
ڈاکٹر فیاض احمد علیگ
محبت تو جنوں کی آخری منزل سے آتی ہے
حصار ذات سے باہر خرد مشکل سے آتی ہے
…
فضا میں چار سو بکھری ہوئی بارود کی بو ہے
ہوائے زندگی بھی کوچہ قاتل سے آتی ہے
…
وہی عشوہ وہی غمزہ وہی ابرو وہی خنجر
بتا اے زندگی تو آج کس محفل سے آتی ہے
…
سنائی کیوں نہیں دیتی کبھی جھنکار کے آگے
صدائے درد بھی آخر اسی پائل سے آتی ہے
…
شواہد سب مٹا ڈالے گریباں سے گواہی تک
لہو کی بو مگر پھر بھی ید قاتل سے آتی ہے
…
ھجوم یاس میں دل کی تسلی کو غنیمت ہے
ذرا سی روشنی جو پردہ محمل سے آتی ہے
…
بڑے حاتم سخی فیاض تھے کل جو زمانے میں
انھیں کے گھر میں اب روٹی بڑی مشکل سے آتی ہے