مشہور شاعر افضل منگلوری اور کنال دانش کے اعزاز میں شعری نشست کا انعقاد

معروف ادبی تنظیم پرواز کے زیرِ اہتمام مشہور شاعر افضل منگلوری اور کنال دانش کی دلی آمد پر ان کو استقبالیہ پیش کیا گیا اور ان کے اعزاز میں شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ پرواز کے بانی صدر ڈاکٹر رحمان مصور (اسوسی ایٹ پروفیسر، شعبۂ ہندی، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ افضل منگلوری محض مشاعروں میں ترنم سے پڑھنے والے شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔  آپ کا تعلق علمی اور صوفیانہ گھرانے سے ہے۔ آپ کا کلام کئی شعری اصناف کو محیط ہے۔  بالخصوص فی البدیہہ شعر گوئی میں آپ کو کمال کا درجہ حاصل ہے۔

کنال دانش کا تعلق ناگپور سے ہے۔ لیکن ایک ایسے نوعمر شاعر ہیں کہ آج کے اس فرقہ پرستی کے دور میں جس طرح مذہبی تعصب و تنفر اور اردو زبان کے ساتھ دشمنی کا رویہ فروغ پذیر ہو رہا ہے کنال دانش نئی پیڑھی کے ان نمائندہ شعرا میں ہیں جو اپنی شاعری کے ذریعے ان تمام زہریلے پروپیگنڈوں کا دندان شکن جواب دیتے ہیں۔

ان دونوں مہمانان کے اعزاز میں ایک مختصر اور منتخب شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔  جس کی صدارت ڈاکٹر بسمل عارفی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر معین شاداب نے انجام دیے۔  نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:

تری وفا کی جو تصویر میرے ذہن میں ہے

غزل کے اس میں سبھی رنگ بھرنے والا ہوں

 افضل منگلوری

اس کو جاتے ہوئے میں دیکھ رہا ہوں لیکن

میری آنکھوں سے یہ منظر نہیں جانے والا

 کنال دانش

زمانہ مجھ کو بھلا دے تو کوئی بات نہیں

مگر تمھارا بھلانا غضب نہیں ہے کیا

بسمل عارفی

سونا چاندی بے تکلف لٹ رہا ہے

کوئلے کی پہرے داری ہو رہی ہے

 معین شاداب

ناؤ کاغذ کی چل بھی سکتی ہے

اب کے بچوں میں وہ ہنر ہی نہیں

 رحمان مصور

میں اپنے پیکرِ خاکی سے مطمئن ہی نہیں

مرے خدا مجھے بارِ دگر بنایا جائے

خالد مبشر

ایسی آزادی سے بہتر تھی غلامی رضواں

رہنما کوئی نہیں رختِ سفر کوئی نہیں

خان رضوان

سینچا تو باغ کو مگر آئی نہیں بہار

تھے فیصلے نصیب کے ٹل بھی نہیں سکے

معین قریشی

کوئی اندھیرے اتھاہ دل میں اتر رہا ہے

اسی کنویں سے کسی کو زندہ نکالنا ہے

 سندیپ شجر

اس کے علاوہ شعری محفل میں مشہور یوٹیوب چینل ’’قافیہ‘‘ کے روحِ رواں یاسین انور، جان محمد اور ڈاکٹر حیدر علی بھی شریک تھے۔

تبصرے بند ہیں۔