شہنشاہ طنز و مزاح مشتاق یوسفی کی یاد میں

سہیل انجم

مملکت طنز و مزاح کے شہنشاہ مشتاق یوسفی اپنے مداحوں کو ’شام شعر یاراں ‘ کی شکل میں آخری تحفہ تھما کر ۹۷ سال کی عمر میں ۲۰ جون ۲۰۱۸ کو وہاں چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے مگر جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ انھوں نے چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت اور آب گم جیسی اپنی لافانی تصانیف سے تقریباً پون صدی تک دنیائے طنز ومزاح پر حکمرانی کی۔ ان کی مذکورہ کتابیں علیٰ الترتیب ۱۹۶۱، ۱۹۶۹، ۱۹۷۶ اور ۱۹۹۰ میں منظر عام پر آئی تھیں۔ شام شعر یاراں ۲۰۱۴ میں شائع ہوئی۔ یعنی حیات یوسفی کی شام کی ساعتوں میں۔ شکر ہے کہ ہندوستان میں مملکت طنز و مزاح کے شہنشاہ مجتبیٰ حسین ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ مجتبیٰ صاحب کا نام لینے کا مقصد دونوں میں موازنہ نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ مشتاق یوسفی کا معاملہ ’تو چیزے دیگر است‘ والا تھا۔ وہ جس مقام پر فائز تھے وہاں تک رسائی کسی طنز و مزاح نگار کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اور عہد حاضر کے طنز و مزاح نگاروں میں یہ بُوتا نہیں کہ وہ ان کی گرد بھی پا سکیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ شاعر و ادیب یا پروفیسر نہیں تھے۔ وہ ایک بینکر تھے اور ایک ایسے شخص کا جس کے شب و روز روپے گننے اور ان میں اضافہ کرنے کی ترکیبیں سوچنے میں گزر جاتے ہوں، طنز و مزاح کی دنیا میں ایک انتہائی بلند مقام حاصل کرلینا اپنے آپ میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ راقم نے ان کے اول الذکر چاروں مجموعے دو دو بار پڑھے ہیں اور اب بھی ان کی کوئی پرانی تحریر ہی کہیں نظر آجاتی ہے تو اس میں وہی مزا آتا ہے جو پہلی بار آیا تھا۔ اس نے ان کی آخری کتاب شام شعر یاراں کی بھی جستہ جستہ ورق گردانی کر ڈالی ہے۔ اس کتاب کا بہت انتظار تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں بھی مشتاق یوسفی اپنے منفرد رنگ میں نظر آئیں گے۔ لیکن جب کتاب منظر عام پر آئی تو ان کے مداحوں میں مایوسی چھا گئی۔ وہ ان کے معیار پر کھری نہیں اتری۔

مشتاق یوسفی اپنی کوئی کتاب چھپوانے میں عجلت سے کام نہیں لیتے تھے۔ خوب ٹھونک بجا کر اور نظر ثانی، ثالث، چہارم، پنجم، ششم اور جانے کتنی بار نظروں سے گزارنے کے بعد ہی اسے پریس میں بھیجنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ لیکن اس کتاب کے ساتھ معاملہ دوسرا ہے۔ یہ در اصل ان کی مذکورہ چاروں کتابوں سے مختلف ہے۔ اس میں مختلف مواقع پر لکھے گئے مضامین یکجا کر دیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ترتیب میں مشتاق یوسفی نے کوئی دلچسپی نہیں لی ہوگی۔ ورنہ اس کا رنگ کچھ دوسرا ہوتا۔

اس کے منظر عام پر آنے کے بعد بڑی لے دے ہوئی تھی۔ کسی نے کہا کہ اس میں یوسفی کا رنگ ہی نہیں ہے تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ ان کی تحریروں کا مجموعہ ہی نہیں ہے۔ پہلی بات جہاں جزوی طور پر درست ہے وہیں دوسری بات بالکل ہی بے بنیاد ہے۔ اگر یہ کتاب ان کی نہیں ہوتی تو وہ بیماری کے باوجود اس کی تقریب رونمائی میں بذات خود موجود ہی نہیں ہوتے۔ کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لیے اسلام آباد سے ظفر سید نے لکھا تھا ’کتاب آنے سے پہلے سب سوچتے تھے کہ اس میں یوسفی صاحب کو شاید آب گم کے فلک بوس معیار کو ایک بار پھر چھونے میں مشکل پیش آئے گی۔ لیکن دلِ خوش فہم کے ایک گوشے میں ایک کرن یہ بھی پنپتی رہی کہ ۲۵ سال بعد کتاب لا رہے ہیں تو کیا پتا اس میں کچھ چمتکار دکھا ہی دیں۔

بالآخر دکانوں کے چکر لگا لگا کر کتاب ہاتھ آئی تو پڑھ کر امیدوں کے محل زمین پر آرہے۔ کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔۔۔ لیکن کہیں کہیں سے وہی پرانا انداز اس طرح جھلکتا ہے کہ آس پاس کو چکاچوند کر کے رکھ دیتا ہے اور قاری سب کچھ بھلا کر ’یوسفی آخر یوسفی ہے‘ کہہ اٹھنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘۔ گویا ظفر سید بھی انتہائی سخت معیار پر پرکھنے کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یوسفی آخر یوسفی ہے۔

ان کے انتقال کے بعد ان کے مداحوں کی جانب سے مختلف قسم کی چیزیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جا رہی ہیں اور لوگ اپنے اپنے انداز میں انھیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ ایک ایسا مضمون بھی گردش کر رہا ہے جس میں ان کے دلچسپ اقوال یکجا کر دیے گئے ہیں۔ بیشتر اقوال ان کی چاروں کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آخری کتاب ’شام شعر یاراں ‘ سے بھی کچھ اقتباسات نذر قارئین کیے جائیں تاکہ ایک بار پھر ان کی یاد تازہ ہو جائے اور اس کا بھی اندازہ ہو جائے کہ اس آخری کتاب کا رنگ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : ’دادا مجھے بڑے شوق سے انگریزی پڑھاتے اور خوش خطی کی مشق کراتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بدخط سدا کے بدنصیب، سہل انگار، خود رائے، خود سر اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ مرزا الٹی بشارت دیتے ہیں کہ بد خط لوگوں کو جہنم میں فرشتوں کے لکھے اعمال نامے نقل کرنے پڑیں گے۔ وہ انھیں سامنے رکھ کر ابد الآباد تک خوش خطی کی مشق کرتے رہیں گے۔ اپنے ہی بہتر اور خوبصورت خط میں رقم ہونے کے بعد خود ان کو اپنے کرتوت اور زیادہ مذموم و قبیح اور بد سے بدتر نظر آئیں گے‘۔۔۔۔ ’کچھ دوائیں کھانے سے پہلے اور کچھ کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں۔ لیکن سچ پوچھیے تو تقریر نہ قبل از غذا اچھی نہ بعد از غذا۔ خلوئے معدہ تو گانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ گانا ہی نہیں خالی پیٹ تو حکومت کے خلاف ڈھنگ سے نعرہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسے ویسے خواب تک آنے بند ہو جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خالی پیٹ صرف خون ٹیسٹ کرایا اور آپریشن کرایا جا سکتا ہے‘۔۔۔۔ ’انھوں (حکیم) نے نسخہ لکھ کر میرے ایک ہاتھ میں قارورہ اور دوسرے میں اسی کے ہمرنگ عرق بادیان کی بوتل تھما دی تو میں نے تقریباً روہانسو ہو کر کہا کہ اگر میرا صرف جگر ہی خراب تھا تو آپ نے میرے خسر کو کیوں علیحدہ کمرے میں بیٹھنے کو کہا۔ آپ کا میرے حال پر بڑا کرم ہوگا اگر آپ ان کو کم از کم یہ بتا دیں کہ میرا صرف جگر خراب ہے۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ عینک اتارتے ہوئے کہنے لگے برخوردار میں نسخے لکھتا ہوں چال چلن کے سر ٹیفکیٹ نہیں دیتا‘۔۔۔۔ ’میں اکثر کہتا ہوں کہ مصنف کو صرف کتاب کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔ اس کے اور قاری کے درمیان ایک محتاط فاصلہ یعنی کتاب بھر کا فاصلہ بہت ضروری ہے۔ اور اگر قاری یا فین کوئی خاتون ہے تو اس کے اور مصنف کے درمیان شوہر بھر کا فاصلہ رہنا چاہیے‘۔۔ ۔۔ ’بشریٰ رحمن کے سفرنامے زبان و املا کی غلطیوں، مردانہ لغزشوں اور ایسی ویسی عورتوں کے ذکر سے پاک ہیں۔ یادش بخیر ہم نے بھی ایک طویل سفرنامے کا ڈول ڈالا تھا۔ ملکوں ملکوں گھومے لیکن چونکہ بیگم ہمراہ تھیں لہٰذا ہمارا سفرنامہ کسی پہنچے ہوئے سادھو اور سنیاسی کی تیرتھ یاترا معلوم ہوا تھا۔ پہنچے ہوئے سے ہماری مراد بیوی تک پہنچے ہوئے سے ہے‘۔۔۔۔ ’بچپن او رجوانی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے آنے کا احساس ان کے جانے کے بعد ہوتا ہے۔ جبکہ بڑھاپے کا احساس اور ہول اس کے آنے سے بہت پہلے ہونے لگتا ہے۔ بڑھاپا ظالم شروع ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے اور جب بھر کے آتا ہے تو ہر یاد، ہر نقش ماسوا مٹاتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آدمی خود چیخ اٹھتا ہے: اب کچھ بھی نہیں مجھ کو بڑھاپے کے سوا یاد‘۔

تبصرے بند ہیں۔