انگلش میڈیم میں حصول تعلیم کے ہم ہرگز مخالف نہیں، لیکن!

وصیل خان

اللہ نہ کرے کہ ہمارا ٹھکانہ حقیقت کی دنیا سے پرے خوش فہمیوں کے گنبد میں ہوجائے کیونکہ ان گنبدوں سے ٹکراکر بار بار ہمارے کانوں میں پڑنے والی صدائے بازگشت اس قدر سحر زدہ اور خو د پسند بنادیتی ہے کہ اس دنیا سے بہتر کوئی اور دنیا ہمیں نظر ہی نہیں آتی یہاں تک کہ کوئی مرد دانا جب اس کیفیت کی طرف ہماری توجہ مبذول بھی کراتا ہے تو اسے ہم اپنا سب سے بڑا دشمن جانی سمجھ لیتے ہیں اور اس کی ہدایات و تجاویز کو سرے سے مسترد کردیتے ہیں اور خوش فہمیوں کی اسی دنیا میں واپس چلے جاتے ہیں جسے برسوں سے ہم نے اپنی آرام گاہ بنا رکھا ہے ۔

آج مسلمانوں کی کم و بیش یہی کیفیت ملک کے گوشے گوشے میں نظرآتی ہے ، وہ سیاسی معاملات ہوں یا اقتصادی و معاشی یا پھر تعلیمی و ثقافتی غرـضیکہ ہر شعبہ حیات میں برادران وطن سے پیچھے ہی نہیں بہت پیچھے نظر آتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوسکتا ہے کہ ہم برادران وطن کے ساتھ دوڑ ہی میں شریک نہیں ۔سردست یہاں ہم اپنے کلچر اور زبان کی اگر بات کریں ، جس سے ہمارا تعلق بڑی تیزی کے ساتھ کمزور ہوتا جارہا ہے ایسے میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں کچھ باتیں کرلی جائیں ۔زبان اورتہذیب کسی بھی قوم کا ایسا سرمایہ ہوتے ہیں جس پر اس کی شناخت قائم ہوتی ہے یہی نہیں بلکہ اس قوم کے تحفظ و بقا کا انحصار بھی اسی لسانی اور تہذیبی سرمائے سے مربوط ہوتا ہے ۔اہل دانش و بینش اس بات پر صد فیصد متفق نظر آتے ہیں کہ کسی قوم کو فنا کے گھاٹ اتارنے کیلئے ان کی زبان و کلچرکا خاتمہ کافی ہوتا ہے ، آج مسلمانوں پر انہی دونوں زاویوں سے مسلسل حملے ہورہے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ ہم نہ تو ان حملوں کی ضرب محسوس کررہے ہیں نہ ہی اس سے ہونے والے مستقل نقصانات کا ہی کچھ اندازہ لگاپارہے ہیں ، ایسا لگتا ہے جیسے ہم بے حسی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں غم اور خوشی میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا شاید اسی کیفیت کو محسوس کرتے شاعر مشرق نے کہا تھا ۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

مندرجہ بالا باتیں اس وقت ذہن میں آئیں جب گذشتہ صبح ہم ناشتے کی اشیاء کے حصول کیلئے قریبی دوکان پر پہنچے تو وہاں دو ایک شناساؤں سے ملاقات ہوگئی اور رسما ً  (کیونکہ اب ہم سنجیدگی سے نہیں محض رسما ً ہی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ) یہی موضوع زیر بحث آیا کہ ہم لوگ اپنے کلچر اور زبان سے بہت تیز ی سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ہماری دلچسپیاں دوسروں کے کلچر کو اپنا نے میں بڑھتی جارہی ہیں ، کہتے ہیں کہ زندہ قومیں دوسروں کے کلچر سے ہرگز متاثر نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ اپنے اثرات دوسروں پر مرتب کرتی ہیں ۔اک شریک گفتگو نے کہا کہ قریبی اسکول بس اسٹاپ پر جائیں تو برقع پوش خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی جو اپنے بچوں کو لئے بڑی بے چینی سے انگریزی اسکول بس کی منتظر ہوتی ہیں اور اس کام کو وہ اس قدر اولیت دیتی ہیں کہ دوسرے سارے گھریلو امور موخر کردیئے جاتے ہیں ، بچوں کو اسکول روانہ کرنے کے بعد ہی وہ دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں ۔یہ انہماک و توجہ بلا شبہ کچھ پالینے کی کلید ضرورہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اس دوڑ میں اپنا کلچر ، اپنی روایات اپنی شناخت اور سب سے بڑھ کر اپنی وہ زبان جو ہمارے سارے علمی و تہذیبی ورثے کی امین و محافظ ہے اسے داؤپر تو نہیں لگارہے ہیں ۔انگلش میڈیم میں حصول تعلیم کے ہم ہرگز مخالف نہیں لیکن اپنے تہذیبی ورثے کوفراموش کردینے کے بہر صورت مخالف ہیں ۔

لیجئے باتوں باتو ں میں یہ تو بھول ہی گئے اس وقت دوکاندارنے بھی ہمیں دوچار پرچیاں دکھائیں جوچھوٹے چھوٹے بچوں کی معرفت دوکاندار کو موصول ہوئی تھیں جن میں ناشتے کی ان ضروری اشیاء کی فہرست درج تھیں جو وہ اپنے گھروں سے لائے تھے وہ سبھی ہندی یا انگریزی زبان میں تحریر تھیں یہ دیکھ کر ایک دھچکا سا لگا کہ ہم اردو زبان سے اس قدرکیوں منحرف ہوتے جارہے ہیں ۔آج تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اردو اخبارات و رسائل کے قاری بھی کم سے کم ہوتے جارہے ہیں اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر صبح کو طلوع ہونے والا سورج اپنی آمد کے ساتھ کچھ اردو قاری کم کر دیتا ہے ، اس کے باوجود کوئی خوش فہمیوں کے گنبد میں رہتا ہے تو رہے اس پر بھلا کس کا زور چل سکتا ہے ۔مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اس مادری زبان سے نابلد ہوتی جارہی ہے اور جولوگ واقف ہیں ان میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا معیار قابل ذکر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

اپنی تہذیب سے انحراف کا حال تو یہ ہے کہ اکثر برقع پوش خواتین موٹر سائیکلوں پر یا پھرسر راہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیگر اقوام کی عملا ً تائید کرتی نظر آئیں گی ، اسی طرح ریلوے اسٹیشنوں یا دیگر پبلک مقامات پر کھڑے ہو کر یا چلتے پھرتے مشروبات پینے میں بھی ہم لوگ دیگر اقوام کی تقلید کرتے نظر آئیں گے ۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ جب ہم مسلم علاقوں سے گذرتے ہیں تو ہماری آنکھیں کارخانوں ، دوکانوں اور اداروں کے سائن بورڈ اردو میں دیکھنے کو ترس جاتی ہیں ۔عجیب بات ہے جب ہم خود اردو سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں تو حکومت اور غیروں کا شکوہ کیوں کرتے ہیں ۔ بچوں کو انگلش میڈیم کے اسکولوں میں داخل کرکے فخر محسوس کرتے ہیں اس کے برعکس اردو میڈیم میں پڑھانے کو کسر شان اور دقیانوسیت سمجھتے ہیں ہم اپنی شناخت خود ہی نہیں کرپاتے تو دوسروں سے توقع کرنا ہی فضول ہے ۔

یہ اپنی تنگ ظرفی ہے کہ ہم خود بھی نہیں اپنے

زمانہ اپنا ہوجاتا اگر آغوش وا کرتے

کتنے اسکولوں اور کالجوں سے اردو کا مضمون ہی ختم کردیا گیا مگر ہمیں کوئی خبر نہیں نہ کوئی پرواہ ۔کچھ فکرمندوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تو کالج انتظامیہ نے کہا کہ اگر گیارہ طلباء بھی اردو پڑھنے کے خواہش مندہو اور وہ کلاس اٹینڈ کریں تو اردو استاد کا انتظام کیا جاسکتا ہے ، لیکن اتنا چھوٹا کام بھلا ہمارے شایان شان کس طرح ہوسکتا ہے ( خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی )  نتیجتاً وہاں اردو کا شعبہ ہی بند ہوگیا ۔ ہماری فطرت میں یہ بھی ہے کہ ہم ظالم بھی ہیں اور جاہل بھی یہی سبب ہے کہ ہم خوش فہمیوں کے گنبدوں میں رہنے والے مطلب پرستوں اور خود غرضوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں جو حکومتوں سے معمولی معمولی مراعات کے حصول کیلئے اردو اور اردو والوں کو قربان گاہ پرچڑھا دیتے ہیں ۔ہمیں اس کیفیت سے نکلنا ہوگا اور اردو کے ان نام نہاد دانشوروں ، دوسرے لفظوں میں لٹیروں سے نمٹنا ہوگا جو اردو کے نام پر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں لیکن زبان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں ۔

اٹھووگرنہ حشر نہیں ہوگا اب کبھی

دوڑوزمانہ چال قیامت کی چل گیا

تبصرے بند ہیں۔