حکایاتِ غم کی تصویر: ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

ہرذی روح طبیعت مقفی اورمسجع کلام کی طرف فطرتاً مائل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عرب کے ان پڑھ شتربان اپنے اونٹوں کوسرمستی کے ساتھ چلانے کے لئے حدی خوانی کیاکرتے تھے،جوترقی کے مدارج طے کرتی ہوئی اصطلاحی شعرکی شکل میں بامِ عروج تک پہنچ چکی ہے، انسان کوچوں کہ دوسرے ذی روح پرمجموعی تفوق وبرتری حاصل ہے؛ اس لئے اس کی طبیعت اس سلسلہ میں کچھ زیادہ ہی جذباتیت کی حامل واقع ہوئی ہے، جس سے نہ عام آدمی بچ سکاہے، نہ خاص؛ حتی کہ صوفی منش اورزاہدشب زندہ داربھی ؛ چنانچہ ’’محفل سماع‘‘ کاانعقاداسی ’’جذب مقناطیسی‘‘کی کرشمہ سازی ہے۔

خُرد سالی کے زمانہ میں تعلیمی آغاز کے لئے جب میراداخلہ ’’جامعہ سیداحمدشہیدؒکٹولی، ملیح آباد‘‘ میں ہوا، اس وقت نہ توشعرکی تعریف سے واقف تھا اورناہی شاعرکی تعریف سے، اردوکی درسی کتابوں کے ذریعہ ان دونوں سے شناسائی ہوئی،پھرایک دن ’’بیت بازی‘‘کے اعلان پرنظرپڑی، ظاہرہے کہ یہ لفظ بھی ناواقفیت کی بناپرمیرے لئے اول وہلہ میں ’’سمع خراشی‘‘ کے مترادف تھا؛ لیکن جب تفصیل معلوم ہوئی توطبعی طورپریک گونہ مسرت حاصل ہوئی، بالآخرمقررہ تاریخ پردومتحارب جماعتیں رودررو اپنی اپنی نشست گاہوں پربیٹھیں، صدرمحترم نے غالباً اقبال کاکوئی شعرپڑھا، پھر بیت بازی کاسلسلہ شروع ہوگیا، ہرفریق کبھی دوسرے پراشعارکے پھول نچھاورکرتاتوکبھی اس کے بم برساتا، انھیں پھولوں اوربموں کے درمیان ’’اس ناز اس انداز سے تم ہائے چلوہو‘‘ کامصرعہ سماعت سے ٹکرایا، یقین مانئے کہ صغرسنی کے باوجود’’جذب مقناطیسی‘‘ نے ایسااثرکیاکہ محظوظ ہوئے بغیرنہ رہ سکا، اختتام مجلس کے بعدمعلوم کیاکہ یہ کس کاشعرہے؟ جواب ملا: کلیم عاجزؔ صاحب کا، شعرکے ذریعہ ان سے اس دن جوشناسائی ہوئی، وہ بڑھتی رہی؛ یہاں تک کہ طویل مدت تک زیورطباعت سے محروم رہنے کے بعدجب’’وہ جوشاعری کا سبب ہوا…‘‘ پورے آب وتاب کے ساتھ منصہ شہودپرجلوہ افروزہوا، پرانے’’جذب مقناطیسی‘‘ کے نتیجہ میں حیدرآبادسے منگوایا اوربہت ساری غزلوں کوازبرکرلیا، بعدمیں ’’جب فصل بہاراں آئی تھی‘‘، ’’جہاں خوشبوہی خوشبوتھی‘‘، ’’دیوانے دو‘‘، ’’کوچۂ جاناں جاناں ‘‘،’’ایک دیس ایک بدیسی‘‘، ’’یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ‘‘ اور’’میری زباں، میراقلم‘‘ کوبھی پڑھ ڈالا اورنثر ونظم پریکساں قدرت ؛ بل کہ کمال قدرت پرعش عش کرتارہا، شوق لقا نے کئی بارانگڑائی لی؛ لیکن بخت خفتہ جواں نہ ہوسکا۔

 ڈاکٹرکلیم احمدعاجزؔ ؒ کی شاعری سے میں ہی نہیں، میرے جیسے نہ جانے کتنے اورمتاثرہوئے ہوں گے، خواہ وہ ڈاکٹرصاحب سے واقف ہوں یانہ ہوں، وجہ صرف اس کی یہ ہے کہ ’’ان کے شعروں میں ایک مخصوص سادگی ہے، ان کے الفاظ جانے پہچانے، ان کی ترکیبیں ایس سیدھی سادھی ہوتی ہیں کہ مفہوم فوراً ذہن نشین ہوجاتاہے، یہ نہیں کہ ان کے اشعارسطحی ہوتے ہیں ؛ بل کہ الفاظ اورترکیبوں اورمعانی کے درمیان کوئی پردہ نہیں ؛ بل کہ یوں کہئے کہ ان کے الفاظ ایسے شفاف ہیں کہ معانی کوایک نگاہِ غلط اندازبھی پالیتی ہے‘‘۔

کلیم عاجزؒ کی پیدائش ۱۱؍اکتوبر۱۹۲۶ء میں بہارپربہارکے ایک زرخیز علاقہ’’عظیم آباد‘‘کے اطراف ’بہارشریف‘ کے ایک دیہات ’’تیلہاڑہ‘‘ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے نانامولوی ضمیرالدین صاحب سے حاصل کی، جوتقریباً تین سال تک جاری رہی، اس دوران اپنے ناناکے کتب خانہ سے مطالعہ شوق پیداہوا، اس کے بعدان کے والد صاحب نے اپنے پاس کلکتہ بلوالیا، جہاں ’’دوریٔ وطن کی تپش، گھرکی محبت اورماں کی محبت کے سوز‘‘ نے ’’مطالعہ‘‘کے شوق میں اضافہ اور’’تماش بینی‘‘کا چسکا لگادیا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے چوں کہ ذہانت کی وافرمقدارودیعت کی تھی؛ اس لئے تیرہویں (۱۹۳۷ء )بہارکی دہلیز پرقدم رکھتے رکھتے ’اردوادب‘ کی ڈھیرساری کتابیں، مشہورشعراء کے دیوان اوراپنے زمانہ کے مشہورادبی رسائل کوکھنگھال ڈالا، تھیٹرکے چوکھٹ کوپاراورڈراموں کی شبستان کی سیرکی، جس کے نتیجہ میں ’’ادب وشاعری کاذوق، طبیعت کی نفاست، وضع کی متانت، خیال کی سنجیدگی اوردل کے گدازکاخاصہ حصہ حاصل ہوا‘‘،تعلیمی کارروائی کوآگے بڑھانے کے لئے ۱۹۳۹ء میں کلکتہ ہی کے ایک اسکول میں داخلہ دلوایاگیا، جہاں سے انٹرنس تک تعلیم حاصل کی، پھرپٹنہ واپس آگئے اور۱۹۴۴ء میں بڑی امتیازی شان سے میٹریکولیشن پاس کیا، اسی سال والدصاحب کاانتقال ہوگیا، والدصاحب کے انتقال کے کچھ ہی دن بعد چھوٹے بھائی علیم احمدکودق کاعارضہ لاحق ہوا اورتقریباً ڈھائی سال بعد’’کچھ نہ دوانے کام کیا‘‘ اورستمبر۱۹۴۶ء میں اس کابھی انتقال ہوگیا، والدصاحب کے انتقال سے پہلے بڑے بھائی اوربڑی بہن بھی اس دنیاسے رخصت ہوچکے تھے، ان سلسلہ وارغم کے پہاڑکے نیچے دب کرکلیم عاجزؒ کی حالت دگرگوں ہوگئی، ’’مزاج میں خشکی اورچڑچڑاپن پیداہوگیا اوراپنے آبائی وطن ’’تیلہاڑہ‘‘سے چھوٹے بھائی بہن اورماں کوساتھ لے کرایک کرائے کے چھوٹے سے مکان میں پٹنہ چلے آئے‘‘؛ لیکن والدہ محترمہ کو’’تیلہاڑہ‘‘کی دھوپ چھاؤں، سرور اورخمار، خوشی اورملال کی فضاؤوں کی زندگی زیادہ پسندتھی؛ اس لئے وہ کہتی کہ’’اب ہماراسن پٹنہ رہنے کاہے؟ ماں باپ کی ڈیوڑھی چھوڑکریہاں بیٹھے ہیں ‘‘، بالآخر ۲۶؍ اکتوبر۱۹۴۶ء مطابق ۲۹؍ ذی قعدہ ۱۳۶۵ھ کوبقرعید منانے کی غرض سے وہ گھرواپس آنے کوتیارہوگئیں، کیامعلوم تھا کہ ان کی روانگی ابدی ہے، ان کی روانگی ’’تیلہاڑہ‘‘ کے لئے نہیں ؛ بل کہ اس گھرکے لئے ہے، جس کوآج تک نہ توکسی آنکھ نے دیکھاہے، نہ کسی کان نے سناہے اورناہی کسی کے دل میں اس کاخیال گزراہے، انسان کافیصلہ کچھ ہوتاہے، قضا وقدر کافیصلہ کچھ اور، یہ گئیں توتھیں بقرعیدمنانے کی غرض سے؛ لیکن چھری خودانھیں کی گردنوں پرچلادی گئی، ان کی روانگی توتھی جانورقربان کے لئے؛ لیکن انھیں خوداپنی جانوں کانذرانہ پیش کرناپڑا، ایسانذرانہ، جس نے کلیم کوماہی بے آب بناکرچھوڑدیا، ایسی قربانی، جس نے کلیم کومرغ بسمل بناکررکھ دیا، اس قربانی نے کلیم کے دل میں ایسی چنگاری لگائی، جوموت تک سلگتی رہی، چھپرہ میں فسادکی جوآگ سلگائی گئی تھی، وہ ’’تیلہاڑہ‘‘ تک جاپہنچی، جس نے تیلہاڑہ میں موجود حامیان اسلام کوجلاکرخاکسترکردیا، عید قرباں کی آمد سے جو گاؤں سرخوش تھا، وہ گاؤں عین خوشی کے ایام میں اجڑگیا،پوراقافلہ عین فصل بہارمیں لٹ گیا:

قافلہ کا قافلہ لٹ گیا بہار میں

 یہی وہ خوں چکاں حادثہ ہے، جس نے کلیم کوکلیم عاجزؔ بنادیا، یہی وہ جاں کاہ واقعہ ہے، جس نے کلیم کے دل کوچھلنی کردیا، جس نے غم کاایسالبادہ اسے پہنایا، جوموت تک اتارا نہ گیا، جس نے ایساکاری زخم لگایا، جوہزارتسلیوں کے مرہم اورہزارایوارڈوں کے پھاہوں کے ذریعہ بھی مندمل نہ ہوسکا، جس نے خوشی کی بزم میں بھی اسے بیگانہ بناکررکھا، یہ حادثہ اتنا بڑا تھا، جس کے سامنے بعدکے سارے حادثے بونے نظرآنے لگے، اسی غم کی بدولت اردوادب کوکلیم عاجز کاادبی سرمایہ ہاتھ لگا کہ’’سرمایۂ غم مفت کہاں ہاتھ لگے ہے‘‘:

نہ خوشی یاد رہی مجھ کو نہ غم یاد رہا

ہاں ترا سلسلۂ حسنِ کرم یاد رہا

نہ مجھے جام رہا یاد نہ جم یاد رہا

کچھ نہ ساقی تری آنکھوں کی قسم یاد رہا

  کہتے ہیں کہ چوٹ جتنی بڑی ہوتی ہے اوردردجتناعظیم ہوتاہے، کلام کے اندرعملیت اوراثرانگیزی اسی مناسبت سے پائی جاتی ہے، یہاں تودردہی درد، کراہ ہی کراہ اور ٹیس ہی ٹیس ہے، یہاں رقص وسرود کی باتیں، گل وبلبل کی حکایتیں اورجام وسبوکی شکایتیں کہاں سے آسکتی ہیں ؟

سنبھلنے ہی نہیں دیتا غم یاران میخانہ

کہاں کی میکشی، کیسی صراحی، کیسا پیمانہ؟

یہاں تو’’دکھ بھروں کی حکایتیں ‘‘ اور’’دل جلوں کی کہانیاں ‘‘ ملیں گی، یہاں آہ وکراہ ملے گی، یہاں نالہ وشیون سے سابقہ پڑے گا، یہاں دردوکرب نظرآئیں گے:

میری شاعری میں نہ رقص جام نہ مئے کی رنگ فشانیاں

وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں

یہ جوآہ ونالہ ودردہیں کسی بے وفاکی نشانیاں

یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری رات کی رانیاں

 ’’تیلہاڑہ‘‘ کوئی ایسی بستی نہیں تھی، جہاں کی تاریخ رقم کی جاتی؛ کیوں کہ تاریخ رقم کرنے کے لئے تاریخی بنیادیں یاتاریخی شخصیتیں درکارہوتی ہیں ؛ لیکن فرقہ پرست ذہنیت نے اس گاؤں کے اندرایسی خون افشانی کی، جس نے وہاں کے ایک کم سخن بلبل کے آراستہ چمن کوتاراج کرکے رکھ دیا،تاراجی چمن کے بعدبلبل ناشاد غم والم سے چورچور ہوکر’’خموشی گفتگوہے، بے زبانی ہے، زباں میری‘‘کے مصداق بن کررہ گئی، تاہم اس اجڑے چمن کے زخم اورہم نوابلبلوں سے بچھڑنے کے غم نے ’’اسے وہ آنکھیں عطا کیں اوروہ نظریں بخشیں، جن سے وہ اوروں کے زخم دیکھنے کے قابل ہوا اورزخموں نے آپس میں رابطہ پیداکیا اوریہ فن کے لئے راستہ بنا، اسی ترتیب کانام غم دل اورغم دوراں کا امتزاج، غم جاں اورغم جاناں کااشتراک، غم عشق اورغم روزگارکااتحادہے‘‘، وہ بلبلِ کم سخن چوں کہ ’’سراپادردہوں، حسرت بھری داستاں میری‘‘ کاایک نمونہ بن چکی تھی، لہٰذا کب تک اس دردکوتنہاسہتی رہتی؟ بالآخر ’’دل کے پھپھولے کھل اٹھے سینے کے داغ سے‘‘، بلبل کم گوفغاں سنج ہوئی اور’’اجڑے دیار‘‘ کی داستاں ایسے پرسوز لب ولہجہ میں بیان کرنا شروع کیا، جس نے ہراس شخص کی آنکھ سے نمکین پانی کاچشمہ جاری کردیا، جس کے سینے میں دھڑکتادل تھا:

رب ورقاء ہتوف فی الضحا

ذات شجو صدحت فی فنن

(بسااوقات غمگین خاکسترمائل سفیدکبوتری چاشت کے وقت شاخ پربیٹھ کرچہچہائی)

ذکرت إلفاً ودہراًسالفا

فبکت حزنا فہاجت حزنی

(اپنے محبوب اورگزرے زمانہ کواس نے یادکیا؛ چنانچہ مارے غم کے وہ خودروپڑی اوراس نے میرے غم کوبھی بھڑکادیا)

 کلیم عاجزؔ صاحب نے اپنی شاعری میں ’’غزلوں کی قدیم تکنیک اوراس کی قدیم اصطلاحات واستعاروں میں جذبۂ زندگی کی نئی معنویت سموکرانہیں نئے زمانہ کے ساتھ پوری توانائی، حسن اورتأثرکے ساتھ سفرکرنے پرآمادہ کردیاہے‘‘، یہی وجہ ہے کہ ہم ان غزلوں کے الفاظ میں ایک تو’’سطحی مفہوم‘‘پاتے ہیں اوراس کے ساتھ ’’ایک دوسرا مفہوم‘‘ بھی پاتے ہیں، سطحی مفہوم کوتوہرایراغیرانتھوخیرااپنی اپنی سوچ کی سطح کے اعتبارسے اپنے اپنے گوشۂ ذہن میں ترتیب دے لیتاہے؛ لیکن اس دوسرے مفہوم کوسمجھنے  والے خال خال ملتے ہیں ؛ حالاں کہ عاجزؔصاحب کامقصود اس دوسرے مفہوم کوسامع وقاری کے ذہن کے پردۂ سیمیں میں داخل کرناہوتاہے، اسی دوہری معنویت کی شاعری کی وجہ سے ہی ان کی اشعارمیں ’’پھول‘‘ بھی ملتے ہیں اور’’پتھر‘‘ بھی، ’’خندہ روی‘‘ بھی ملتی ہے اور’’تھپڑ‘‘ بھی، شربت کی ’’شیرنی‘‘ بھی ملتی ہے اورزہر کی’’تلخی‘‘ بھی، بادصباکی’’خوشبو‘‘ بھی ملتی ہے اوربادسموم کی’’گرمی‘‘ بھی، زخم زدہ انسانیت کی ’’کراہ‘‘ بھی ملتی ہے اورصبروشکیبائی کی’’چاہ‘‘ بھی؛ لیکن یہ سب چیزیں اس سلیقہ مندی کے ساتھ مرتب اورمسلسل شکل میں ملتی ہیں، جوصرف انہیں کاخاصہ ہے، وہ خودکہتے ہیں :

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم

بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

کلیم عاجزؔنے اپنے سوزش دل کوکم کرنے کے لئے شاعری کے جس لب ولہجہ کاانتخاب کیا، وہ ہزاروں میں پہچاناجاتاہے، ان کے اشعارادھرہونٹوں سے تجاوز نہیں کرتے کہ ادھردل کے تاربجنے لگتے ہیں اورشاعری سے ادنی تعلق رکھنے والوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، آیئے ان کے اشعارکے ذریعہ سے ان کے اس لب ولہجہ کودیکھتے چلیں :

اے عشق! مل سکیں گے نہ ہم جیسے سرپھرے

برسوں چراغ لے کے زمانہ اگرپھرے

وہ دردمندہیں کہ گئے جس چمن میں ہم

پھولوں کوبانٹتے ہوئے خونِ جگرپھر

٭٭٭

اس ناز اس اندازسے تم ہائے چلو ہو

روز ایک غزل ہم سے کہلوائے چلو ہو

رکھناہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں

چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا

تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو

وہ شوخ ستم گر توستم ڈھائے چلے ہے

تم ہوکہ کلیم اپنی غزل گائے چلوہ و

٭٭٭

رقیبوں میں رہے یادوستوں کے درمیاں پہونچے

کہیں بھی چین سے رہنے نہ پائے ہم جہاں پہونچے

چمن میں یادکرکے اپنے ویرانے کوروتاہوں

وہاں غم اس قدرپہونچے نہ تھے جتنے یہاں پہونچے

سناہے لوگ فن سے صاحبِ فن تک پہونچتے ہیں

مگرہم تک ہمارے ڈھونڈھنے والے کہاں پہونچے؟

٭٭٭

جب دورمیں شیشہ رہے ہے جام رہے ہے

کیاجانے کہاں گردش ایام رہے ہے

اک دردہے جوشام سے اٹھے ہے سحرتک

اک سوز ہے جوصبح سے تاشام رہے ہے

بدکاربہت لوگ زمانہ میں رہے ہیں

پکڑاوہی جائے ہے جوبدنام رہے ہے

تم بھی نہیں سمجھوں تم بڑاظلم ہے پیارے

ہرشعرمیں دل کاکوئی پیغام رہے ہے

٭٭٭

یہ دیوانے کبھی پابندیوں کاغم نہیں لیں گے

گریباں چاک تک کرنہ لیں گے دم نہیں لیں گے

لہودیں گے تولیں گے پیارموتی ہم نہیں لیں گے

ہمیں پھولوں کے بدلے پھول دو شبنم نہیں لیں گے

یہ غم کس نے دیاہے پوچھ مت اے ہم نشیں ہم سے

زمانہ لے رہاہے نام ہم نہیں لیں گے

محبت کرنے والے بھی عجب خوددارہوتے ہیں

جگرپرزخم لیں گے زخم پرمرہم نہیں لیں گے

غم دل ہی کے ماروں کوغم ایام بھی دے دو

غم اتنالینے والے کیااب اتناغم نہیں لیں گے؟

سنوارے جارہے ہیں ہم الجھتی جاتی ہیں زلفیں

تم اپنے ذمہ لواب یہ بکھیڑاہم نہیں لیں گے

شکایت ان سے کرناگومصیبت مول لیناہے

مگرعاجزؔغزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے

  ہمارے ملک ہندوستان میں یوں توشعراء ؛ بل کہ اساتذہ شعراء، کہنہ مشق شعراء اورماہرفن شعراء کی کمی نہیں ؛ لیکن کم ہی شعراء ایسے ملیں گے، جن کی نسبت ’’درکف جام شریعت، درکف سندان عشق‘‘ کی تعبیراختیارکی جاسکے، کلیم صاحب کے یہاں دونوں چیزیں کمال درجہ کی ملتی ہیں، شاعری بھی ٹوٹ ٹوٹ کرکی اوردین داری بھی کوٹ کوٹ کربھری رہی، انھوں نے دونوں کوجدانہیں کیا، جیساکہ اکثرشعراء جداکردیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ادب نواز حلقہ میں بھی خوب جانے گئے اورمصلی وجائے نمازمیں بھی خوب پہچانے گئے، پھرایک وقت وہ آیا، جب انھیں بہارکی تبلیغی جماعت کی امارت سونپی گئی، جس کوانھوں نے خوب خوب نبھا کردکھایا۔

کلیم عاجزؔ کی شاعری کے بارے میں اکثرحضرات کا یہ خیال ہے کہ وہ ’’اپنی کیفیات تغزل میں میرؔکے فرماں بردارپیروہیں ‘‘؛ البتہ بعض حضرات اس کو’’تقلیدجامد‘‘ نہیں سمجھتے؛ بل کہ ان کی غزلوں میں ’’تغزل جدیدکاپرتو‘‘بھی تسلیم کرتے ہیں ؛ تاہم کلیم صاحب خودکیاکہتے ہیں ؟ آیئے دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں : ’’الفاظ کی بات آگئی تویہ بات عرض کردوں کہ میری زندگی میں خیال، بات اورشعرمیں کوئی بعدیافرق نہیں، میں جس طرح جن الفاظ میں سونچتاہوں، ان ہی الفاظ میں باتیں کرتاہوں اورجن الفاظ میں باتیں کرتا ہوں ان ہی لفظوں میں شعرکہتاہوں، فرق صرف ترتیب اورترکیب کاہوتاہے، اس ترتیب اورترکیب کومیں نے کتابوں سے حاصل نہیں کیاہے، یہ میرااپناہے اوراورکسی کے مشورے سے بھی نہیں اپنایاگیاہے، یہ میرؔ کی پیروی نہیں، میں پیروکسی کانہیں، میں نے میرؔکوکالج کالکچرربننے کے بعدجانااورپہچانااورسمجھا، اوریہ بات ۱۹۶۶ء کے بعدکی ہے، اس سے قبل میں میرؔ کے چنداشعارجانتاتھا، کچھ حالات سے واقفیت تھی، میرے کالج کے دوران تعلیم بی اے آنرس اورایم اے کے نصاب میں میرشامل نہیں تھے …میرسے جوکسی قدر مشابہت ہے، یہ مشابہت فن سے نہیں، زندگی سے آئی ہے، جس کاشعوری احساس بہت بعدمیں مجھے ہوا‘‘، اس سلسلہ میں میں سمجھتاہوں کہ شاعرکی بات ’’اعتراف حق‘‘ کے مترادف ہے؛ کیوں کہ ایساممکن ہے کہ جس تیکنک کااستعمال میرؔ نے کی، وہی تیکنک خودبخودکلیم عاجزسے ظہورمیں آجائے، جب کہ ہم اس بات کے خوب معترف ہیں کہ ایک ہی مضمون دوافرادکوسوجھ سکتاہے اورایک ہی مصرعہ دوشاعروں کے ذہن میں آسکتاہے، جس کا نام ہم نے اصطلاح میں ’’توارد‘‘ دے رکھاہے،اوراس کوہم ایک دوسرے کی پیروی قرارنہیں دیتے توپھریہ کیوں ممکن نہیں کہ ایک ہی لب ولہجہ، جب کہ حالات ِزندگی میں یکسانیت بھی پائی جارہی ہو، دواشخاص سے ظہورمیں آئے؟ اوراس کوہم کوپیروی کیوں قراردیں ؟

 بہرحال! کلیم عاجزؔ بہت سارے ’’کارہائے نمایاں ‘‘ انجام دینے کے بعد۱۵؍فروری ۲۰۱۵ء کی صبح کواس دارفانی سے داربقاکی طرف یہ درس دیتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ یہ دنیاداراالامتحان ہے، یہاں غم کے کوہ گراں کوبھی برداشت کرناچاہئے اورایک غم کی وجہ سے دوسرے اہم کاموں کونظراندازنہیں کرناچاہئے، قضا وقدرکے فیصلوں پر صبروشکیبائی مؤمن کی تسلی کے لئے بڑاکارگرہتھیارہے، اس کوہمیشہ پیش نظررکھناچاہئے، اس سے زندگی میں اطمینان قلب حاصل ہوتاہے، ’’آسماں تیری لحدپرشبنم افشانی کرے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔