اردو زبان اور اِملا کی معیار سازی کی پہل کون کرے گا؟(1)

صفدر امام قادری

اردو زبان پر مختلف لسانی تہذیبوں کے اثرات رہے اور ایک جدید عالمی زبان کے طور پر اس کا ارتقا ہوا۔ جس کے سبب زبان، قواعد، لہجہ اور املا کے فطری طور پر اختلافات بھی یہاں درآتے گئے۔ دکنی متون سے لے کر انیسویں صدی کے اواخر تک کے مخطوطات ایک نظر دیکھ لیے جائیں تو آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں کہ جس طرح سجے دھجے کمپوٹر کے لکھے الفاظ اور حروف ہمارے ہاتھ میں آج موجود ہیں، یہ شروع سے اسی طرح نظر نہیں آتے بلکہ ہماری زبان کے بزرگوں نے صدیوں اس پر مشقت کی اور اسے طرح طرح کی اصلاحوں سے گزارتے ہوئے اس ترقی یافتگی تک ہمیں پہنچا دیا ہے۔ زبان کی اصلاح اور تبدیلیوں کا عمل کوئی جامد تصور نہیں اور نہ ایسا ممکن ہے کہ ایک بار کچھ ہو گیا تو آگے اضافے کی گنجایشیں نہیں ہوں گی۔ اس لیے زبان کے ماہرین اور علما کے درمیان اس موضوع سے بحث و مباحثہ کے ادوار قائم رہتے ہیں۔

ایک دور تھا کہ دلی اور لکھنؤ کے علما اپنی زبان کو مستند مانتے تھے اور دوسروں کو بدو سمجھتے تھے۔ دلی والے لکھنؤ والوں کو کچھ نہ سمجھتے تھے۔ بعد میں لکھنؤ والے اپنی زبان کی بعض باتیں اہلِ دلی سے علاحدہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دکنی مطالعے کا سلسلہ عام ہوا تو زبان کا وہ ایک الگ سرمایہ تھا اور انداز و اسلوب میں بھی فرق تھا۔ تذکیر و تانیث چند لفظوں کے طریقِ استعمال میں فرق، تلفظ میں اختلافات اور بالآخر املا میں بھی جگہ جگہ تصرفات کے معاملات اتنے سامنے آئے کہ اپنے آپ میں یہ ثابت ہونے لگا کہ اردو کے کئی طور اور ذائقے موجود ہیں۔ سب نے انگریزی شاعر ولیم بلیک کی نظم کے اندھوں کی طرح ہاتھی کو جس طرف سے دیکھا، ویسا ہی سمجھا۔ یعنی ان کی نظر میں دکن کا طریقِ استعمال مستند ہے۔ کسی کو دلی سکۂ رائج الوقت لگی اور کچھ اس پر اصرار کرتے رہے کہ نوابینِ اودھ کے حلقے کی زبان ہی مستند مانی جانی چاہیے۔

اصلاحِ زبان کے نام پر اردو میں باضابطہ طور پر دلی اور لکھنؤ دونوں جگہوں پر تحریکیں چل چکی ہیں۔ مظہر جان جاناں کو اس بات کی فکر دامن گیر تھی کہ ولی اور دکن کے ادبی اثرات کہیں اردو کا لازمی حصہ نہ بن جائیں اس لیے اصلاح کی کوششیں تو ہوئیں مگر یہیں ادبی سیاست کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ لکھنؤ میں ناسخ اور ان کے شاگردوں نے مل کر جو اصلاح کا علم اٹھایا تو یہاں بھی دہلویت سے مقابلہ کرنا حقیقی مقصد تھا۔ دونوں اصلاحوں میں زبان کے نام پر اجارہ داریوں کے قائم ہونے اور ختم ہونے کے معاملات بھی زیرِ غور تھے۔ اسی لیے ان کے نتائج دور رس ثابت نہ ہوئے اور نہ ہی اس زمانے کے بڑے لکھنے والے ان تماشوں کا حصہ بھی نہیں بنے۔ کہنا چاہیے کہ لوگوں نے خود کو اس سے ذرا الگ تھلگ رکھنے میں ہی عافیت محسوس کی۔

دکن، دلی اور لکھنؤ کے دبستان بادشاہت اور حکومتوں کے دم سے مستحکم ہوئے تھے۔ قلعۂ معلی سے لے کر اردوئے معلی تک کی اصطلاحیں ملوکیت سے جاگیرداری تک کے زمانے میں سکہ بند ہوئیں مگر دنیا میں جمہوری نظامِ اقدار کی آمد کے ساتھ ساتھ ادب میں اجارہ داریاں ختم ہوئیں اور دبستانی تفوق بھی دیکھتے دیکھتے آخری سانسیں لینے لگے۔ سرسید اور ان کے دوستوں نے ادارہ سازی کی جتنی کوششیں کیں، ان میں زبان اور املا کے مسائل بھی ہر جگہ زیرِ بحث رہے۔ فورٹ ولیم کالج اور دلی کالج میں بھی ان موضوعات پر گفتگو شروع ہوئی تھی مگر انجمن ترقی اردو نے عبدالستار صدیقی کی قیادت میں نئے ذہن کے ساتھ انقلابی اور جدت طرازی کے ساتھ اردو کی اصلاح بالخصوص املا کے معاملات پر غور و فکر کا سلسلہ قائم کیا۔ اس سے پہلے کی کوششیں انفرادی تھیں مگر یہاں پہلی بارزیادہ لوگوں کو جمع کرکے غور و فکر کا انداز اختیار کیا گیا۔ عبدالستار صدیقی کی اس میں خصوصی دلچسپی تھی اس لیے انھوں نے پہلے کی تمام کوششوں کو بہ غور اپنے مطالعے کا حصہ بنایا اور املا کے بارے میں ایسی سفارشیں کیں جنھیں پڑھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک سائنسی نقطۂ نظر سے چیزوں کو دیکھنے کی یہاں کوشش ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اس اجتماعی کام کی کامیابی میں عبدالستار صدیقی کا خاص ہاتھ ہے اور سمجھنے والے یہ بات سمجھتے ہیں کہ ان سفارشات کی پشت پر ان کے انفرادی غور و فکر کی خاص مہر لگی ہوئی ہے۔

افسوس کہ انجمن کی یہ سفارشات عام نہ ہوئیں اور ملک کی تقسیم کے بعد کے احوال کچھ اتنے دگرگوں تھے کہ ایسی اجتماعی کوششیں یا تجدید کاری کی مہم شاید اس زمانے میں ہندستان میں عام نہیں ہوسکتی تھیں۔ بعد میں رشید حسن خاں نے چھٹی دہائی میں اس بابت کوششیں شروع کیں۔ رشید حسن خاں محقق تھے، اس وجہ سے انھوں نے قواعد اور املا کے مسائل کو اردو کی ادبی تاریخ اور مجموعی سرمایے کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ عبدالستار صدیقی اس وقت تک زندہ تھے، ان کی سفارشات اور دوسرے امور پر رشید حسن خاں نے خطوط کے ذریعہ سلسلے وار تبادلۂ خیالات کیا۔ ’’اردو املا‘‘ میں یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ خط و کتابت برسوں چلی اور رشید حسن خاں نے اپنی ضخیم کتاب اردو املا ایک دہائی سے زیادہ کی غور و فکر کے بعد ۱۹۷۴ء میں شایع کی۔ رشید حسن خاں نے اس بات کا التزام رکھا کہ کسی لفظ کے رائج املا میں اگر تبدیلی کی سفارش کی جارہی ہے تو اس کے اسباب بیان کیے جائیں۔ توضیحات ذاتی نہیں ہیں بلکہ ان کی علمی بنیادیں استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اپنے علمی رویے میں وہ کتاب چار دہائیوں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک مثالی کتاب کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔

اس زمانے میں ترقی اردو بیورو نے اردو املا کے لیے عبدالستار صدیقی کی تجاویز پر غور و فکر کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی تھی۔ گوپی چند نارنگ نے ان سفارشات کو بنیاد رکھ کے ایک مختصر سی کتاب انھی دنوں ’’املانامہ‘‘ کے نام سے ترقی اردو بیورو سے شایع کرائی۔ ’’ اردو املا‘‘ اور اور ’’املانامہ‘‘ میں سنہ اشاعت مئی ۱۹۷۴ء درج ہے۔ گوپی چند نارنگ کی مرتبہ کتاب میں ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب کا پیش لفظ ہے جس میں یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ رشید حسن خاں کی کتاب تیار ہوکر اشاعت کے مرحلے میں ہے۔ مختلف ذرایع سے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے کہ رشید حسن خاں کی کتاب کے بعد ہی نارنگ صاحب کی مرتبہ کتاب تیار ہوئی۔ دونوں کی سفارشات کا موازنہ کیجیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نارنگ صاحب کی کتاب زور زبردستی یا اندازِ ہوس میں تیار ہوئی۔ رشید حسن خاں کی آدھی بات انھوں نے مان لی اور آدھی بات یوں ہی بے دلیل رد کر دی۔ کتاب جلدی میں سامنے آئی، اس وجہ سے اس کا متن اگر دیکھا جائے تو بہ مشکل آج کے کمپیوٹر کی کتابت میں تبدیل کیا جائے تو پچاس صفحے سے زیادہ میں نہیں آئے گا۔ صفحات کے نمبر شمار یوں تو ۸۷ ہیں مگر خالی جگہیں بھری پڑی ہیں اور کتاب کے اندرون سرورق سے ہی نمبر شمار متعین کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اسے کتابچہ نہ سمجھ لیا جائے۔ بہ عجلت ایک ایسے موضوع پر کتاب پیش کردی جائے جس سے اس کے لکھنے والے کا کوئی علمی یارانہ رہا ہی نہ ہو۔ کمال تو یہ ہے کہ جب ۱۹۹۰ء میں ’’املا نامہ‘‘کی دوسری اشاعت نارنگ صاحب نے کی، اس میں کتابت کا سائز اور بڑھا دیا گیا اور لوگوں کے تبصرے وغیرہ شامل کرنے کے باوجود اس کی ضخامت ۱۲۸؍صفحات سے زیادہ نہ ہوسکی۔ ’’املانامہ‘‘ کی دونوں اشاعتوں کو سامنے رکھا جائے تو اس کے بچکانہ پن کو سمجھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک اناڑی آدمی عجلت میں کوئی کام کردیتا ہے اور بعد میں اس کام کا رخ اسے بدلنا پڑتا ہے۔ آدھی سے زیادہ سفارشوں میں صاف صاف یو ٹرن نظر آتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ’’املانامہ‘‘ کی پہلی اشاعت میں کہیں دلیلیں نہیں ہیں اور نہ ہی نئی اشاعت میں اس بات کی ضرورت سمجھی گئی۔ جب کہ اس موضوع پر رشید حسن خاں نے ’’اردو املا‘‘ لکھنے کے بعد کئی اور کتابیں لکھیں۔ ’’زبان اور قواعد‘‘، ’’اردو کیسے لکھیں ‘‘، ’’عبارت کیسے لکھیں ‘‘، ’’انشا اور تلفظ‘‘؛ ان کے علاوہ اپنی مرتبہ قاموسی کتابیں مثلاً ’’فسانۂ عجائب‘‘، ’’باغ و بہار‘‘، ’’سحر البیان‘‘، ’’گلزار نسیم‘‘، ’’مثنویاتِ شوق‘‘، ’’مصطلحات ٹھگی‘‘ وغیرہ میں زبان، قواعد اور املا کے دقیق مسائل پر انھوں نے لگاتار بحث کی اور بدلتے ہوئے تناظر میں ایک ترقی یافتہ نقطۂ نظر وضع کرنے کی کوشش کی۔ رشید حسن خاں کی تجاویز پر مختلف حلقے میں سنجیدگی سے غور و فکر کا انداز بھی سامنے آیا مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ رشید حسن خاں اس سلسلے سے کوئی حرفِ آخر نہیں ہوسکتے اور اردو زبان اور املا کے مسئلوں پر ان کے بعد اس سے بھی زیادہ غور و فکر کی ضرورت پڑے گی۔

[اس سے آگے کی گفتگو اور بحث مثالوں کے ساتھ اگلی صحبت میں ]

1 تبصرہ
  1. اقبال بوکڑا کہتے ہیں

    اگلی گفتگو ءا انتظار رہے گا۔

تبصرے بند ہیں۔