کاروان اردو قطر کے زیر اہتمام سہ ماہی ادبی تقریب!

حسیب الرحمان ندوی (نائب صدر کاروان)

قطر کی ادبی فضا ایک بار پھر اس وقت معطر ہو گئی جب کاروان اردو قطر نے 30 مارچ 2017 کو کرسٹل پیلس ہو ٹل میں سہ ماہی شعری محفل کا انعقادکیا۔ کاروان اردو قطر کی محفلیں دوسری ساری ادبی محفلوں پر بہت سے اعتبارات سے فوقیت رکھتی ہیں ، سرفہرست ان کی جامعیت ہے، جہاں سامعین کرام کی بڑی تعداد کشاں کشاں چلی آتی ہے وہیں شعراء کرام کی نوع بہ نوع نمائندگی اور خواتین کی شرکت اس کی محفلوں کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

30 مارچ کا مشاعرہ اس اعتبار سے بھی قابل ذکر اور پرکشش تھا کہ اس میں کاروان کے عالمی مشاعرہ 2016 کی ڈی وی ڈی کی رسم اجراء تھی۔ اس مشاعرے کی نظامت اگرچہ ڈاکٹر اسلم صاحب کو انجام دینی تھی، لیکن ان کا ساتھ دیتے ہوے کاروان کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خان نے ابتدائی نظامت کے فرائض انجام دیے۔

کاروان اردو قطر کے مشاعرہ کا اسٹیج سج چکا ہے، معزز مہمانان گرامی اپنی اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہیں ، دائیں سے جناب عامر شکیب ،صدر حلقہ ادب اسلامی قطر، بحیثیتمہمان اعزازی، پھر دوحہ کے معروف شاعر اور ادیب جناب ندیم ماہر ،مہمان اعزازی، درمیان میں جناب عظیم عباس ،کاروان کے چیرمین، اور صدر مشاعرہ، پھر جناب شکیب ایاز ،سرپرست تنظیم بہار واڑیسہ وجھارکھنڈ، اور ابتدائی ناظم مشاعرہ جناب محمد شاہد خان ۔

مشاعرہ کا آغاز حسب معمول تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت ہمارے معروف قاری جناب محمد فاروق آسامی ندوی کو حاصل ہوئی، انہوں نے سورہ طہ کی آیات تلاوت فرما ئیں ، اور فضا میں ایک روحانیت اور دلوں پر رقت سی چھا گئی۔تلاوت کلام پاک کے بعد ناظم مشاعرہ نے ترانہ کارواں کے لیے دو معصوم بچیوں بشری فاروق اور انیسہ راشد کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی، یہ دونوں بچیاں اپنی خوش گلوئی میں بہت ممتاز اور معروف ہیں ، انھوں نے راشد عالم راشد صاحب کا لکھا ہوا ترانہ پیش کیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرزمیں قطر پر پائی جانے والی ساری ادبی تنظیموں میں یہ امتیاز بھی غالبا صرف اور صرف کاروان اردو قطر کو حاصل ہے کہ اس کا اپنا ترانہ بھی ہے، جو اپنی لفظیات اور معنویات دونوں میں کاروان کے موقف اور مقصد دونوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے، شاعرنے اس کے لکھنے میں اپنی عالمانہ اور شاعرانہ دونوں صلاحیتوں سے کما حقہ کام لیا ہے، اور اس کے لیے وہ بلا شبہ داد وتحسین کے مستحق ہیں ۔

ناظم مشاعرہ نے صدر کارواں جناب عتیق انظر سے درخواست کی کہ وہ استقبالیہ کلمات سے نوازیں ۔ عتیق انظر صاحب ابھی ابھی ہندوستان کے بقول شخصے دھواں دھار ادبی دورے سے واپس ہوے ہیں ، وہاں انہوں نے متعدد بڑے مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کی تھی، اور گاہے بگاہے فیس بک کے واسطے سے روداد سفر سے نوازتے رہے تھے، ان کی نثری تحریروں میں بھی ان کی نازک خیالی اور ادبی شان بلندیوں پر ہوتی ہے۔ آج پہلا موقع تھا جب براہ راست سامعین کرام نے ان سے ان کی باتیں سنیں ، انہوں نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں جہاں بہت سی قیمتی باتیں کہیں وہیں خاص طور یہ فرمایا کہ نہ صرف بر صغیر میں بلکہ اردو کی نئی بستیوں میں (خلیجی اور یورپی ممالک میں ) اردو کے نام پر جتنی بھی سرگرمیاں ہیں وہ سیمینار اور مشاعروں تک محدود ہیں ، ان سیمینار اور مشاعروں کی بڑی اہمیت ہے اردو کی ترویج میں ان کا اہم کردار ہے، لیکن اردو زبان کی بقاء کے لیے نئی نسل کو اردو سکھانا ضروری ہے اور اس کا اچھا حل یہ ہے ہر محب اردو اپنے کسی ایک عزیز کو اردو سکھانے کی ذمیداری لے لے۔ انھوں نے سیمینار اور مشاعروں کے ساتھ ادب کی دوسری اصناف مثلا ڈرامہ اور داستان گوئی پر بھی توجہ دینے کی بات کہی.

اس کے بعد جناب حسیب الرحمن ندوی نے کاروان کے خدمات کا تعارف کراتے ہوئے ایک مقالہ پیش کیا، جس میں اس کی نثری وشعری کاوشوں کو منظر عام پر لانے میں کاروان کے رو ل کا تذکر ہ کرتے ہوئے بتایا کہ صرف ایک ماہ میں کاروان نے اپنے دو نشریاتی دریچوں میں سے صرف ایک کے ذریعے دو سو سے زائد منظوم کلام، پچاس سے زیادہ شعرا اور ادبا کے خاکے، شعروں اور غزلوں پر باضابطہ تنفید وتبصرہ اور دیگر صنف سخن کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ منفرد ہے۔ اس مقالے میں اشعار کے نمونے تو نہیں تھے، البتہ عتیق انظر صاحب کے سفرنامے سے ایک مختصر سا اقتباس پیش کیا گیا جو سامعین کے لیے حظ کا باعث ہوا۔

اس تعارفی مقالے کے بعد تمام مہمانان کرام کی موجود گی میں ، حاضرین محفل کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ، جناب عظیم عباس اور دیگر مہمانوں کے ہاتھوں عالمی مشاعرہ کی ڈی وی ڈی کا اجرا ہوا، یہ مشاعرہ ایک تاریخی کامیابی کا حامل تھا، جو جشن منور رانا کے نام سے موسوم تھا۔

اب باری شعرائے کرام کی تھی، اور ان کی فہر ست طویل بھی تھی۔ ناظم مشاعرہ جناب ڈاکٹر اسلم خان نے سب سے پہلے جناب سید فیاض بخاری کو دعوت سخن دی، جناب بخاری ،کمال تخلص رکھتے ہیں ، اور اس تخلص کا پرتو ان کے کلام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا ایک شعر تھا :

پیار کے وش کو جب سے چکھا ہے
شہد کی سی مٹھاس ہے ہر پل
ہے جو اوجھل کما ل نظروں سے
ایسا لگتا ہے پاس ہے ہر پل
ایک دوسری غزل سنائی جس میں یہ شعر
ٹھنڈی ٹھنڈی سی فضا میں کچھ تو خوشبو گھول دو
اے رواں ابر بہاراں اپنی زلفیں کھول دو

دوسرے شاعر حناب ڈاکٹر وصی بستوی تھے، جو شاعری کمال کی کرتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنے نام ناول اور افسانے بھی رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کلام سے خوب داد وصول کی، اور سامعین کو اپنی خوش گلوئی سے بھی بہت متاثر کیا۔ ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیں :

تمام شہر ہوا ہے بتوں کا شیدائی
نہ جانے کیسا کرشمہ ہے دست آزر میں
جبین وقت پہ وہ نام لکھ گیا اپنا
کبھی ہوا تھا جنوں موجزن سکندر میں
ایک دوسری غزل جو انھوں نے ترنم سے سنائی اس کا مطلع تھا
تمام رات یہی شغل مجھ کو بھاتا رہا
تمھارا نام میں لکھتا رہا مٹا تا رہا

وصی بستوی صاحب کے بعد جناب راشد عالم راشد کو دعوت سخن دی گئی، تالیوں کی گڑگڑا ہٹ کے ساتھ وہ اسٹیج پر تشریف لائے، اور اپنے مخصوص انداز میں اپنے اشعار سنائے۔

محبت نہ ہوتی، نہ ہوتافسانہ
اگر تیرے جیسا ستمگر نہ ہوتا
حکم ان کا ہے کہ ہر بات پہ جی ہاں کہوں میں
مجھ کو آتا نہیں ہر بات پہ جی ہاں کہنا

جناب راشد عالم کے بعد جناب اشفاق دیشمکھ کو دعوت دی گئی، اشفاق دیشمکھ صاحب نے اپنامزاحیہ کلام سنا کر محفل کو قہقہوں سے گلزار کردیا، اور سامعین کرام خوب محظوظ ہوئے۔ اشفاق دیشمکھ صاحب کی یہ تضمین ملاحظہ فرمائیے

ظلم اتنا نہ کرو مجھ پہ کہ انسان ہوں میں
مت سمجھنا یہ مری جان کہ انجان ہو ں میں
دال سبزی میں مجھے روزملا کر تے ہیں
اب تری زلف پریشاں سے پریشان ہو ں میں

ان کے بعد جناب رویس ممتاز کو دعوت سخن دی گئی، رویس ممتاز صاحب جواں سال شاعر ہیں ، لیکن کلام میں پختگی پائی جاتی ہے، ان کی نظم بطور خاص پسند کی گئی اور سامعین نے خوب داد سے نوازا۔ ملاحظہ فرمائیں
میں کہ سب کہتا ہوں لیکن کچھ نہیں کہتا ہو ں میں
وہ کہ کچھ کہتے نہیں ، پر کیا نہیں کہتے ہیں وہ
میں کہ رہتا ہوں یہیں ، اور ہر کہیں رہتا ہوں میں
وہ کہ رہتے ہر کہیں ہیں ، پر یہیں رہتے ہیں وہ

رویس صاحب کے بعد جناب وزیر احمد وزیر کو دعوت سخن دی گئی، انہوں نے اپنے بہت ہی مخصوص انداز میں اپنی غزل پیش فرمائی، جس کا مطلع تھا :

ترے فراق میں آنکھوں کو اشکبار کروں
یہی ہے تجھ کو گوارا تو بار بار کروں

وزیر صاحب کے بعد جناب آصف شفیع کو دعوت دی گئی، جناب آصف شفیع پانچ شعری مجموعوں کے خالق ہیں ، انہوں نے اپنے کلام سے سامعین کو خوب نوازا۔ ان کے اشعار میں سے یہ ملاحظہ فرمائیں

چشم الفت کے اشارے کی طرف جاتا ہے
میرا ہر خواب ستارے کی طرف جاتا ہے
میں نے چاہا ہے تمھیں اس کو غنیمت جانو
آج کل کون خسارے کی طرف جاتا ہے

ان کے بعد جناب قیصر مسعود کو دعوت دی گئی، قیصر صاحب نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں اپنا کلام پیش کیا، جس میں طنز بھی تھا اور شکوہ بھی، انہوں نے کہا :

یہ سوچ کر کسی کو پکارا تو ہے نہیں
کوئی یہاں کسی کا سہارا تو ہے نہیں
تو نے تو غم بھی مجھ کو بہت ناپ کر دیا
اتنے میں میرے دل کا گزا را تو ہے نہیں

جناب قیصر کے بعد احمد اشفاق صاحب کو دعوت دی گئی، آپ صاحب مجموعہ شاعر ہیں ، اور مشاعروں اور ادبی محفلوں میں آپ کی شرکت رہتی ہے،ملاحظہ فرمائیں ان کا کلام:

مسئلے مشترک ہمارے ہیں
مشترک کوئی رہنما ہی نہیں
چاروں سمتین اداس بیٹھی ہیں
شہر میں جبکہ کچھ ہوا ہی نہیں

ان کے بعد دوحہ کے انتہائی فعال اورمعروف شاعر جناب افتخار راغب کو دعوت سخن دی گئی، آپ نے فرمایا :

منحرف بھی ہو کبھی معمول سے
روز استقبال مت کر پھول سے
پل پڑے یادوں کے لشکر آج پھر
بھولنا چا ہا جو تجھکو بھول سے

ایک دوسری غزل جس نے محفل میں کا فی حرکت پیدا کی وہ اس طرح تھی کہ:
کیا عشق ہے؟ جب ہو جائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
جب ذہن کو دل سمجھا ئے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی

افتخار راغب صاحب کے بعد جناب عزیز بییل کو دعوت دی گئی، آپ اپنی صاف وشستہ شاعری کے لیے معروف ہیں ، آپ کی لفظیات میں شگفتگی اور انفرادیت ہے، ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
عجب طرح سے میں منفصل ہوں ، کہیں کا ہو کر کہیں پڑا ہوں
میں اس طرف آچکاہوں لیکن ابھی تلک اس طرف کھڑا ہوں
کوئی سمندر سمٹ کے بولا کہ مجھ کو کو زے میں بند کردو
اور ایک قطرہ کا زعم یہ تھاکہ میں سمندر سے بھی بڑا ہوں

جناب عزیز نبیل کے بعد دوحہ کے سینیر شاعر حضرت شاد اکولوی کو دعوت دی گئی، آپ دوحہ کی معروف شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں ، آپ کی سرگرمیاں مختلف النوع ہیں ، آپ نے آتے ہی کاروان کی نذر یہ اشعار کیے :
شب تاریک ظلمت کھو رہی ہے
نئی اک صبح روشن ہو رہی ہے
نئی نسلیں وہی کاٹیں گی فصلیں
ہماری نسل جو کچھ بو رہی ہے

اور ایک دوسری غزل بھی سنائی جس کا یہ شعر :
یہ راہ عشق بڑی پر خطر سہی لیکن
تمہارا ساتھ ہو تو حاجت خضر بھی نہیں

جناب شاد اکولوی کے بعد اس بزم کے آخری شاعر، اور کاروان اردو قطر کے بانی وصدر جناب عتیق انظر کو دعوت دی گئی، آپ ا گر چہ تعارف کے محتاج نہیں ہیں ، ادبی دنیا آپ سے خوب متعارف ہے، مقامی اور عالمی مشاعروں میں مسلسل آپ کی شرکت رہتی ہے، لیکن ناظم مشاعرہ نے وفور جذبات کے ساتھ آپ کا مختصر تعارف پیش کیا، اور بڑے ہی والہانہ انداز میں دعوت سخن دی۔ آپ نے فرمایا :

اک تبسم ہی محبت کے لیے کافی ہے
آگ لگ جاتی ہے بس ایک ہی چنگاری سے
اور ایک دوسری غزل میں آپ نے فرمایا :
کشتیوں کا کھیل موجوں کی روانی لے گیا
اک سمندر سارے دریاؤں ک پانی لے گیا
تیغ اور سر دونوں اس کے واسطے لایا تھا میں
عادتا اس بار بھی وہ بد گمانی لے گیا

اور بھارت کے سیاسی تناظر میں یہ شعر کہ:
اب کی ہولی میں نہ جانے کھیل کیا کھیلا گیا
اب کے سب رنگوں پہ بازی زعفرانی لے گیا

جناب عتیق انظر کے کلام کے ساتھ شاعری کا سلسلہ ختم ہوا، اور معزز مہمانان گرامی کو اپنے تاثرات کے اظہار کی دعوت دی گئی۔
سب سے پہلے دعوت دی گئی عامر عثمانی شکیب صاحب کو جنھوں نے مشاعرہ کے تعلق سے اپنے تاثرات پیش کرنے سے پہلے چند اشعار پیش کیے:

چاندنی تو اکیلی کچھ بھی نہیں
رونقیں ہو ں نہ جو ستاروں کی
راہ حق میں عوام سے پہلے
آزمائش ہوئی رسولوں کی
اور ایک دوسری غزل سے
تم اپنے چہرے کو گل کی طرح کھلا رکھنا
دل حبیب کو دھڑکن سے آشنا رکھنا

تاثرات مین انھوں نے تین الفاظ پر زور دیا، شکر، فکر اور ذکر اور ان کی تشریح فرمائی، اور کاروان کے تعلق سے اس کے ذمہ داران کے ناموں سے نیک فال لیا، بامقصد شعر وادب کی دعوت دی، اور دوحہ کے تمام شعراء کے لیے دعا فرمائی کہ وہ مشترک مقاصد میں ایک دوسرے کے دست راست بنیں ۔
جناب عامر شکیبکے بعد دوحہ کے معروف شاعر جناب ندیم ماہر کو دعوت دی گئی، جو کہ اس مشاعرہ کے مہمان اعزازی تھے۔ انھوں کہا :

جسم لے آئے مگر روح وہیں رکھ آئے
سجدے لے آئے وہاں اپنی جبیں رکھ آئے

اور صدر مشاعرہ جناب عظیم عباس کی نذر کرتے ہوئے یہ شعر سنا یا
دیکھ کر تجھ کو نہیں تاب نظر آنکھوں میں
ایسا لگتا ہے نگا ہوں کو کہیں رکھ آئے
اور یہ بھی
آئینے ہیں مسترد اور سارے منظر مسترد
پیاس کے آکے ہماری ہر سمندر مسترد
جو ادب پڑھتا نہیں ، اور شاعری کر تا رہے
ایسا شاعر مسترد، ایسا سخنور مسترد

اپنے منظوم کلام کے بعد جناب ندیم ماہر نے کاروان اردوقطر کے ذمے داران کا شکریہ ادا کیا، کاروان کی خدمات کو سراہا، اسے خوش آئند گردانا، اور کاروان کو ذی علم وذی ادب لوگوں کا ایک مجموعہ قرار دیا۔

جناب ندیم ماہر کے بعد صدر مشاعرہ جناب عظیم عباس کو دعوت دی گئی، اور زور دار تالیوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا۔
انھوں نے اپنی بات بھی منظوم کلام سے شروع کی، کلام برجستہ تھا، اور ان کا انداز بیان بڑا بے تکلف اور دوستانہ رہا، انہوں نے کاروان کو اس کے کامیاب مشاعرہ پر مبارکباد بیش کی، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کامیاب مشاعروں کے متظمین کو بھی اعزاز واکرام سے نوازا جانا چاہئے، وہ اتنی محنتوں سے اتنا بڑا کام انجام دیتے ہیں لہذا سامعین کا فرض بنتا ہے کہ ان کے کاموں کو سراہیں ۔مزید لوگوں کے منفی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے ان سے بچنے کی تلقین کی، اور آپسی شکایتوں کو محبت واحترام کے ماحول میں دور کرنے کی دعوت دی۔ اور کاروان سے متعلق لوگوں کو راہ میں آنے والی دشواریوں اور پریشانیوں کے ساتھ حکمت سے نبٹنے کا مشورہ دیا، اور کاروان کو بین الاقوامی ا سٹیج بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

اخیر میں کاروان کے رابطہ سکریٹری جناب سید رفیع الدین عمری نے بھی اپنی پسند کا شعر سناتے ہوئے مشاعرہ کے اختتام کا اعلان کیا۔

تبصرے بند ہیں۔