ضیاء فتح آبادی کی شاعری کا فکری و نظریاتی تناظر

اُویس احمد بٹ

(ریسرچ اسکالر یونی ورسٹی آف حیدرآباد)

ضیاء فتح آبادی دُنیا ئے اردو ادب کی ایک معروف ادبی شخصیت اور مشہور شاعرہیں۔ جن کی ادبی خدمات بہت وقیع و وسیع ہیں۔ اُنھوں نے متعدد اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے جس میں غزل، نظم، مسدس، مخمس، ثلاثیات، سانیٹ، قطعات، رباعیات، نعت و مراثی شامل ہے۔ اتنا ہی بلکہ نثر کے میدان میں بھی اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اُنھوں نے ۱۰ شعری مجموعے اپنی یادگار چھوڑے ہیں جن کے نام یوں ہیں :’’طوع‘‘، ’’طلوع مشرق‘‘، ’’ضیاء کے ۱۰۰ شعر‘‘، ’’نئی صبح‘‘، ’’گردراہ‘‘، ’’حسن غزل‘‘، ’’دھوپ اور چاندنی‘‘، ’’رنگ ونور‘‘، ’’سوچ کا سفر‘‘اور’’نرم گرم ہوائیں ‘‘۔ نثری تصانیف میں ’’شعر وشاعر‘‘، ’’سیماب بنام ضیاء‘‘(مجموعہ مکاتیب)، ’’زاویہ ہائے نگاہ‘‘، ’’ذکر سیماب‘‘ اورایک افسانوی مجموعہ’’سورج ڈوب گیا‘‘ شامل ہیں۔

ضیاء فتح آبادی اپنی آپ میں ایک انجمن ہیں، اُنھوں نے اردو ادب کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب ترقی پسندتحریک اپنے عروج پر تھی، اُنھوں نے نئی غزل اور نئی نظم کو بھی طلوع ہوتے ہوئے دیکھا اور حلقہ ارباب ذوق کی گہماگہمی بھی دیکھی اور جدیدیت کی ابتدا بھی ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔ اُن کی مادری زبان پنجابی ہے لیکن اردو سے اُنھیں محبت اور فطری لگاو اس قدر تھا کہ اُنھوں نے اردو زبان کو ہی اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ اُن کی شاعری میں حقیقت پسندی بھی ہے اور رومانیت کا احساس بھی ہے۔ اُن کے یہاں گنگا جمنی تہذیب کی مشترکہ روایت کے پہلو بھی نظر آتے ہیں اور گیت کی صورت میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت بھی جھلکتی نظر آتی ہے۔ اگر ضیاء کی شاعرانہ عظمت اور اُن کی شاعری کی انفرادی خصوصیات سے محظوظ ہونا ہے تو ہمیں چاہئیے کہ اُن کی شعری تخلیقات کا بہ نظر غائز مطالعہ کریں یعنی اُنھیں اُن کی شاعری کی کسوٹی پر رکھنا ہوگا۔ تب جاکے ممکن ہے کہ ہم ضیاء جیسے قابل قدرشاعرکی شاعرانہ خصوصیات تک رسائی پا سکتے ہیں۔ لیکن ضیا ء کو اُن کی شاعری کے آئینے میں دیکھنے اور پرکھنے کا قدم صالحہ صدیقی نے اُٹھا یا کہ اُنھوں نے ’’ضیاء اردو‘‘ کے عنوان سے ضیاء فتح آبادی کی شخصیت و شاعری کے حوالے سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ جوکہ ۲۲ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں مشاہیر ادب و نقد نے ضیا ء کی شاعری اور اُن کے فکر و فن کا گیرائی و گہرائی سے مطالعہ کرکے ضیاء کی شاعری کی افہام و تفہیم کی ہے۔ مذکورہ کتاب۲۰۱۶ء میں بک کارپوریشن، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔

کتاب کا پیش لفظ خود مرتبہ کا تحریر کردہ ہے؛ جس میں اُنھوں نے ضیاء کی پید ائش، تعلیم تربیت اور ملازمت کے حوالے سے معلومات بہم پہنچائی۔ اس کے علاوہ ضیا ء کے شاعری اور نثری تخلیقات سے متعلق بھی معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ ’’مختصر سوانحی کوائف‘‘ کے عنوان سے مصنفہ نے ضیاء کا سوانحی تعارف پیش کیا ہے ساتھ میں اُن کے شعری مجموعوں اوراُن کی نثری تصانیف کے نام گنائے ہیں اور آخر میں ضیا ء کو پیش کیے گئے انعامات و اعزازات کا مع تاریخ بیان کیا گیا ہے۔

کتاب کا پہلا مضمون ترقی پسند تنقید کے اہم نقاد علی احمد فاطمی کا لکھا ہوا ہے، جس میں اُنھوں نے ضیا ء فتح آبادی سے اکبر آباد(آگرہ)میں ایک ادبی پروگرام کے تعلق سے اپنے ذاتی مراسم بیان کیے ہیں اور ضیا ء کی ’اردو تہذیب میں ڈھلی‘ہوئی شخصیت کے پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے اُن کی شاعری اور فکر و خیال کی بلندی کو ملحوظ نظر رکھ کر اُنھیں دبستان اکبر آباد کے نامور فرزند قرار دیا ہے۔

چوں کہ مضمون کی ابتدا میں ہی مذکور ہو چکا ہے کہ ضیا ء اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کے قائل تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہندو اور مسلمان دونوں کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ضیاء کی تخلیقات میں ہندوستانی تہذیبی رنگ صاف جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اُن کی فکر میں ترقی پسندی بھی ہے اور عصری حسیت کے اثرات بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری میں رنگ و نسل، مذہب وملت اور ذات پات سے پرے ہوکر دردمندی، اخلاص اور نیک نیتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لاہور، پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے’’ضیا ء فتح آبادی اد ب کا روشن مینارہ‘‘ کے عنوان کے ایک مضمون تحریرکیا ہے۔ جس میں اُنھو ں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس طرح پاکستان میں کرشن چندر، حالی، شبلی، منٹو اور فیض صدیاں منائی گئیں، اُسی طرح ہندوستان میں ایک عظیم رتبہ رکھنے والے شاعرضیا ء کی صدی بھی منانا چاہئیے۔ کیوں کہ ایسے شاعر اپنے دور کے لیجنڈس ہوتے ہیں جن کی حفاظت کرنے سے ہی ہم تاریخ کے اوراق میں زندہ جاویدہوسکتے ہیں۔

 ضیا ء کی شاعری میں انسانی اقدار اور مقصد زندگی کے تعین میں فکر مندی کا درس ملتا ہے۔ وہ’’ انسانیت ‘‘میں ہی ایک انسان کی سربلندی اور کامیابی کو دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک یہ خالق کائنات کا ایک انسان پر احسان ہے کہ اُسے انسان بنا دیا۔ کیوں کہ ایک انسان جب انسانیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ اپنے مقصد کو پہنچ پاتا ہے؛یعنی ایک انسان میں انسانیت موجود ہونے سے ہی اس بات کی ضمانت مل جاتی ہے کہ وہ مذہب اور مقصد حیات کو پہچان سکے گا۔

کافر بنا دیا کہ مسلماں بنا دیا       

فطرت کا شکر کر تجھے انساں بنا دیا

ضیا ء اپنا مذہب ہے تہذیب انسان

نظر میں ہے کاشی تو دل میں مدینا

مذکورہ کتاب میں ’’ضیا ء فتح آبادی کی غزل گوئی‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر اسرار اللہ انصاری نے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ جس میں اُنھوں نے ضیا ء کی شاعری کے دو اہم محور گنائے ہیں۔ ایک محور وہ ہے جس میں ضیا ء نے اپنی زندگی کے بیشتر تجربات، مشاہدات جذبات وخیالات، انسانی آلام و مصائب اور معاملات زندگی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ دوسرا محور محبت ہے۔ ضیا ء کی شاعری خصوصاً غزل میں ایک طرف انسانی زندگی کے مشاہدات بھی ہیں اور دوسری طرف عشق و محبت سے دل کی تمام تر کیفیات کا بیان بھی ملتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی شاعری میں اشاروں کنایوں اور استعارات و تشبیہات سے اپنی شاعری کی کُشادہ دامنی اور اپنی ذہنی کُشادگی کو تصور و تخیل کی حسین اور دلفریب دُنیا سے ہم آہنگ کر دیاہے۔ جس سے اُن کی شاعری میں وسعت پیدا ہوئی۔

 ضیا ء کی فکری صلاحیتوں اور ذوق شعر و ادب اور اُن کے فکری رجحانات سے واقفیت اُن کی شاعری کے مطالعے سے ہوتی ہے۔ اُنھوں نے ’’عروس سخن‘‘ کے نہ صرف گیسو سنوارنے کا کام کیا بلکہ اُنھوں نے اپنے ذوق نظر اور ذوق جما ل سے غزل کی زیب و زینت اور آرائش میں بھی نمایا ں کام انجام دیئے ہیں۔ شاکر حسین تشنہ اپنے مضمون بہ عنوان’’دبستان سیماب کا نایاب تحفہ ضیا ء فتح آبادی‘‘ میں ضیا ء کی غزل کے مزاج و منہاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ :

’’۔ ۔ ۔ اُن کی غزل کے مزاج میں میرؔ کی سادہ پرکاری، غالبؔ کی بصیرت، داغؔ کی شوخی اور جگرؔ و سیمابؔ کا خلوص جذبات کو لفظ اس طرح بکھیرتا نظر آتا ہے کہ اُن کو پڑھنے کے بعد قاری خود ورفتگی کی بھول بھلیوں میں گم ہوجانے کے بجائے خود فراموشی اور خود شناسی دونوں کے متوازی خطوط پر اپنے آپ کو ایک ایسا فکری مسافر محسوس کرنے لگتا ہے جن کے لب پر ایک ہی وقت میں مسکراہٹ بھی ہوتی ہے اور آنکھ میں زندگی کی وہ بے شمار کیفیات بھی جھلکتی ہیں جو دل کی حد تک محسوسات کہلاتی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘(ص، ۵۹)

شاکر حسین کے مطابق ضیا ء شاعری کے فنی رموز پر اس قدر دسترس رکھتے ہیں کہ وہ غزل کی زبا ن اور اس کے لہجے کے رمز شناس معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح اُن کے کلام میں نغمگی و شیرینی، دلکشی و رعنائی، سلاست و حلاوت اور ایک متوازن آہنگ اور مترنم کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ ’’سیماب بنام ضیاء ‘‘ جو کہ اُن خطوط کا مجموعہ ہے جو سیماب اکبر آبادی نے ضیا ء فتح آبادی کے نام لکھے ہیں پر پروفیسر عبد المجید صدیقی نے مضمون تحریر کیا ہے۔ اس مجموعے میں ضیا ء کا فن مکتوب نگاری پر ایک مضمون بھی شامل ہے جس میں اُ نھوں نے خطوط نویسی کے حوالے سے اہم نکات بیان کیے ہیں۔ صدیقی صاحب نے مجموعے کے مطالعے سے سیماب اور ضیا ء کے درمیان اپنائیت اور بے تکلفی اور ایک مضبوط رشتے کو اُجاگر کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سیماب نے ضیا ء کی شخصیت کے حوالے سے جو خصوصیات بیان کیں ہیں، اُن کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ لیکن مذکورہ مضمون میں صدیقی صاحب نے مجموعہ کے مرتب کو سراہتے ہوئے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ ضیا ء کے خطوط جو جواباً  سیماب اکبر آبادی کولکھے گئے ہیں، اُنھیں بھی یکجا کرنے کی کوشش کرے۔ صدیقی صاحب کی اس رائے سے راقم بھی متفق ہے۔ جب دونوں کے خطوط یکجا ہوں تو یقینا دونوں کے درمیان رشتے کے ساتھ ساتھ بقیہ پہلوؤں پر بھی روشنی پڑے گی۔ ندرت نواز نے ’’ضیاء فتح آبادی کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ضیا ء کی شاعری کا مجموعی طور پر جائزہ لیا ہے۔ جس میں اُنھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ضیاء نے محض تجربات کو شاعری کا روپ دیا نہ شاعری میں صرف تجربات پر اکتفا کیا بلکہ اُنھوں روایت کا قائل ہوکر قدیم و جدید شاعری کے سنگم پر کھڑاہوکر شاعری میں اپنے کمالات دکھادیئے۔ لیکن ساتھ میں ناقدین ادب سے شکایت بھی کی ہے کہ ’’ضیا ء آبادی کو زیادہ توجہ نہ کل دی اور نہ آج‘‘(ص، ۶۹)۔ ساتھ میں اُنھوں نے شاگردان ضیا ء سے اپنے مضمون کی وساطت سے باقیات ضیا ء کو ایک کلیات کی شکل میں شائع کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ پروفیسر خالد حُسین نے مذکورہ کتاب میں اپنے مضمون میں جہاں مسلم ادیبوں و شاعروں کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا ہے وہیں اُنھوں نے غیر مسلم ادیبوں اور شاعروں کی ادب نوازی کو بھی سراہا ہے۔ جس میں جگن ناتھ آزاد، تلوک چند محروم، دیا شنکر نسیم، ضیاء فتح آبادی، ایس جین جوہر اور گوپی چند نارنگ شامل ہیں۔ اُن کے مطابق ضیا ء کی شاعری میں کلاسیکیت، رومانیت اور عصری حسیت کا دلکش امتزاج پایا جاتا ہے۔ اُنھوں نے اُن کی شاعری میں دور بینی و دورون بینی اور دانشوری کی ستائش کی۔ خالد حسین صاحب نے ضیا ء کے ۱۰ شعری مجموعوں کے حوالے سے مختصراً تعارف بھی پیش کیا ہے اور ساتھ میں ضیاء کی شاعری کے موضوعی و فنی پہلوؤں پر طائرانہ نگاہ ڈالی۔ اُنھوں نے ضیا ء کی شاعری کے فنی پہلوؤں مثلاً زبان کی نزاکت، بیان کی سلاست اور اسلوب کی نزہت کی طرف بھی اشارہ کیاہے۔

مذکورہ کتاب میں ضیاء کی شاعری کے ایک اہم موضوع یعنی محبت کا بھی تذکرہ ہوا ہے۔ اُن کے یہاں محبت کو سوچ کے خود ساختہ اصولوں میں مقید نہیں کر سکتے۔ اُن کے نزدیک محبت ایک ماروائی طاقت ہے جو ہر مشکل گھڑی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں چند شعر ملاحظہ ہیں۔

کیا بے ہوش کس نے حضرت موسیٰ کو سینا پر

کیا ارجن کو کس نے جنگ سے بے گانہ و مضطر

سکھایا کس نے مجنوں کو خراب دربدر ہونا      

بتایا کوہ کن کو کس نے یوں آشفتہ سر ہونا

کیا پر لہاد کو مجبور کس نے جاں نثاری پر

حقیقت کو دیا درس فنا کس نے عیاں ہو کر

فنا منصور جس پر ہوگیا، آواز اُلفت تھی

چڑھایا دار پر جس نے مسیحا کو محبت تھی

ایک ہندوہونے کے باوجود بھی ضیاء کے دل میں حضرت محمد ﷺ کے دل میں عقیدت و محبت کی موجیں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اُنھوں نے حضور ﷺ کی شان اور عظمت کے تئیں اپنی محبت کا اظہار اپنی شاعری میں کیا ہے۔ چند اشعار:

اخلاق کی تعلیم ہے فرمان محمد      

توحید کا دریا، مئے عرفان محمد

ملتی ہے یہاں روح کو برنائی و تسکین

ہے سایۂ حق، سایۂ دامان محمد

ہر نقش قدم ان کا نشان رہ منزل

سب قافلے والے ہیں ثنا خوان محمد

بہر کیف ضیاء فتح آبادی دبستان سیماب کے ایک اہم اور قابل قدر شاعر ہیں۔ جنھوں نے متنوع ادبی اصناف میں اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اُن کی شاعری فکریاتی و نظریاتی اعتبار سے اُس معیار کو چھوتی ہیں جہاں پر وہ دنیا ئے ادب کا ایک درخشندہ ستارہ کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ناقدین ادب نے ضیا ء کی شاعرانہ عظمت کو بالائے طاق رکھا جس کی وجہ سے اردو شعرو ادب ایک عظیم شاعرکے شعری جہاں سے محروم ہوئی۔ صالحہ صدیقی نے اس ضمن میں ایک اہم کام کیا کہ ’’ضیائے اردو‘‘ کے عنوان سے ملک اور بیرون ملک کے مشاہیر ادب و نقد کے ضیا ء کی شخصیت اور شاعری پر لکھے گئے مضامین کو ترتیب دے کر ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا۔ جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ دُنیاادب کے سامنے ضیا ء کی شاعرانہ عظمت عیاں ہو جائے گی اور اُنھیں ادب میں وہ مقام حاصل ہوجائے جس کے وہ حق دار ہیں۔ اس حوالے سے صالحہ صدیقی کا یہ کام لائق ستائش ہے۔

تبصرے بند ہیں۔