اردو کو ووٹ بینک بنانے کی سیاسی کوشش، اردو کی بقا کا متبادل راستہ ہے

پروفیسر اسلم جمشید پوری

365 دنوں پر مشتمل، ایک برس نامی قطرہ2018ء وقت کے وسیع و عریض سمندر میں سمانے کو ہے۔ ایک نیا قطرہ  2019ہمیں بھگو نے کو تیار ہے۔ ایسے موڑ پر ہم اردو والوں کو اپنی زبان کا محا سبہ کرنا چا ہئے۔ زبان ہمارے لیے کیا خدمت انجام دے رہی ہے اور ہم اپنی زبان کے لیے کیا کررہے ہیں۔

  ہر طرف شور ہے اردو کی مقبو لیت میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں وجود میں آ رہی ہیں۔ امریکہ کے متعدد شہر، انگلینڈ، جرمنی، فرانس، تاشقند، ازبیکستان، روس، جاپان، چین، برما، سودی عرب، دبئی، کویت، مصر، سری لنکا، آسٹریلیا، غرض پو ری دنیا میں اردوآب و تاب کے ساتھ سامنے آ رہی ہے۔ ان ممالک میں اردو والوں کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ یہاں بین الاقوامی مشاعرے، شام غزل، جلسے، سیمینار اور کتابوں کے اجرا عمل میں آ رہے ہیں۔ اخبارات اور رسائل نکل رہے ہیں۔ ریڈیو سروسزبھی کام کررہی ہیں۔

  ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں تو اس زبان کی جڑیں مزید گہری ہوتی جارہی ہیں۔ ہمارے یہاں Multi Editional News Papersشائع ہو رہے ہیں۔ انقلاب، راشٹریہ سہارا، صحا فت، ہمارا سماج، قومی تنظیم، فاروقی تنظیم اور کئی اخبارات کئی کئی شہروں سے ایک ساتھ شا ئع ہورہے ہیں۔ سہ ماہی رسائل کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ پرا نے رسائل نئی آ ب و تاب کے ساتھ اشاعت کے مراحل طے کررہے ہیں۔

  کتابوں کی تعداد اشاعت میں اضا فہ ہوا ہے۔ خوبصورت اور دیدہ زیب سر ورق، ہلکے وزن کے کاغذ اور بہترین چھپائی کے ساتھ اردو میں ایسی کتابیں شائع ہو رہی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ عرشیہ پبلی کیشنز، برا ئون بکس، ایم آر پبلی کیشنز، کتابی دنیا، ارم پبلی کیشنز، تخلیق کار پبلشرز وغیرہ نے اردو میں اشاعت کے کارو بار کو نئی سمت عطا کی ہے لیکن آج بھی اردو کا سب سے بڑا پبلشر ایجو کیشنل پبلشنگ ہا ئوس ہی ہے۔ ایجو کیشنل نے بھی نئی ٹیکنا وجی کا استعمال کرتے ہوئے خوبصورت کتابیں شائع کی ہیں۔ سر کاری اداروں میں قو می کونسل، مغربی بنگال اردو اکا دمی، اتر پردیش اردو اکا دمی، مدھیہ پردیش اردو اکا دمی، بہار اردو کا دمی، ساہتیہ اکا دمی، نیشنل بک ٹرسٹ وغیرہ کی کتابیں بھی شاندار گیٹ اپ کے ساتھ منظر عام پر آ رہی ہیں۔

2018ء سمیت گذشتہ برسوں میں سیمیناروں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ قومی، بین الا قوامی، صوبائی اور علاقائی سطح پر اردو کے سیمیناروں میں قدرے اضا فہ ہواہے۔ ان میں سے زیادہ تر اردو ادب اور شخصیات کے موضوع پر منعقد ہو رہے ہیں۔ ورک شاپ، سمپو زیم، جلسے وغیرہ کے انعقاد سے ایسا محسوس ہو تا ہے گویا اردو ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ اب داغ کا شعر صادق آرہا ہے؎

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

ایک اندا زے کے مطابق ہندوستان میں علا قائی، صوبائی، قومی اور بین الا قوامی سطح کے تقریباً2000سیمینار ہر سال منعقد ہو تے ہیں۔

 ایوارڈز، انعا مات کا سلسلہ بھی خوب ترقی پر ہے۔ پہلے چند انعا مات کے نام سنے جاتے تھے۔ اب انعامات کی تعداد اتنی ہو گئی ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں، ساہتیہ اکا دمی ایوارڈز، غالبؔ ایوارڈز، اکا دمیوں کے انعا مات کے علاوہ متعدد انعامات شروع ہوئے ہیں۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں دیے جانے والے متعدد انعا مات، جہاں بزرگ نسل کی خدمات کا حق ادا کررہے ہیں وہیں نئی نسل کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

ادبی شخصیات، شاعر، افسا نہ نگار، ناول نگار، ناقد وغیرہ کی خد مات پر مشتمل کتب شا ئع ہو رہی ہیں۔ مختلف رسائل کے خصوصی شمارے، گوشے، مٹھی بھر غزلیں، اس شمارے کا شاعر، وغیرہ کی اشاعت بھی شدو مد سے جاری ہے۔ یہی نہیں سیمیناروں میں پڑھے گئے مقالات کی اشاعت کے معاملے میں کا فی تیزی آ ئی ہے۔

  قومی کو نسل برا ئے فروغ اردو زبان، ریاستی اکا دمیاں اور دیگر پرا ئیویٹ ادا رو ں کے اردو کوچنگ اسکول اور اردو مراکز کا ایک جال ہندو ستان میں پھیل رہا ہے۔ ہزاروں ایسے اردو سکھانے کے مراکز سے ہر سال لاکھوں نئے طالب علم اردو سیکھ رہے ہیں۔

لائبریریوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضا فہ ہوا ہے۔ قومی اردو کونسل اور اکا دمیوں نے جب سے اردو لائبریریوں کو امداد دینا شروع کیا ہے، اردو لائبریری اور کتب خا نوں میں اضا فہ ہو تا جا رہا ہے۔

  سو شل میڈیا کی بات کریں توحیرانی ہو تی ہے کہ در اصل آج کے عہد میں اسی میڈیا نے اردو کے فروغ کو قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی تقویت عطا کی ہے۔ آج فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ہزاروں صفحات، گروپ، ادارے، رسالے، اخبارات، آڈیو خبر نامے، ویڈیو چینلس کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ جشن اردو، جشن اردو افسانہ، عالمی اردو افسانہ میلہ، غزل مقابلہ، طرحی مشا عرہ، وغیرہ بے شمار ایسے سلسلے ہیں جن کی موجودگی سے اردو ہر طرف نظر آرہی ہے۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا، مو بائل وغیرہ پر اردو رسم الخط کا استعمال بھی بڑھا ہے۔ اردو چینل نے اس سلسلے میں کافی بہتر کام انجام دیے ہیں۔ وہاٹس ایپ پر اردو چینل نے مسلسل پورے سال ادب کی اہم معلو مات عوام تک پہنچائی ہیں۔

  سوشل میڈیا کے علاوہ زمینی سطح پر اردو کی مقبو لیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں کی طرح امسال بھی جشنِ اردو، جشنِ ریختہ، جشنِ وراثت، (دہلی اردو اکادمی) کراچی عالمی اردو کانفرنس نے عوامی سطح پر کافی مقبولیت حاصل کی۔ ان جشن اور بڑے جلسوں سے اردو کی کثیر رنگی حیثیت میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ ان جلسوں میں مشاعرے، گفتگو، قوالی، کتابوں کے اجرا۔ کتاب میلہ کے علاوہ ایک بڑا ثقافتی میلہ بھی منعقد ہو تا ہے۔ تین تین دن اور ایک ایک ہفتے تک چلنے وا لے یہ جشن اور ان میں محبانِ اردو کا جم غفیر دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔

  گذشتہ برسوں کی طرح گذرتے ہوئے سال  2018نے ہمیں اردو کے فروغ کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اردو کی مقبو لیت کے شور وغو غا میں ہم اس کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے۔ جو بچے ایم۔ اے، ایم فل تک پہنچ رہے ہیں، ان میں بھی زیا دہ تعداد مدارس اور پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے وا لوں کی ہے۔ مدارس کے طلبہ تو عربی، فارسی پس منظر سے آ تے ہیں تو ان کی زبان بہتر ہوتی ہے۔ وہ تھو ڑی سی سنجیدگی اختیار کرتے ہیں تو بہت بہتر طا لب علم ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن پرا ئیویٹ، بی اے اور ایم اے کرنے وا لے طالب علم اردو میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی بنیاد بھی کمزور ہو تی ہے۔

 در اصل اس کی جڑ پرائمری سطح کی تعلیم میں پیوست ہے۔ جنوب کی کچھ ریاستوں اور کشمیر، بہار، بنگال کو تھو ڑی دیر کے لیے الگ کردیا جائے تو اردو میں پرا ئمری کی تعلیم کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ اتر پردیش، ہریانہ، پنجاب، اترا کھنڈ، را جستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اڈیسہ وغیرہ ریاستوں میں پرائمری سطح پر اردو کا نظم بہت ہی ناقص ہے۔ زیادہ تر ریاستوں میں اس سطح پر اردو ہے ہی نہیں، جہاں ہے، وہاں طا لب علم نہیں اور جہاں طالب علم ہیں وہاں اردو کے مستقل استاد کی کمی ہے۔ پھر سو نے پر سہا گہ یہ کہ سر کاری اسکولوں میں اردو کی کتب کی فراہمی بھی کم کم ہے۔ غیر سرکاری پرائمری اسکولوں میں اردو، سرکاری سطح کے اسکولوں سے بہت اچھی صورت میں نہیں ہے، ہاں وہاں انگریزی کے انداز میں خوبصورت اور رنگین کتب کا استعمال ضرور ہو تا ہے۔ پرا ئمری سطح سے بی اے، ایم اے اور تحقیق تک آ تے آتے اردو کے طا لب علموں کی تعداد میں بتدریج کمی ہو تی جاتی ہے۔

غیر مسلم طلبہ و طالبات کے فی صد میں بھی کمی آئی ہے۔ شعرا، ادبا، ناقد و محقق میں بھی اب غیر مسلم حضرات کا فقدان ہے کیو نکہ نئی نسل اس طرف نہیں آرہی ہے۔ پروفیسر نارنگ، رتن سنگھ، گلزاردہلوی، گلزار، کے ایل نارنگ ساقی، چندر شیکھر، بلراج بخشی، رینو بہل، دیپک بدکی، جیسے لوگ تبرک کے طور پر ہیں۔ ان کے بعد کی کو ئی نسل اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔

 قومی اردو کو نسل اور اکا دمیوں کے اردو مراکز اور اردو کو چنگ اسکول سے ایک امید زندہ ہو ئی تھی کہ ان کے خاطر خواہ اثرات قائم ہوں گے اور نئے لوگ اردو کی طرف آ ئیں گے۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہزاروں ایسے مراکز سے فارغ ہو نے والے لا کھوں طلبہ کہاں گم ہو جاتے ہیں، ان میں زیا دہ تر کا مقصد زبان سیکھنا نہیں ہو تا بلکہ سند اور اسکا لر شپ حاصل کرنا ہو تا ہے۔ یہی با عث ہے کہ فرا غت کے بعدیہ زبان سے تعلق قائم نہیں رکھ پا تے ہیں۔

 اردو اخبارات کے متعدد ایڈیشنز سامنے آ رہے ہیں۔ اخبارات کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ مگر اردو کی ریڈرشپ میں مناسب اضا فہ نہیں ہو رہا ہے۔ ایک سر وے کے مطابق یوپی کے اکثر شہروں کے مسلم علا قوں میں اردو اخبارات سے زیادہ امر اجالا اور دینک جاگرن پڑھے جاتے ہیں۔

  یو نیورسٹی، کالج، ریڈتو اسٹیشن، دور درشن، سرکاری ادارے، سر کاری رسائل وغیرہ میں اردواساتذہ اور دیگر آسامیاں بھری نہیں جا رہی ہیں۔ فخر الدین علی احمد میمو ریل کمیٹی اور ملک کی متعدد اکا دمیوں میں اردو کی جگہیں برسوں سے خالی کی خالی پڑ ی ہیں۔ حد تو یہ ہو گئی ہے کہ اردو اکا دمیوں اور دوسرے اداروں میں جو ممبران رکھے جا رہے ہیں ان میں بیشتر اردو سے نا واقف ہیں۔ یہی نہیں اردو ادارے اپنا کام کاج انگریزی اور ہندی میں کررہے ہیں۔

 مشاعروں کا بھی عجب حال ہو گیا ہے۔ واہ، واہ، کیا بات ہے، مکرر، کیا مصرعہ ہے، جواب نہیں، مصرعہ اٹھانا جیسے مشاعرہ سننے کے آ داب اب غا ئب ہو تے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ داد کی بھیک مانگنا، تالیاں بجانا، ہندی میں کلام لکھ کر لانا، کسی غیر ادبی شخص کی صدارت، عام سی بات ہو تی جا رہی ہے۔ سیمیناروں کے احوال سے بھی سب واقف ہیں۔ روز بہ روز گرتا معیار، غیر معیاری مقا لے، سوالات سے عاری سیشن۸۰ فیصد سیمینار، اپنے مو ضوع کا مکمل احا طہ بھی نہیں کر پاتے۔

  پو رے ملک میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد میں خا طر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے۔ سر کاری اسکولوں میں ہندی کے ساتھ سنسکرت پڑھا ئی جا رہی ہے۔ یہ معاملہ کم و بیش ملک کے بڑے حصے میں ہے۔ ہم اردو والے حسین منظر ناموں میں کھو ئے جشن تک محدود ہو تے جا رہے ہیں۔ مشا عروں میں بے شمار سامعین میں سے اکثر اردو رسم الخط سے نا واقف ہیں۔ مشاعروں اور پرو گرا موں کے بینر، مسجدوں، قبرستانوں، شادی گھروں کے بورڈ ہندی اور انگریزی میں تیار ہورہے ہیں۔

   2018ء میں ان حالات میں ہم سو رہے ہیں۔ نئے سال  2019میں ہمیں چا ہئے کہ ہم اردو کی جڑوں ( پرائمری سطح کی تعلیم) کو پانی دیں۔ پرائمری سطح سے اعلی تعلیم کے ادارے اور مدارس کے ذمہ داران ایک پلیٹ فارم پر بیٹھیں۔ مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کریں۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاسی سطح پر اردو کے لیے کام کیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلم علاقوں میں اردو میں تشہیر کریں۔ اردو کی سوجھ بوجھ رکھنے والے امید وار میدان میں آئیں اور اردو کو ووٹ بینک بنایا جائے تا کہ ایکPressure Group بن سکے۔ ایم پی، ایم ایل اے حضرات  کے پانچ سال کے کاموں میں اردو کے مسائل بھی ہوں۔ جب ایسا ہوگا تو اردو کے مسائل خود بخود حل ہوں گے۔ نئے سال  2019پر ہم اپنی زبان کے لیے ضرور کوئی منصوبہ بنائیں اور اس پر عمل کریں، تاکہ نئے سال 2019ء کا استقبال با معنی ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔