محمد تنزیل کی قربانی ہیمنت کرکرے سے کم نہیں

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے انسپکٹر محمد تنزیل کی شہادت کے چوتھے دن ان کی اہلیہ بھی زخموں کی تاب نہ لاکر جانبرنہ ہونے کی افواہ پھیل گئی تھی۔ اتنے بڑے تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ایک عہدیدار کو 24گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اس کا خاندان ختم ہوجاتا ہے۔ مگر نیشنل میڈیا پر نہ تو اس پر کوئی بحث ہوتی ہے نہ ہی کہیں کوئی کینڈل مارچ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کی بجائے بھگوڑے یوگی یا ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کی بکواس پر بحث کی جاتی رہی۔ سوشیل میڈیا پر یہ بحث ضرور چھڑی کہ کیا محمد تنزیل کی قربانی ہیمنت کرکرے سے کسی قدر کم ہے؟ 26/11 ممبئی حملے میں شہید ہونے والے ہیمنت کرکرے کو جس طرح سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے آخر کیوں؟ محمد تنزیل کی قربانی کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے جبکہ خود حکومت یا تحقیقاتی اداروں کا یہ دعویٰ ہے کہ محمد تنزیل انڈین مجاہدین کا شکار ہوئے ہیں۔
محمد تنزیل ایک فرض شناس پولیس آفیسر تھے اور وہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل تھے۔ پٹھان کوٹ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ پنجاب کا ایک علاقہ ہے جہاں ایرفورس اسٹیشن پر 2؍جنوری 2015ء کو ہندوستانی فون کے لباس میں دہشت گردوں نے حملہ کردیا تھا جوابی کاروائی یا جھڑپ میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں چار حملہ آور تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی دہشت گرد تنظیم جیش محمد سے تعلق رکھتے تھے۔ پٹھان کوٹ واقعہ پر اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں اس کی کڑیاں سپرنٹنڈنٹ پولیس پنجاب سلویندر سنگھ سے بھی ملتی ہیں۔ جنہوں نے اس واقعہ سے تین دین پہلے 31؍دسمبر 2015ء کو اپنے اغوا ہونے کا مبینہ طور پر ڈرامہ رچایا تھا۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت ہوا جب ہند۔پاک تعلقات ایک خوشگوار دور میں داخل ہونے والے تھے۔ دو ہمسائے ممالک کو ایک دوسرے سے ہمیشہ دور رکھنے کے لئے کوشاں طاقتیں یقینی طور پر ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ وہ پٹھان کوٹ بھی گئے اور پاکستان واپس جانے کے بعد انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہندوستان پٹھان کوٹ واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اسی دوران محمد تنزیل احمد کو شہید کردیا جاتا ہے۔ جس سے کئی شکوک و شبہات ابھرتے ہیں۔ این آئی اے سے وابستگی خود ایک اعزاز ہے۔ فوج ہو یا پولیس مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ایک ایکٹ کے تحت 2008 میں قائم کی گئی تھی۔ بہرحال یہ ایک اہم ادارہ ہے۔ جس سے وابستہ ایک عہدیدار کی ہلاکت خود سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ کہ ڈی آئی جی کی قیادت میں اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ٹیم لکھنؤ سے بجنور پہنچ چکی ہے۔ دیکھنا ہے کہ حقائق سے پردہ کب اٹھایا جاتا ہے۔ محمد تنزیل کے قتل کے پیچھے کون ہے؟ اپنے یا غیر آج نہیں تو کل پتہ چل جائے گا یا پھر کسی تحریک یا تنظیم کو اس کے ذمہ دار قرار دے کر خاموشی اختیار کرلی جاسکتی ہے‘ یہ کہا نہیں جاسکتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند برس پہلے اترپردیش کے ڈی ایس پی ضیاء الحق کو بھی بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا اور سی بی آئی نے اس قتل میں ملوث ببلو یادو اور تین افراد کو گرفتار کیا تھا۔ گرام پردھان، ننھے یادو کی ہلاکت کی خبر سن کر ضیاء الحق اس کے گھر پہنچے تھے کہ وہاں موجودہ گرام پردھان کے حامیوں نے انہیں بڑی دردی سے زدوکوب کیا تھا اور ببلو یادو نے انہیں گولی مار دی تھی۔
پانچ چھ سال پہلے حیدرآباد میں سی آر پی ایف کے اعلیٰ عہدہ پر فائز آئی پی ایس آفیسر قیوم خان کو ایک جوان نے گولی مارکر ہلاک کردیا تھا تاہم تحقیقات کے دوران اس جوان کو ذہنی تناؤ کا شکار قرار دیا گیا۔جبکہ پولیس کانسٹبل عبدالقدیر نے 1990ء میں اے سی پی ستیہ کو گولی ماری دی تو انہیں لگ بھگ 25برس تک جیل میں سڑایا گیا اس دوران وہ اپنے ایک پیر سے محروم بھی ہوگئے۔ تحقیقات اور رویہ میں امتیاز عام مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ پولیس میں بھی یہ شکایت عام ہے۔
جب کبھی فسادات ہوتے ہیں‘ یا بے مسلمانوں کوگرفتار کیا جاتا ہے تو اس کے لئے پولیس فورس میں مسلم نمائندگی کے قابل نظر انداز تناسب کو ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تقسیم وطن کے بعد پولیس اور فوج دونوں ہی میں مسلم نمائندگی بہت کم ہے بلکہ اس میں بتدریج کمی آرہی جارہی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق 2013ء تک ملک بھر میں 17لالکھ 31ہزار پر مشتمل پولیس فورس میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ آٹھ ہزار یا 6.27فیصد ہے۔ 2007 ء میں مسلم تناسب 7.55 تھا۔ اگر ایک طائرانہ جائزہ لیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم نمائندگی کا تناسب پولیس فورس میں کیا ہے۔ این سی آر بی کی 2006کے رپورٹ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلم آبادی اکثریت میں ہے 76805 پولیس فورس میں مسلمانوں کی تعداد 46250 یعنی 60فیصد ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر غیر تقسیم شدہ یا متحدہ ریاست آندھراپردیش کا نمبر تھا جہاں 10فیصد مسلمان پولیس فورس میں تھے۔ ریاست کی تقسیم کے بعد آندھراپردیش میں مسلم تناسب گھٹ چکا ہے۔ دہلی میں 75ہزار ایک سو سترہ کی فورس میں مسلم تعداد صرف 1521 یعنی 2فیصد تھی۔ گذشتہ 10برس میں اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہوگا یہ توقع نہیں کی جاسکتی۔ اعلیٰ سطحی مسلم عہدیداروں کی تعداد تو انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ یوں تو مختلف گوشوں سے کوشش کی جارہی ہے کہ مسلم نوجوان پولیس اور فوج میں شامل ہوں اس کے لئے بعض این جی اوز کی جانب سے تربیتی کیمپس کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجہ میں مسلم کانسٹبلس کے تقررات عمل میں لائے گئے ہیں۔ جبکہ اعلیٰ عہدوں پر مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس میں شامل مسلمانوں نے ہمیشہ فرض شناسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جرائم کا خاتمہ ہو یا مجرموں سے مقابلہ مسلم جوان ہو یا انسپکٹرس ان کا ریکارڈ بڑا اچھا رہا۔ یہ اور بات ہے کہ انہیں اکثر و بیشتر امتیازی سلوک، تعصب کے شکار رہے ہیں۔ غیر اہم عہدوں پر تقررات خطرناک مقامات پر تبادلوں کی شکایت عام رہی ہے۔
پولیس کا محکمہ بلاشبہ باوقار ہے۔ جرم کے خاتمے اور ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل انصاف کے حصول کے لئے پولیس ناگزیر ہے۔ مگر ابتداء ہی سے مسلمان پولیس اور وکالت سے دور رہے ہیں۔ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ محکمہ پولیس اپنی بہتر کارکردگی سے اتنی نیک نامی حاصل نہ کرسکا جتنی بدنامی اس کے حصہ میں آئی ہے۔ چند بدعنوان، تعصب پسند عناصر کی وجہ سے پورا محکمہ بدنام ہوتا رہا ہے۔ یہی حال وکالت ہے کہ اس کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کرادی گئی ہے کہ ایمانداری اور سچائی سے اس پیشہ میں کامیابی ممکن نہیں۔ اور یہ حقیقت نظر بھی آتی ہے کہ بیشتر محافظ قانون خود قانون شکن بن جاتے ہیں۔ اور انصاف سچائی کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں۔ بہرحال دونوں پیشوں سے مسلمان وابستہ رہے ہیں‘ اور بعض نے اپنی صلاحیت، فرض شناسی سے نیک نامی بھی حاصل کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج ہر شعبے میں مذہب، ذات پات، علاقہ واریت ہی کا سکہ چلتا ہے۔ سچائی ، ایمانداری، قابلیت سے زیادہ چہرے دیکھ کر فیصلے ہوتے ہیں۔ اور پولیس میں بھی سچائی کو جانتے ہوئے بھی اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ جہاں آنکھوں کے سامنے قاتل ہوتا ہے اس کے خلاف ثبوت بھی ملتے ہیں‘ پھر ثبوت مٹ جاتے ہیں خاطی کو کلین چٹ مل جاتی ہے۔
محمد تنزیل کی شہادت کیا رائیگاں جائے گی سوشیل میڈیا پر کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعظم خاں کی بھینسیں چوری ہوجاتی ہیں تو پولیس فورس حرکت میں آتی ہے اور مگر نہ تو محمد اخلاق کے ورثاء کو اخلاقی تعاون ملتا ہے اور نہ ہی اِن جیسے گمنام افراد کو جو کسی نہ کسی بہانے سے نفرت، دشمنی اور تعصب کے بھینٹ چڑھادےئے جاتے ہیں‘ انہیں انصاف ملتا ہے۔ ہیمنت کرکرے اور ان کے ساتھی ماتحتین کی قربانیوں کو ہم سلام کرتے ہیں جنہوں نے اپنے وطن عزیز کے لئے دشمنوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ محمد تنزیل کی قربانی کسی بھی طرح سے ان سے کم نہیں ہے۔ انہیں لاکھ خراج عقیدت پیش کیا جائے وہ یا ان کی اہلیہ تو دوبارہ اس دنیا میں واپس نہیں آسکتی مگر ان کی قربانیوں کا اعتراف، خراج عقیدت آج کے ماحول میں ضروری ہے۔ یہ نفرت کے سوداگروں اور امن کے دشمنوں کا جواب ہوگا جو سرحد کے پار بھی ہیں‘ اور ہمارے اپنی صفوں میں بھی شامل ہیں جنہیں داڑھی والے اے ایس آئی یونس خاں کانٹے کی طرح آنکھ میں کھٹکتے ہیں جنہیں مشتعل ہجوم زدوکوب بھی کرتا ہے اور ان کے مذہبی عقائد کے خلاف نعرے لگانے پر بھی مجبور کرتا ہے مگر اِن فرقہ پرستوں، دیش دشمنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔