امامت ونیابت نااہل کے سپرد کرنا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت میں خیانت ہے !

ندیم احمد انصاری

امامت و نیابت کے الفاظ کا مفہوم وسیع تر ہے ، لیکن ہم یہاں خاص فرض نمازوں کی امامت اور نیابت سے متعلق چند باتیں عرض کریں گے ۔ نماز اسلامی عبادات میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ، تو ظاہر ہے کہ اسے ادا کرنے کے لیے مخصوص شرائط بھی ہوں گی اور واقعی ہیں، جو کہ کتبِ حدیث و فقہ میں مفصل مذکور ہیں، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اسلام میں فرض نمازوں کی ادایگی کے لیے مَردوں کو ایک خاص حکم دیا گیا ہے کہ تمام بالغ مرد کوئی شرعی عذر نہ ہونے کی صورت میں فرض نمازیں مسجد میںآکر جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اس کا اہتمام عہدِ نبوی سے آج تک نہایت اہتمام سے کیا جاتا رہا ہے ، جس کے پیشِ نظر مسلمان آبادی کے لحاظ سے مستقل مسجدیں تعمیر کرتے ہیں اور معین شخص کو امامت وغیرہ کے منصب پر فائز کرتے ہیں، جس میں عامۃً کوشش کی جاتی ہے کہ امام صاحب کسی مستند دینی درس گاہ کے فارغ التحصیل عالم فاضل ہوں اور اگر کوئی مفتی صاحب امام ہو جائیں تو کیا ہی اچھا۔ نماز کی صحت کے لیے چوں کہ نماز اور اس کے متعلقہ مسائل کا جاننا ضروری ہے ، اس ضرورت کے پیشِ نظر یہ شرطیں لگائی جائیں تو مفید بھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی درست نہیں کہ حافظ، قاری، عالم اور مفتی کے سوا کوئی مسلمان امامت کی ذمے داری کا اہل نہیں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن احادیث میں نمازِ جماعت کی تاکید کی ہے ، وہاں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی، البتہ احادیث میں ’اقرأ‘ (بہتر قرآن پڑھنے والے)اور کتبِ فقہ میں ’أعلم‘ (نماز اور اس کے متعلقہ مسائل زیادہ جاننے والے) کو امام بنانے کی تاکید وارد ہوئی ہے ، جس کا مقصد ظاہر ہے کہ صحت و درستگی کے ساتھ نماز کی ادایگی ہے ۔ پر افسوس کہ فی زمانہ امام کے لیے اہلیت و صلاحیت کے بجاے سستے داموں میں مہیا ہونے والے اشخاص کو مع کاغذ کی سندوں کے امامت کا عظیم منصب سپرد کر دیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے بعض مقامات پر ایسے افراد امامت کرتے نظر آتے ہیں جو نہ قرآن کادرست تلفظ کر پاتے ہیں اور نہ دینی مسائل سے واقفیت رکھتے ہیں۔بعض جگہوں پر امام کے لیے تو کچھ باتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے لیکن اس کی غیر موجودگی میں امامت کی ذمّے داری انجام دینے والے یعنی نائب میں ان شرائط کو ضروری خیال نہیں کیا جاتا، حد تو یہ ہے کہ یہ عظیم منصب صاف صفائی کرنے والے مسجد کے اس خادم کے سپرد کرنے میں بھی عار محسوس نہیںکی جاتی جو طہارت وضو تک کے مسائل سے واقف نہیں ہوتا۔ کہیں کچھ خاص اہتمام کرتے ہیں تو مؤذن حافظِ قرآن رکھ لیتے ہیں، جب کہ امامت کے لیے پورے قرآن کا حفظ ہونا ضروری نہیں بلکہ نماز کے ضروری مسائل جاننے کے ساتھ فقط قرآن کا درست پڑھنا ضروری ہے ۔
ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جب کہیںتین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرائے اور ان میں سے سب سے زیادہ امامت کا مستحق وہ ہے ، جو قرآن کو زیادہ اچھے طریقے سے پڑھتا ہو۔(مسلم: 672)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگوں کا امام ایسا شخص ہونا چاہیے ، جو قرآن کا زیادہ علم رکھتا ہو، اگر اس وصف میں (کئی ) لوگ برابر ہوں، تو پھر وہ شخص امام بنے ، جسے سنتِ نبویﷺ کا زیادہ علم ہو، اگر اس میں بھی (کئی) لوگ برابر ہوں تو پھر وہ امام بنے ، جو ہجرت کرنے میں مقدم ہو اور اگر اس میں بھی (کئی) لوگ برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جو عمر میں زیادہ ہو۔(مسلم:383)یہ سب شرائط اس لیے عائد کی گئیں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے ۔جیسا کہ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:امام ضامن ہے ۔ (ابوداؤد:517)
خلاصہ یہ کہ امامت کے لیے سب سے زیادہ اولیٰ وہ شخص ہے ، جو نماز کی صحت و فساد کے احکام و مسائل زیادہ جانتا ہو، اگرچہ باقی علوم میں وہ پوری دست گاہ نہ رکھتا ہو، یا بالکل نہ جانتا ہو اور کوئی دوسرا شخص دوسرے علوم میں اس سے زیادہ متبحر ہو۔ یہ حکم اُس وقت ہے ، جب کہ اس کو اتنا قرآن یاد ہو، جس سے قرأت کی سنت ادا ہو جائے ۔(عمدۃ الفقہ:2/203)امام علم و تقوے کی صفات سے جتنا زیادہ مزین ہو تو یہ خصوصیت متصوِّر ہوگی، تاہم عمومی طور پر امام کے لیے مندرجۂ ذیل صفات سے متصف ہونا ضروری ہے : (۱) اسلام (۲) بلوغ (۳) عقل (۴) مرد ہونا(۴) علمِ قرأت کا بقدرِ ضرورت جاننا اور (۵) اعذار سے سلامت ہونا۔ امامت کے لیے مستقل علومِ دینیہ سے فراغت ضروری نہیں، جب قرأت پر قدرت رکھنے کے بعد نماز کے مسائل سے واقف ہو تو عالمِ دین کے ہوتے ہوئے بھی اس کی اقتدا میں کوئی حرج نہیں۔ (عالمگیری:1/83،فتاویٰ حقانیہ:3/149-152 )
جو حکم امامت کا ہے ، وہی نیابت کا بھی ہوگا، اس لیے کہ یہ نیابت امامت کی ذمّے داری انجام دینے کے لیے ہی ہے ، نیز یہ ذمّے داری سب متولیانِ مسجد اور با اختیار افراد کی ہے ، جس میں رنگ و نسل اور نسب و علاقے ‘ کسی طور پر تعصب کی گنجائش نہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا۔ (مسلمانو) یقیناً اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔ (النساء:58)
اس آیت کے ذیل میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے ، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدے کے لیے اپنے دائرۂ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں،پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے ۔ایک حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمے داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا، اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے ۔(جمع الفوائد، ص:523)
بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا، حالاں کہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی۔ آج جہاں نظامِ حکومت کی ابتری نظر آتی ہے وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ ہے کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلقِ خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظام حکومت برباد ہوجاتا ہے ۔اسی لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا :جب دیکھو کہ کاموں کی ذمّے داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں، قیامت کا انتظار کرو۔ یہ ہدایت صحیح بخاری کتاب علم میں ہے ۔(معارف القرآن:2/446-447)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔