پروفیسر ارتضی کریم کوعالمی مجاہد اردو  ایوارڈ !

 احمد اشفاق

بزم اردو قطر،دوحہ کی معروف اُردوادبی تنظیم ہے جسے پورے خلیج میں سب سے قدیم ادبی تنظیم ہونے کا شرف حاصل ہے ۔اس کا قیام 1959 ء میں ہوا  16 اگست 1982ء کوسلورجوبلی مشاعر ہ منعقد کیا گیا جس میں دوحہ سے باہر کے شاعر کو بلانے کی روایت کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد 1991ء  میں ’’میرؔسیمینار‘‘سے سیمینارکا سلسلہ شروع ہوا اور پہلا عالمی سیمینار متعارف ہوا۔

اس کے بعد اقبال سیمینار، غالب سیمینار، شام افسانہ، امیر خسرو سیمینار، میر انیس سیمینار، اکبر الہ آبادی سیمینار، حالی سیمینار، ذوق سیمینار، نظیر اکبر آبادی سیمینار، بہادر شاہ ظفر سیمینار، اور نظم سیمینار ہوئے۔جس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر سلیم اختر ڈاکٹرجگن ناتھ آزاد، پروفیسر اصغر سودائی ،ڈاکٹر خلیق انجم ،شاعر شہزاد احمد، جوگیندر پال ،پروفیسر کرشنا پال، انتظار حسین  ،ڈاکٹر عبد الستار دلوی ، پروفیسر محمد علی صدیقی پروفیسر جیلانی کامران ثریا بانو ا عقیل منظور، ڈاکٹرابولکلام قاسمی،پروفیسر عقیل ؔرضوی،اورڈاکٹر ہلال نقوی و پروفیسر اسداریب،ساغر خیامی؛سرفراز شاہد(پاکستان) شاعر ڈاکٹر تابشؔمہدی ،نویدؔحیدرہاشمی اور شاہدؔذکی ، خورشید اکبرؔ اور صوفیہ بیدارؔ  ، ڈاکٹرکلیم عاجزو ڈاکٹر محبوب راہیؔ،لیاقت علی عاصم،انجم سلیمیؔ  ڈاکٹر کوثرمظہری،ابراہیم اشک ؔ ،شاعر سعود عثمانی ،صغری صدف ، جاذب قریشی، پروفیسر شہپر رسول،پروفیسر صفدر امام اور 2015ء میں نظم سے می نار میں بحیثیت مقالہ نگارقومی اردو کونسل براے فروغِ اردو زبان کے موجودہ ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ( سید علی کریم) کو دعوت دی گئی تھی، موصوف نے اپنے پر مغز مقالے سے  بیحد متاثر کیا تھا ۔

27؍اکتوبر 1959ء کو صوبۂ بہار کے مردم خیز خطّے میں پیدا ہوئے۔ مگدھ یونی ورسٹی، بودھ گیا اور دلی یونی ورسٹی میں اعلا تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں ان کا بہ حیثیتِ استادتقرر ہوا۔ 2008ء سے 2011ء کے دوران وہ شعبۂ اردو کے صدر رہے۔ دلی اردو اکادمی ، نیشنل بُک ٹرسٹ،اردو مشاورتی کمیٹی، حکومتِ بہار کے شامل وہ درجنوں اداروں سے متعلق مختلف کمیٹیوں کے رکن اور سربراہ کی حیثیت سے اعلا تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں ان کی نگرانی میں طلبہ و طالبات نے ایم۔فل۔ اور پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔

ارتضیٰ کریم تصنیف و تالیف کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے اساتذہ کے طور پر معروف ہیں ۔ ’بہار کا اردو ادب ‘ ان کی پہلی کتاب ہے جس کی اشاعت 1986ء میں عمل میں آئی۔ قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور جوگندر پال کی مجموعی ادبی خدمات کا احتساب کرتی ہوئیں ان کی مرتبہ کتابیں بے حد اہم ہیں ۔ داستان کے محقق کی حیثیت سے وہ معتبر لکھنے والوں میں شامل ہیں ۔عجائب القصص اور نوطرزِ مرصع جیسی داستانوں کی تدوین کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو فکشن کی تنقید کے موضوع سے مستقل اشاراتی کتاب مرتب کیے۔ ترقی پسند تحریک کے سلسلے سے دستاویزی جلدیں اس تحریک سے ان کی گہری وابستگی کی مظہر ہیں ۔ان کی نصف درجن درسی نوعیت کی کتابیں اور متفرق مضامین کے متعدد مجموعے تصنیفی سرگرمیوں کا اظہارہیں ۔

 بہار اردو اکادمی، دلی اردو اکادمی، سنٹرل ہندی ڈائرکٹریٹ، یو پی اردو اکادمی وغیرہ نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انعامات پیش کیے ہیں ۔ ان کی متعدد کتابوں پر مختلف اداروں سے انفرادی اعزازات بھی حاصل ہوئے۔ ایک سو سے زیادہ سے می نار اور ورک شاپ میں انھوں نے اپنی علمی شرکت درج کرائی۔ مختلف یونی ورسٹیوں اور دیگر اداروں کے ریفریشر کورس میں انھوں نے اپنے خطبات پیش کیے۔

 اردو گلبن (جدہ) جو خلیجی ریاستوں میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے کے اس فیصلے کا بزم اردو قطر اور دوحہ کی دیگر ادبی و نیم ادبی تنظیموں نے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیاہے اور پروفیسر ارتضی کریم کو عالمی مجاہد اردو ایوارڈ 2017ء کے لئے نامزدگی پر مبارکباد  پیش کی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔