریاکاری نہیں ہو سکتا تو آئیے ابھی سے شروعات کرتے ہیں اس معاشرے کو بچانے کی، ہمارے دشمن کے ہتھیاروں کو اسی کے خلاف استعمال کرنے کی، آئیے دشمن جیسے برے کاموں کو اشتہاربازی کے زریعے ہمارے معاشرے کی رگوں میں گھول رہا ہے ہم اسی طرح ہی کسی اور کے نا سہی اپنے ہی اچھے کاموں کی تشہیر کریں گے  لوگوں کو پہلے خود عمل کرکے دکھائیں پھر لوگوں کو دعوت عمل دیں تب یقیناً یہ طریقہ مؤثر ثابت ہوگا-

اور اس کے لئے میرے خیال سے سوشل میڈیا سے زیادہ مؤثر اور سستہ فورم نہیں ہو سکتا- آئیے شروعات کرتے ہیں ، اپنے حصے کا دیا تو روشن کرتے ہیں ، اس فورتھ ورلڈ وار کے دشمنوں کو اسی کے ہتھیاروں میں جواب دینے کے لئے –

اب ذرا بات کروں اس فتوے کی جو موضوع بحث ہے۔

 احباب! دراصل دیوبند کے دارالافتاء کو پریشانی اپلوڈنگ سے نہیں بلکہ اس طریقے اور استعمال زبان سے ہے جو کچھ مساجد میں دوران خطبہ جمعہ استعمال ہوتی ہے یعنی مقامی زبان اردو اور ہندی، دراصل یہ دقیانوسی اب بھی خطبے کو عربی زبان کے علاوہ کسی زبان میں ناجائز ہی سمجھتے ہیں ایسے میں نئی نسل جب اس انداز کے موثر خطبات کو یو ٹیوب کے ذریعے سنے گی تو کہیں نہ کہیں ان دارالافتاء کی دکان داری متاثر ہوتی نظر آئے گی، ویسے بھی نئی نسل ان سب فتووں سے بے زار ہے، یہ ہے وہ اصل محرک جو اس فتوے کی پشت پناہی کر رہا ہے-

آپ سب جان لیں کہ اس وقت چوتھی عالمی جنگ جو سوشل میڈیا نیٹ ورک کی معرفت جاری ہے، ہمیں بہر حال اپنا مثبت رول اسی کے ذریعے پیش کرنا ہے ورنہ ہم اور پچھڑ جائیں گے۔ اللَّهُ رب العزت سے دعاگو ہوں کہ وہ مجھے، آپ کو اور سب کو سچ بولنے اور سچ سننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔