یومِ احتساب: بہار اردو اکادمی کی مثبت پیش رفت!

کامران غنی صباؔ

 17 اپریل 1981 کو بہار میں  اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔یعنی اردوکو ’’سرکاری سرپرستی ‘‘میں  36برس گزر چکے ہیں ۔ بہار اردو اکادمی نے اس دن کو ’’یومِ احتساب‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ بہار اردو اکادمی کا یہ قدم لائق ستائش ہے کہ اْس نے اس دن’’ یوم احتساب‘‘ کا انعقاد کر کے عوام و خواص سبھی کو اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگر اہل اردو جذباتیت سے اوپر اٹھ کر اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے خیالات اور تجاویز پیش کریں  تو اکادمی کا یہ پروگرام سمینار اور مشاعرہ سے کہیں  زیادہ مفید اور مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔موقع کی مناسبت سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ’’یومِ احتساب‘‘ میں  انہیں بھی ’’شاملِ احتساب‘‘ کیا جائے گا۔

 بہار ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر اردو زبان کی حالت اس طوائف جیسی ہے جو گھر کی چہار دیواریوں  میں  اپنی حالتِ زار پر خون کے آنسو روتی ہے، سسکتی ہے، تڑپتی ہے، اپنی ذات سے جنگ لڑتی ہے لیکن ’’بازارِ حُسن‘‘ میں  آتے ہی اپنے لبوں  پر مصنوعی مسکراہٹ سجا لیتی ہے کہ کہیں اس کے آنسو اْس کی قیمت کو کم نہ کردیں ۔

بات تھوڑی تلخ ضرور ہے لیکن یہی حقیقت ہے۔ سرکاری سطح پر اردو کے نام پر پیسے بہائے جا رہے ہیں ۔ سمینار اور مشاعروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اردو زبان پھل پھول رہی ہے لیکن زمینی سطح کی حقیقت بہت ہی اذیت ناک ہے۔بڑے اردو اداروں  کے ذمہ داران کے بیشتر اوقات "خلائوں ” میں گزرتے ہیں  اس لیے انہیں  اندازہ نہیں  ہے کہ زمین پر کیا کچھ ہو رہا ہے ؎

تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا

ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے

سرکاری سطح پر اردو کی ترقی کے لیے اردو اداروں کو جو گرانٹ دی جاتی ہے وہ سمینار، مشاعروں ، انعامات اور مسودوں کی اشاعت وغیرہ پر خرچ کی جاتی ہے۔ سمینار اور مشاعروں  سے اردو کا کتنا بھلا ہو رہا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مسودے کی اشاعت کے لیے ملنے والی رقم زیادہ تر ذی حیثیت حضرات کی جیب میں  جاتی ہے۔ انعامات کن لوگوں کو ملتے ہیں ، کون نہیں جانتا۔۔۔۔

  اردو کا مستقبل ہمارے وہ نونہال ہیں  جو اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ۔ اردو کی اصل صورتِ حال کا جائزہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر ہی لیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر پرائیوٹ اسکولوں میں اردو تدریس کا کوئی نظم نہیں  ہے۔ ایسے اسکولوں میں  پڑھنے والے بچوں  کے والدین اور سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر میں ہی اردو تعلیم کا نظم کریں ۔ سرکاری اسکولوں میں اردو کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہے۔ اکثر اسکولوں  میں تو اردو کی کوئی یونٹ ہی نہیں  ہے جہاں  ہے بھی وہاں  یا تو قابل اساتذہ نہیں  یا ہیں بھی تو اپنے فرائض سے غافل۔ اگر سرکاری اسکولوں کا سروے کیا جائے تو میں  یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پانچ فیصد سے زیادہ بچے اپنی جماعت کے معیار کے مطابق نہیں ملیں گے۔پرائمری سطح سے لے کر ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح تک کا نصاب تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اردو کی کتابوں میں کتابت کی بے شمار غلطیاں ہیں اور یہ کتابیں ہر سال اْسی طرح شائع ہوتی ہیں ۔

 سرکاری اسکولوں  کے اساتذہ کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً بلاک سطح سے لے کر ضلعی اور ریاستی سطح تک پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں ۔ جہاں  مختلف موضوعات کے اساتذہ ان کی تدریسی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے نئے نئے طریقۂ تدریس سے واقف کراتے ہیں  لیکن اردو اساتذہ کی تربیت کے لیے ایسا کوئی نظم نہیں  ہے۔ نتیجتاً اردو کے اساتذہ  دورانِ تدریس وہی گھسے پٹے روایتی طریقوں  کا استعمال کرتے ہیں  جنہیں آج کے بچے پسند نہیں کرتے۔ اردو اداروں کو اس جانب بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ آخر اردو کے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کون کرے، یہ ایک اہم سوال ہے۔

 کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر بھی اردو کی حالت اطمینان بخش نہیں  ہے۔ یہاں زیادہ تر ویسے طالب علم داخلہ لیتے ہیں  جو سب جگہ سے مایوس ہو چکے ہوں ۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے شعبۂ اردو میں  طالبات کی بھیڑ ہوتی ہے جن کے والدین اور سرپرست کا اولین مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ انٹر اور بی اے کے بعد ان کے اچھے رشتے آنے شروع ہو جائیں  گے۔البتہ ان میں کچھ محنتی اور ذہین طلبہ و طالبات بھی ہوتے ہیں  لیکن انہیں ترقی کا موقع نہیں مل پاتا۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں انہیں طلبہ و طالبات کو پوچھا جاتا ہے جو پروفیسرز حضرات کی "جی حضوری” کرتے ہیں ۔ پٹنہ یونیورسٹی اس معاملہ میں غنیمت ہے کہ یہاں  کے اساتذہ طلبہ و طالبات کے اندر تحریری و تقریری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاً ادبی پروگرامس اور مقابلوں  کا انعقاد کرتے رہتے ہیں ۔ پٹنہ سے باہر کے کالجز اور یونیورسٹیز کی حالت تو انتہائی تشویش ناک ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں اردو کی حالت کا اندازہ لگانا ہو تو کبھی امتحانات کی کاپیاں  اٹھا لیجیے۔ اگر آپ کی آنکھ سے آنسو نہیں گرے تو سمجھ لیجیے آپ کے اندر اردو کا درد نہیں ہے۔

 اردو ڈائرکٹوریٹ ، محکمہ راج بھاشا(حکومت بہار) کی طرف سے ریسرچ اسکالرز کی حوصلہ افزائی کے لیے مثبت پیش رفت کی گئی ہے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کے ہر پروگرام میں ریسرچ اسکالرز کو بھی اپنے تاثرات پیش کرنے کا موقع دیا جانا، ایک اچھا قدم ہے۔ بہار اردو اکادمی نے بھی اعلان کیا تھا کہ اکادمی ریسرچ اسکالرز کے لیے قومی سطح کا ایک سمینار منعقد کرے گی لیکن اب تک اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں  ہوئی ہے۔ اردو اداروں  کے ادبی رسائل میں بھی ریسرچ اسکالرز کو مناسب نمائندگی نہیں ملتی ہے۔ ریسرچ اسکالرز کا اپنا کوئی رسالہ بھی نہیں  ہے۔ ابھی حال ہی میں دربھنگہ سے ڈاکٹر منصور خوشتر کی ادارت میں ریسرچ اسکالرز کے لیے ایک سہ ماہی ادبی رسالہ "تحقیق” کی اشاعت شروع ہوئی ہے۔ اردو اداروں کو چاہیے کہ جس طرح بچوں  کے لیے "امنگ”، "پیام تعلیم”، بچوں کی دنیا”،”نور” جیسے رسائل نکلتے ہیں  اسی طرح ریسرچ اسکالرز کے لیے بھی الگ سے رسالے نکالے جائیں  جس میں  صرف اور صرف کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کے مضامین شائع ہوں ۔

  اردو کے ادارے ہر سال شعرا و ادبا حضرات کو ان کی خدمات کے لیے انعامات سے نوازتے ہیں ۔ اردو کے سچے خادم مدارس، اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے وہ اساتذہ ہیں  جو طلبہ و طالبات کے اندر ادبی ذوق کو پروان چڑھاتے ہیں ۔ اردو اداروں کو چاہیے کہ وہ ہر سال ریاستی سطح پر اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کو بھی اعزاز سے نوازے۔ اس کے لیے کیا طریقہ کار ہوگا یہ باہمی مشورے سے طے کیا جا سکتا ہے۔

 بہرحال! بہار اردو اکادمی کے سکریٹری مشتاق احمد نوری مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں  نے اردو آبادی کو "احتساب” کے لیے جمع کیا ہے۔ خدا کرے کہ ان کی یہ کوشش بارآور ہو اور اس پروگرام میں زمینی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کچھ اہم فیصلے لیے جا سکیں ۔ محبان اردو سے اپیل ہے کہ وہ اس پروگرام میں لازمی طور پر شریک ہوں  اور تحریری یا تقریری جس طرح بھی ممکن ہو اپنی تجاویز پیش کریں ۔ ایک بار پھر بہار اردو اکادمی اور جناب مشتاق احمد نوری کو پروگرام کے انعقاد پر ڈھیر ساری مبارکباد اور نیک خواہشات   ؎

محتسب کی خیر اونچا ہے اْسی کے نام سے

رند کا، ساغر کا، مئے کا، خم کا، پیمانے کا نام

تبصرے بند ہیں۔