لفظوں کی پنکھڑی اور حفیظ میرٹھی کی تلخ نوائی

شہباز انصاری

کل بازار سے آتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ آج بڑے دنوں بعد حضرت حفیظ میرٹھی مرحوم کے آستانے پر حاضری دوں۔ حفیظ صاحب کا کوئی مزار نہیں ہے۔ تو کیا ہوا، دیار تو ہے۔ تصویر میں جو آپ مکان دیکھ رہے ہیں یہی حفیظ صاحب کا مسکن تھا۔ یہ بوسیدہ سی عمارت اور نیم منہدم اس کی دیواریں ایک بیباک، بے خوف اور خوددار شاعر کی زندگی کے خوبصورت لمحوں کی خاموش گواہ ہیں۔ اپنی قابلیت اور شاعری کی بنیاد پر دنیا کے دلوں پر راج کرنے والا یہ بے تاج بادشاہ مشاعروں کی موٹی موٹی "عطیات” سے ہمیشہ دور رہا اسی لئے وہ تا عمر اسی کرائے کے مکان میں رہتے ہوئے اعلی و ارفع کلام تخلیق کرتے رہے۔ فلک بوس عمارتوں میں رہنے والے زمیں بوس کرداروں کے وہ مالکان جن کی زندگی کا مقصد دولت و جائیداد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے سوا کچھ نہیں، حفیظ اُن پر زبردست وار کرتے ہیں۔

بس  یہی  دوڑ ہے  آج کے  انسانوں کی

تیری دیوار سے اونچی میری دیوار بنے

حفیظ میرٹھی کوئی چاپلوس درباری شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ ایک دلیر اور انقلابی سخن ور ہیں جو ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں چبھتے ہیں۔

کروفر کی زندگی پر موت کو ترجیح دی

مجھ کو درباری قباؤں سے کفن اچھا لگا

  اور نہ ہی وہ اُن ’مشائخ شعراء‘ کی مانند ہیں جو آزمائش کی صعوبتوں میں ملک کو خیرآباد کہ کر پردیس جاکر آرام سے انقلاب لاتے ہیں۔ حفیظ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہنستے مسکراتے ہر مصیبت کا استقبال بھی کرتے ہیں؎

آج کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں

ہم  پر  جو ایمان نہ  لائے چونوا دو  دیواروں  میں

ہر ظالم سے ٹکّر  لی ہے  سچّے  فنکاروں نے  حفیظ

ہم وہ نہیں جو ڈر کر کہ دیں ہم ہیں تابعداروں میں

دب کے رہنا ہمیں منظور نہیں

 ظالموں  جاؤ  اپنا  کام   کرو

حفیظ صاحب کی طبیعت میں جو بےپناہ بے نیازی اور اپنے اِرد گرد کے ماحول سے جو بغاوت سی نظر آتی ہے، اُسکے پیچھے اُن کی فکر و نظر کر فرما ہے۔ وہ ایک سچّے اسلام پسند شاعر تھے۔ سیّد مودودی رحمہ اللہ کی فکرِ اسلامی سے اُنھیں عقیدت تھی، وہ کاروانِ تحریکِ اسلامی کے رہ رو بھی رہے۔ تا عمر اس کارواں اور اس کی فکرِ کے وہ آمین رہے اور برملا اسکا اظہار اپنی شاعری میں کیا۔ اسی وجہ سے وہ صرف ظالم حکمرانوں پر ہی تنقید نہیں کرتے ہیں بلکہ مذہبی حلقوں میں پائی جانے والی کج روی، اور روایتی دینداری پر بھی وہ زوردار قلم اٹھاتے ہیں۔ فرماتے ہیں؎

یہ خلوص ہی کی نعمت ہے شریعتوں کی عصمت

جو یہ  ہو  تو  دین  داری  یہ  نہ  ہو  تو دین بازی

وہ  تباہ  زور بازو  یہ  خرابِ  رسمِ تقویٰ

کہ عجم  نرا  سپاہی   تو  عرب  نرا  نمازِ

تری لاش خوں سے رنگیں تری تیغ خوں سے رنگیں

بایں   واقعاتِ  خونیں  نہ   شہید  تو  نہ  غازی

حفیظ کو سمجھنے کے لیے انکے مکمل حالات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انکی زندگی کا سفینہ بیک وقت کئی مختلف طوفانوں سے نبردآزما رہا۔ ایک طرف ظالم حکمرانوں کی ’کرم فرمائی‘ دوسری طرف گھر کے تنگ حالات۔ انہی کٹھن گھڑیوں میں اکلوتا بیٹا داعی اجل کو لبّیک کہ کر داغِ مفارقت دے گیا، ایک بیوی محترمہ جوانی میں انتقال کر گئیں اور دوسری کو کسی رشتہ دار نے قتل کر دیا۔ ان سب کے باوجود وہ ٹوٹتے نہیں ہیں، کتنے خوبصورت انداز اور اشاروں میں اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں۔

اب بھی یہ حوصلہ ہے کسی کام آ سکوں

میں ٹوٹ تو گیا ہوں بکھرنے نہ دے مجھے

غم بھی ایک احسان ہے اس کا، شکر کر ائے دل شکوہ کیا؟

غم تو  ہماری روحِ رواں ہے ،  ہم نہیں  غم کے  ماروں میں

حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی

میں آج چین سے  سویا ہوں پاؤں پھیلا کر

اُداسیوں  کو حفیظ آپ اپنے گھر رکھیں

کہ انجمن  کو  ضرورت  شگفتگی کی ہے

افّف اس قدر غم و اندوہ اور اِس قدر صبر و ثبات، اس قدر مصائب و آلام اور اس قدر سکون و چین، اس قدر نا خوشگوار حالات اور اس قدر شگفتہ مزاجی۔ بقول نعیم صدیقی صاحب "حفیظ میرٹھی اتھاہ تاریکیوں میں گھر کر بھی یہ نہیں بھولتے خ وہ نور کے سفیر ہیں”  "إنما الصبر عند الصدمة الاولى” کی جیتی جاگتی تصویر تھے حفیظ میرٹھی مرحوم۔

اُنکی کتنی ہی غزلیں ہم جیسے نوجوانوں کو حوصلوں اور اُمنگوں کی قوت سے بھر دیتی ہیں؎

آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں

جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولینگی پھلینگی زنجیریں

جب سب کے لب سل جائینگے ہاتھوں سے قلم چھن جائینگے

باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں

یہ طور بھی ہیں صیادی کے یہ ڈھنگ بھی ہیں جلدی کے

سمٹے سکڑیں گی زنجیریں جب حد سے بڑھینگی زنجیریں

کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھے خفا نہیں ہے بغور  میرا  پیام  شاید  ابھی  جہاں  نے  سنا  نہیں  ہے؎

سفینہء عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہروپیوں کا لشکر

یہاں ہر ایک نا خُدا نما ہے مگر کوئی نا خُدا نہیں ہے

خیال کے دیوتا بھی جھوٹے عمل کے سب سورما بھی جھوٹے

خرد بھی  فریاد رس نہیں ہے  جنوں بھی مشکل کشا نہیں ہے

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش مجھے بھی موقع ملتا کہ حفیظ صاحب کو با حیات دیکھتا، انکے گھر جاتا یا اُنکی محفلوں میں شریک ہوتا، کسی پراسرار ناول سی اُنکی زندگی کا بچشمِ سر مشاہدہ کرتا، اُنکی تازہ تازہ غزلیں انہی کی زبانی سنتا، مسکراتا، داد دیتا پھر وہی غزل اگلے روز جاکر اُنہیں ترنّم سے سناتا وہ مسکراتے اور شاباشی دیتے۔

1 تبصرہ
  1. Usmankhan کہتے ہیں

    عمدہ۔یہ شاید حفیظ صاحب کی زندگی کا وہ گمنام گوشہ ہے جو مخفی رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔