انجمن محبان اردو ہند قطر کا شاندار مشاعرہ

رپورٹ: نیاز احمد اعظمی

قطر کی معروف و مشہور ادبی تنظیم انجمن محبان اردو ہند قطر کی ایک باوقار اور خوبصورت نشست بتاریخ17 اگست 2017 کوگرانڈ ریگل ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں مشہور شاعر وادیب جناب آصف شفیع کے مجموعہ کلام ’’ترے ہمراہ چلنا ہے‘‘ کا شاندار اجراء عمل میں آیا۔

پروگرام کی ابتداء کرتے ہوئے قطر کی ادبی شناخت اور ادبی دنیا کا ایک روشن باب، معتبر ادیب وشاعر، مرتب ومحقق ، انجمن کے جنرل سکریٹری، دستاویزی اور تحقیقی سالانہ مجلہ ’’دستاویز‘‘ کے مدیر اعلی جناب عزیز نبیل نے سب سے پہلے قطر کے باذوق سامعین اور تشنگان ادب کا استقبال کیا۔ اس تقریب کے انعقاد کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی اور اسٹیج کومعروف ادبی علمی اور سماجی شخصیات سے سجایا۔

تقریب کی صدارت قطر کی مقبول ومعروف سماجی اور ادبی شخصیت ، انجمن کے چیرمین جناب حسن عبدالکریم چوگلے نے فرمائی اور مہمان خصوصی کی نشست کو اردو ادب کے خاموش اور بے لوث خادم اور انجمن کے صدر جناب خالد داد نے وقار بخشا جبکہ مہمان اعزاری کی نشست کومشہور شاعر وادیب جناب آصف شفیع نے منور کیا۔ تقریب کی ابتداء کلام ربانی سے ہوئی جس کی سعادت جناب نیاز احمد اعظمی کو نصیب ہوئی۔

اس کے بعد قطر کی معروف ومشہور شخصیت، اردو زبان وادب اور تہذیب وثقافت کی ترویج وترقی کو اپنا مشن بنانے والے انجمن کے بانی جناب ابراہیم خان کمال نے اپنے استقبالیہ کلمات میں فرمایاکہ بہت سارے احباب اس وقت تعطیل میں ہیں ۔پھر بھی اس کثیر تعدادمیں آپ تمام حضرات اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر تشریف لائے اس کے لئے ہم بے انتہا شکر گزار ہیں ۔ آپ تمام کی محبتوں اور ادب نوازی سے کام یاب ادبی نشستوں کا ایک طول سلسلہ ہے جو اب تک جاری وساری ہے۔ آپ حضرات کی شرکت اور محبت سے ہمیشہ کی طرح یہ نشست بھی کامیاب ہوگی۔

جناب نیاز احمد اعظمی نے مشہور شاعر وادیب اور آج کے صاحب اعزاز جناب آصف شفیع کا مختصر تعارف پیش کیاکہ آپ کا تعلق لاہور سے ہے اور قطر کی ایک کمپنی میں 2011 سے بحیثیت میکانیکل انجینئر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اس سے پہلے آپ کویت اور سعودیہ میں بھی رہ چکے ہیں ۔ آپ کی متعدد تصانیف اور مجموعہ کلام زیور طبع سے آراستہ ہوکر مقبول خاص وعام ہوچکی ہیں ۔ آپ نے ان کی تصانیف کا ذکر کیا۔

اس کے بعد جناب آصف شفیع کے مجموعہ کلام ’’ترے ہمراہ چلنا ہے‘‘ کا شاندار اجراء بدست صدر محفل،انجمن کے عہدیداران ، مہمانان گرامی کے ہاتھوں اور قطر کے باذوق ادبی شخصیات اور سامعین کی موجودگی میں عمل میں آیا۔
بعد ازاں نائب صدر انجمن،شعر و ادب کی دنیا میں اپنے یکتا لہجہ اور الگ رنگ و آہنگ سے پہچانے جانے والے شاعر وادیب اور قطر کے مقبول ترین ناظم مشاعرہ جناب ندیم ماہر نے اپنی گفتگو کا آغازکیا۔ آپ نے ’’آصف شفیع بحیثیت ایک شاعر‘‘ کے موضوع پر ان کا بہت ہی خوبصورت تعارف پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ آصف شفیع بہت ہی کم گو اور خلیق وملنسار شخصیت ہیں ۔ خالص میٹھا پنجابی لہجہ ہے۔آپ کی شاعری حسیات جمالیات کیفیات اور رومانیات کا حسین امتزاج ہے۔ ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ان کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہورہا ہے۔انجمن کے اہداف میں اردو زبان وادب کی ترویج وترقی بھی ہے اور آج کی محفل اور اس کتاب کی رونمائی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

اس کے بعد باقاعدہ مشاعرہ کا آغاز ہوا جس کی نظامت انجمن کے جنرل سکریٹری جناب عزیز نبیل نے کی۔مشاعرہ کا مکمل دورانیہ از ابتدا تا انتہاء بڑے ہی باوقار انداز میں جاری وساری رہا۔ شعراء کرام نے تازہ کلام اور عمدہ اشعار پیش کئے اور باذوق سامعین خوب لطف اندوز ہوئے اور داد وتحسین سے نوازا۔ اخیر میں صدر محفل اور مہمانان گرامی قدر نے اپنے اپنے قیمتی تاثرات سے نوازا۔
مہمان اعزازی اور آج کی صاحب اعزاز شخصیت جناب آصف شفیع نے اپنی گفتگو کا آغازکرتے ہوئے فر مایا کہ میں انجمن کے تمام اراکین اور عہدیداران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں آج کی یہ خوبصورت بزم سجائی۔ میری دعا ہے کہ دوحہ کی یہ ادبی فضا شعر وادب کی خوشبؤوں سے ہمیشہ معطر رہے اور یہاں کی روایات اور رونقیں یونہی قائم ودائم رہے۔

صدر انجمن جناب خالد داد خان نے کہا کہ آپ تمام ہندوستان اور پاکستان کے سبھی حضرات کو آزادی کی مبارک باد ہو۔ اور آصف شفیع صاحب کو ان کی کتاب کی اجراء پر بہت بہت مبارک باد۔ ابھی میں سفر سے واپس آیا ہوں ۔ اس سفر میں مختلف مشاعروں اور سمینار میں میری شرکت رہی۔ پٹنہ، مالیر کوٹلہ اور حیدرآبار میں ادبی تقاریب میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ وہاں اردو و ادب کے تئیں لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور یہ یقین ہوگیا کہ اردو کا مستقبل بہت روشن ہے۔

صدر محفل، انجمن کے سرپرست اعلی اورقطر کی معروف سماجی اور ادبی شخصیت، جناب حسن عبدالکریم چوگلے نے پر اثر گفتگو کی اور فرمایا کہ انجمن کی جانب سے ایک تواتر کے ساتھ اعلی معیاری تخلیقات اور کامیاب سالانہ مشاعروں کا انعقاد ہورہا ہے۔ انجمن محبان اردو ایک ایسی تنظیم اور ادارہ ہے جس کا ہدف اردو کی ترویج وترقی ہے۔ انجمن دستاویز اور ادبی کتابوں کا اجراء کرتی رہتی ہے اور آج جناب آصف شفیع کا مجموعہ کلام کا اجراء ہوا۔ انہیں بہت بہت مبارک باد۔ آپ تمام حضرات کو یوم آزادی کی ڈھیر ساری مبارک باد۔ لیکن سہی معنوں میں ابھی ہماری آزادی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ابھی ہمیں بہت ساری چیزوں سے آزادی حاصل کرنا ہے مثلا مفلسی فرقہ پرستی اور نفرتوں سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ قطر میں بہت ساری اردو تنظیمیں کام کرتی ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کام جب بڑھ جاتا ہے تو اسے تقسیم کرکے کرنے میں کوئی بات نہیں ۔ بلکہ ہم سب کو مل کر زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔

اخیر میں انجمن کے نائب صدر مشہور ادیب وشاعر جناب ندیم ماہر نے تمام مہمانان ، شعراء کرام اور باذو ق حاضرین کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ شعراء کرام کے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں :

آصف شفیع:

یہی سمجھو کہ کسی پیڑ پر پھل آیا ہے
گھر میں پتھر جو ہر ایک سمت سے آنے لگ جائیں
ٹھیک ہے زخم جدائی کا بہت گہرا ہے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دکھانے لگ جائیں

شوکت علی ناز:

بہت کچھ کہہ رہی ہے اَن کہی میں
بڑی رمزیں ہیں چشم اجنبی میں
سماعت تلملا کر رہ گئی ہے
صدا کیسی یہ گونجی خامشی میں

عزیز نبیل:

جانے کس لمس کی تاثیر سے پتھر ہوا ہوں
ایک ٹھہری ہوئی دنیا کا پیمبر ہوا ہوں
صاحب دنیا کبھی مست قلندر ہوا ہوں
الغرض جو بھی ہوا اپنے ہی اندر ہوا ہوں

ندیم ماہر:

مستقبل کے منظر بننے لگتی ہیں
ہنستے ہنستے آنکھیں رونے لگتی ہیں
تحریروں سے دھواں اٹھنے لگتا ہے
لفظوں کی پھر سانسیں رکنے لگتی ہیں

احمد اشفاق:

جو وفا اور بے وفائی سے ہیں یکسر نا بلد
اب تعجب ہے وہی غدار طے کرنے لگے
مختلف سمتوں سے گھر پر انگلیاں اٹھنے لگیں
فیصلے جب ہم سر بازار طے کرنے لگے

منصور اعظمی:

اسی کا چین ہے جاپان ہے بخارا بھی
کہ جس کا چاند ہے سورج بھی ہے ستارہ بھی
یہ نفرتوں کی گھٹا آؤ روک لیں مل کر
یہ شہر امن ہمارا بھی ہے تمہارا بھی

زوار حسین زائر:

اتنا اٹا ہوا ہوں مسافت کی گرد سے
قاصر ہیں نقش چہرے کے اظہار درد سے
پتھر تو میں ہوں کس لئے پتھرا گئے ہو تم
کہتا رہا مکان یہ ہر ایک فرد سے

مظفر نایاب:

انصاف کی تم سے میں کیا رکھوں امید
جب امتیاز رنگ و بو جاری رہے
شب کٹ گئی وقت سحر ہے اب قریب
لب پر ترے اللہ ہو جاری رہے

رویس ممتاز علام:

یہ زندگی بھی تو کسی پکچر سے کم نہیں
کیا اس کی اسکرپٹ کو دیکھا بھی ہے کہیں
کردار زندگی کے نبھاتے تو ہو مگر
تم ہو کسی ڈگر میں ادھر تو کبھی ادھر

اطہر اعظمی:

دیش سوتنتر ہو من بھی سوتنتر ہو
سنتلت سب کے ہت میں یہ گڑتنتر ہو
کہہ کے ہندو مسلماں نہ چنتت کرو
من میں جنتا کے گھڑناں نہ وکست کرو

عامر شکیب عثمانی:

وہ آنکھیں جو ہم پر نکالے ہوئے ہیں
نگاہیں بری ہم پہ ڈالے ہوئے ہیں
خود ان کی ہی جھولی میں رسوائی آئی
جو اوروں کی پگڑی اچھالے ہوئے ہیں

راشد عالم راشد:

کیوں پرندے یہاں چہچہاتے نہیں
خوف کیا ہے ادھر آتے جاتے نہیں
ایک طوفاں کی آمد کا اندیشہ ہے
اب چمن میں بھی گل مسکراتے نہیں

راقم اعظمی:

صندل کی طرح مہکیں وہ دن رات مسلسل
کرتے ہیں خدا کی جو عبادات مسلسل
وہ دور بہت دور بہت دور ہے لیکن
خوابوں میں رہی اس سے ملاقات مسلسل

مشفق رضا نقوی:

آؤ کرتے ہیں بات پھولوں کی
پیار ہی پیار ذات پھولوں کی
خار کی عمر ہے طویل تو کیا
کم ہے پر ہے حیات پھولوں کی

ظریف بلوچ:

تم جو روٹھے تو روٹھے ہیں دونوں جہاں
اب تو میرا ٹھکانا یہاں نہ وہاں
اب کہ دریا وہ پتھر بہا لے گئی
جس پہ ہم نے بنائے تھے دل کے نشاں

علی عمران مہدی:

جو دور دور رہا قربتوں کے موسم میں
وہ شخص ہجر کی رت میں کبھی جدا نہ رہا
میں دل کی بات کبھی وقت پر نہ کہہ پایا
مرا سکوت ہمیشہ سے مجرمانہ رہا

عبدالوکیل نور:

میں اکیلا چلا تھا سفر کے لئے
میں بہت خوش ہوں اب کارواں ہوگیا

سعادت علی سعادت:

کس کی نوازشوں کی نظر دل پہ چل گئی
آتے ہی آپ میری طبیعت سنبھل گئی

تبصرے بند ہیں۔