سالِ رفتہ کے قلوبِ خستہ سے اوراق آہ وفگاں

عیسوی سال کی کرنیں حال ہی میں نمودار ہوئیں۔ سالِ گزشتہ میں ہم نے بہت سے اُتار چڑھائو دیکھے۔ کہیں پر امن دیکھا تو کہیں بارود کی بو محسوس کی، کہیں خوشیاں دیکھیں تو کہیں غم کے بادل ہی بادل نظر آئے۔ غرض سال دوہزار سولہ بھی حسبِ دستور اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے شب وروز کا سفر تکمیل کو پہنچا کر ہم سب کومستقبل کی طرف دھکیل کر خود رخصت ہوگیا، البتہ اپنے پیچھے ایک لمبی تاریخ رقم کر کے ہرانسان کے لیے نصیحت اورعبرت کاسامان چھوڑ گیا۔

عالمی حالات پر ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سالِ رفتہ بنی نوع انسان کے لیے کیا پیغام چھوڑ گیا… وہ پیغام جو کسی خاص ذات کے لیے نہیں بلکہ عام انسانیت کے نام چھوڑ گیا ہے۔ ایسے پیغامات جب بھی بھیجے یا موصول کئے جاتے ہیں تو عام انسانوں کے ساتھ ساتھ خاص لوگوں کے لئے بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ کوئی اسے دلجمعی کے ساتھ لکھتا ہے اور کوئی اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھتا یا سنتا ہے۔ عالم ِ انسانیت کے نام گزرے ہوئے سال کا پیغام شاید اس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ’’آئے تھے ہم اِک خوشی کا سامان لے کر اور گئے تو دیکھا غم کی بارش میں تم ہو ڈوبے ہوئے‘‘ چنانچہ سال دو ہزار سولہ عیسوی ایک عبرت بھرا پیغام ہے پوری بنی نوع انسانی کے نام… انسان جس نے اپنی فطرت کے خلاف بدستور جنگ چھیڑرکھی ہے… اس کی طرف سے مسلسل اپنی اس غیر فطری جنگ میں شدت ہی لائی جا رہی ہے…پوری دنیا جسے خالق کائنات نے امن کا گہوارہ بنا دیا تھا، جس کی فطرت عدل وقسط پر مبنی تھی، اس دنیا میں جب انسان کو بھیجا گیا تو اس کے بارے میں کہا گیا ’’ کہ انسان کی پیدائش فطرت پر ہوئی ہے‘‘…فطرت امن ہے نہ کہ بد امنی اور بے چینی… جب بھی دنیا میں بدامنی یا فساد کا بازار گرم ہوا تو وہ انسان ہی کے ہاتھوں کی کمائی تھی:

’’عقل سلیم کا فلسفہ، پیغام اور درس ہے کہ خوش رہو، آباد رہو… ہوس کا فتویٰ ہے  ع

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

یعنی عیش وعشرت اور نازونعم سے زندگی گزارو۔ بس یہی دنیا ہے موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔

بس یہی وہ چیز ہے جس نے انسان کو عیش کوش بنا ڈالا جس سے اس کی پوری زندگی میں فساد رونما ہوا کیوں کہ اس کی فطرت میں عیش کوشی نہیں تھی بلکہ اس میں عشق کا پیغام تھا کہ شعور کی بیداری کے ساتھ آئو ، خالق کائنات کی بندگی کا راستہ اور طریقہ اختیار کرو اور تمام ان چیزوں سے نہ صرف پرہیز بلکہ مقابلہ بھی کرو جو فطرت کے خلاف ہوں۔ آزادی جس کے ساتھ ہمیں پیدا کیا گیا ہے ،آزاد رہ کر زندگی گزارو۔ اصل خوشی اور آزادی یہی ہے کہ تم فطرت پر قائم رہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’انسان فطرت میں آزاد تھا لیکن اب نسل در نسل غلام… غلامی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے… اسے جس آزادی سے پیدا کیا گیا تھا اس کا تصور بھی اس کے لیے حرام۔ پیٹ کے بندے اور پیٹ کے غلام۔ ان کو چاہیے صرف اور صرف روٹی کپڑا اور مکان۔ بہر حال یہ آرزو ہے خام…بلند اور ارفع فطری آزادی کا پیغام…زندگی کا مقدس مقام، فطری آزادی کی زندگی کا ایک لمحہ اور غلامی کی زندگی کا دوام۔ غلام انسان کو اس کی ہے بہت کم پہچان…جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے بدامنی میں ہمارا بڑا نام۔‘‘

بہر حال سالِ رفتہ نے درس عبرت دے کر پھر سے ایک یاد تازہ کر دی کہ اے انسان! تو ہو جا بیدار! اپنی فطرت کا خیال کر! اور فطرت پے قائم ہو کر دنیا میں حاصل کر وہ مقام جس کی بابت تجھے کیا پیدا خالق کائنات نے۔ شر وفساد کے پھیلائو کو روکنے، ظلم واستحصال کے خلاف اُٹھنے، غلامی کی زنجیریں توڑنے میں اپنی حتی المقدور کوششیں ، بدیوں کے مقابلے میں اچھائیوں کو پھیلانے کا کام ہاتھ میں لے کر اٹھنے اور اپنی فطرت کاوہ نمونہ دکھانے جس سے پوری بنی نوع انسان باخبر ہو جائے کہ اصل فطرت اور اصل آزادی کا تصور کیا ہے؟ہر نیا سال انسان کے لیے ایک نیا میقات لے کر آتا ہے، اس سال کا میقات سالِ گزشتہ کو دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرنا ہے… کیا کھویا اور کیا پایا…؟اس پر غور کرنا ہے… کہاں جکے، کہاں بکے…؟ کہاں مرے ، کہا جئے… ؟ کیا کیا اور کیا کرنا تھا اور اب آئندہ کے لیے کیا کرنا باقی ہے…؟ ان سب باتوں پر غور کرنا ہو گا، سوچ سمجھ کر ، صحیح راستہ اختیار کر کے اس نئے سال میں نئی شروعات کرنی ہے، یہی سالِ نو کا پیغام ہے اور یہی انسانی فلاح وکامیابی اورامن وآشتی کا زینہ ہے۔اگر اس نئے میقات میں انسان نے وہی کچھ کیا جو سالِ ماضی میں کرتے رہے،تو نہ جانے آگے جاکر ہمارا کیا حال ہو گا…؟ لیکن خالق کائنات نے اس بارے میں صاف کر دیا ہے کہ انسان نے اگر ظلم کی روش پر اپنی زندگی گزاری تو عنقریب وہ وقت آئے گا جب :’’اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن (ظلم کرنے والے) دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا۔ پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟وہ جواب دیں گی :ہمیں اسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے، اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔ تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے۔ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے۔ اس حالت میں وہ صبر کریں (یا نہ کریں ) آگ ہی ان کا ٹھکانا ہو گی، اور اگر رجوع کا موقع چاہیں گے تو کوئی موقع انہیں نہ دیا جائے گا۔ ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دئے تھے جو انہیں آگے اور پیچھے ہر چیز خوشنما بنا کر دکھاتے تھے، آخر کار ان پر بھی وہی فیصلہ ٔعذاب چسپاں ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر چسپاں ہو چکا تھا، یقینا وہ خسارے میں رہ جانے والے تھے۔‘‘(حم سجدہ)

سالِ نو کی آمد مبارک !مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ گئے سال کا کیا پیغام ہے…؟ ’’ بنی نوع انسان کو پیام اور پیغام دیا جاچکا ہے اور آج کے دور اور ابتدائے آفرینش سے جب جب انسان اس اِلٰہی اور ابدی ہدایت کے راستے سے منحرف ہوا ہے وہ اپنے لئے بھی اور پوری انسانیت کے لئے بھی تباہی اور بربادی کا سبب بنا ہے۔… انسان کا اصل کام اور مقام یہ ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر حق کو دیکھے، یہی اس کی بندگی کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا اور کسی چیز کو اس پہچان میں حائل نہ ہونے دینا، اصل زندگی ہے۔ جب آج کا بندہ زندگی کے حقائق کو پہچانتا اور بندگی کے فرائض انجام دے کر اس کو زینت بخشتا ہے تو خود باری تعالیٰ اس بندے پر رحمت برساتا اور اس کو اپنی عنایات اور نوازشات سے نوازتا ہے۔ گزرے سال ہمیں پیغام و سندیسہ دے گیاکہ اے انسان تو اپنی فطرت پر قائم ہو کر فطرت سے مطابقت رکھنے ولا انسان بن کر دکھا۔ گویا انسان کو انسان رہنے کی تعلیم ماضی ومستقبل میں قدر مشترک اور ایک اہم درس ہے۔ گئے سال ہم نے دن رات یہ پایاکہ کہ پورے عالم میں کلمہ خوانوں کا حسب سابق خون بہا یا گیا… ہر جگہ اور ہر مقام پر خصوصاًمسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا۔ شام، عراق ، فلسطین،افغانستان، کشمیراور کتنے ہی ممالک ہیں جہاں خون مسلم کو ارزاں کیا گیا۔ ہماری اس وادی میں نہ صرف سال دوہزار سولہ میں بلکہ گزشتہ اٹھائیس برسو ں سے آئے روز انسانی المیے ہی المیے وقوع پذیر ہوتے رہے کہ بیان سے باہر ہیں۔ یہ المیے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ، دل دہلانے والے ہیں ، المیے جو آنکھوں میں آنسوؤں کی موجیں ، لبوں پر آ ہ وفغان اور سینوں میں درد کی ٹیسیں اٹھارہے ہیں اور کشمیریوں کو بے موت مارے جانے کا مر ثیہ سناتے ہیں۔ ان درد انگیز المیوں کی لمبی فہرست میں حالیہ چھ ماہ کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی سر گزشت اب آہوں اور سسکیوں کی زبانی جڑ چکی ہے۔ جواں عمری کی دہلیز پر پڑھائی میں محنت مشقت کے پہاڑ سر کرتے ہوئے نوجوان اب زندگی کی اہم ذمہ داریاں اپنے شا نوں پر اٹھانے کے لیے تیاریوں میں تھے کہ موت کے فرشتے نے وردی پوشوں کی صورت اختیار کر کے ان پر بجلیاں گرا دیں اور پلک جھپکتے ہی انہیں اچک لیا۔ پڑھائی لکھائی میں کٹھن محنت اور اپنا خون پسینہ ایک کر کے یہ نوجوان اس دن کے انتظار میں بیٹھے پل پل گن رہے تھے کہ اپنے والد کا بوجھ کسی طرح ہلکا کر سکیں … مگر آہ ! اُنہیں معلوم نہ تھا کہ یہ دن انہیں دیکھنا ہی نصیب نہ ہو گا بلکہ بہت جلد وہ خود روتے بلکتے سوگواروں ، دوستوں ، رشتہ داروں اورہمسایوں کے کندھوں پر سوار ہو کر شہیدمقبر وں کی زینت بنیں گے۔ اب وادی کے یہ نونہال حیاتِ مستعار کے محدود لمحات ختم کر کے منوں مٹی نیچے آرام فرماہیں اور ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ یہ سالِ ماضی ہی کی داستان ہے جسے اس لحاظ سے یاد رکھا جائے گا کہ نوجوان حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت پر پورا کشمیر، خطہ چناب اور پیر پنچال اُبل پڑا اور وادی میں پانچ ماہ تک اس طرح ایجی ٹیشن چلی کہ ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ ایجی ٹیشن کے دوران جہاں پوری وادی بالکل ساکت رہ گئی وہیں مظاہرین کے خلاف فورسز کی کارروائیوں میں 8خواتین سمیت 117کے قریب شہری لقمہ اجل بن گئے۔ وادی میں دیگر برسوں کی طرح امسال بھی عسکری محاذ زبردست گرم رہا اور گزشتہ سال کے مقابلے میں ہلاکتوں کے گراف میں بھی اضافہ ہوا۔جنوب و شمال میں سال کے آغاز سے اختتام تک سڑکیں لہو سے تر بہ تراور غلطاں ہوئیں۔ امسال خونین جھڑپوں میں حزب کمانڈر برہان وانی کے علاوہ کئی سرکردہ کمانڈروں سمیت مجموعی طور پر 144 جنگجو جاں بحق جبکہ کئی افسراں سمیت 101 فورسز اہلکار ہلاک اور 89زخمی ہوئے۔ گزشتہ برسوں کی طرح ہی اہل وادی کیلئے مصائب و آلام،آہ و فغاں ،نالہ وفریاد،قید وبند کی صوبتیں اور مصیبتوں کے پہاڑ ساتھ لیکر آیا۔سال بھر وادی میں موت کے فرشتے کا راج رہا اور اس دوران اس کو دم لینے کی فرصت بھی نصیب نہیں ہوئی۔ بچوں کے جنازوں کو دیکھ کر ہر سو مائوں کی چیخ و پکار،والدین کی بدنصیبی، بہنوں اور بھائیوں کی بے بسی،چھاپہ مار کارروائیوں ، کریک ڈائونوں ا و رمحاصروں کی بر مار،کرفیو وہڑتال،احتجاجی مظاہروں کی صدائیں ، پیلٹ، بلٹ اور اشک آور و مرچی گیس گولوں کی گونج کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی وادی میں سال بھر جاری رہا۔اسپتالوں میں زخمیوں کی کراہنے کی آوازیں بھی دل پر دستک دیتی رہیں اور اپنے معصوم بچوں کی بنیائی جاتے دیکھ والدین کی کسمپرسی کے مناظر بھی دل کو چیرتے رہے۔ حالیہ چھ ماہ کے دوران زخمی 16,888 افراد نے اسپتالوں کا رُخ کیا جن میں 9840 افراد کئی دن تک اسپتالوں میں زیر علاج رہے جبکہ 3794 افراد ایسے تھے جنہوں نے فورسز اور سیکورٹی اداروں کے ڈر سے ابتدائی مرہم پٹی کے بعد گھر واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ مختلف اسپتالوں میں کئی دن تک زیر علاج رہنے والے 9840 افراد میں سے451 افراد گولی کی وجہ سے زخمی ہوئے۔ مختلف اسپتالوں کی طرف سے فراہم کئے گئے ا عدادوشمار کے مطابق زخمیوں کی فہرست میں ایسے2903 افراد بھی شامل ہیں جو فورسز کی مارپیٹ، ٹیر گیس شل یا پتھر لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے۔بیشتر اسپتالوں میں صرف شدید زخمی افراد کا ہی اندراج کیا گیا جبکہ معمولی طور پر زخمی ہونے والے نوجوان ابتدائی مرہم پٹی کے بعد فورسزکے ڈر سے اسپتال میں ناموں کے اندراج نہیں کرتے تھے۔ صرف ان ہی زخمیوں کا نام اسپتال میں درج ہے جو ایک دن سے زیادہ زیر علاج رہے۔

سالِ رفتہ ہمیں ان واقعات کو نہ بھولنے کی تعلیم دے رہا ہے… ’’کہیں تم بھول نہ جانا‘‘ یہ ایک ایسا درس ہے جس میں گہرائی و گیرائی ہے۔ یہ درس نہ صرف اس ایک سال کا ہے بلکہ مسلسل کم وبیش اٹھائیس برسوں کا درس ہے۔ حالات و واقعات کا مسلسل کرب کشمیر کے لوگوں کو آج اس نئے عیسوی سال کے موقعے پر اس چھ ماہی غم ا نگیز درس کو نہ بھلائے جانے کی نصیحتیں کر رہا ہے۔ انہیں سمجھارہا ہے کہ مسلسل قربانیوں کا ٹھوس ماحصل ہونا چا ہیے۔ یہ قوم کی قیمتی جانوں ، قیمتی وقت اور مال و املاک کا بڑا نقصان ہے جس کی بھرپائی خوابوں کی تکمیل سے ہونا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ان قربانیوں کی دیت اگر کشمیر یوں کا دل لبھانے کے لیے معمولی پیکیجز کی صورت میں دیا جائے تو یہ ایک زہریلا لولی پپ کے سوا کچھ نہیں۔ برسوں سے ہمیں اپنے شہدا ء کی روحیں ایک ہی پیغام دے رہی ہیں کہ کشمیر کے لئے وہی ایک پیکج قابل قبول ہوسکتا ہے جو آزادی ٔکشمیر کی شکل میں دیا جائے، نہ کہ’’واندر راج ‘‘کے سائے میں ’’افسپا‘‘ کی تلوار اور پی ایس اے کا ظلم۔ وہی پیکج قابل ہونا چاہیے جواٹھائیس برسوں کے دوران جوانوں ، بچوں ،بچیوں ، خواتین اور بزرگوں کے ماورائے عدالت بہیمانہ قتل کا حساب قاتلوں سے لے سکے۔ کیا یہ پیکیجز کبھی کشمیر کے نام کئے گئے ؟کیا ابھی اس کے لئے ہمیں مزید ہلاکتوں ،تباہیوں ، اندھ کاروں ، پا مالیوں ، نقصانوں ، آہوں ، چیخوں ، سسکیوں اورمقبروں سے گزرنا ہوگا؟ مختصر اً سالِ روفتہ کے خوں آشام حالات اور دلدوز واقعات ایک ہمیں ہی نہیں بلکہ عالمی ضمیر اور انصاف پسند وامن نواز بھارتی سول سوسائٹی کو صاف لفظوں میں پیغام دیتے ہیں کہ کشمیر حل کی جانب جب تک اصل توجہ نہیں جاتی، ا س وقت تک کشمیر میں امن وامان کا چراغاں ہو نا بعیدازامکان ہے اور یہ کہ جب تک اصل ناسور کادوا دارو کر نے کی بجائے کشمیریوں کی مبنی برحق آواز دبانے کے لئے ظلم و جبرکے استعماری ہتھکنڈے آزما ئے جاتے ر ہیں گے ،دو ہزار سولہ عیسوی جولائی کی صدائے بازگشت سنائی جاتی رہے گی۔ یادرکھئے جب جب ظلم کے اہاتھوں ناحق خون بہتا ہے تو مظلوم کی پکار ٹوٹے دلوں سے آہ بن کرمملکتوں اور سلطنتوں کو ڈھا جاتی ہے ، استکبار ی عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں ، سامان ِ حرب وضرب کے انبار بے معنی ہوجا تے ہیں ، ظلم وجبر کی آندھیاں تھم جا تی ہیں۔ تاریخ کا یہ بے لاگ فیصلہ جریدہ ٔ عالم کی پیشانی پر ثبت ہے۔سال رفتہ میں حق کا یہ پیغام مختلف صورتوں میں سنا جاتا رہا۔ بہر کیف زیر بحث سال ہمارے لئے اپنے محاسبہ کر نے کا بھی ایک اہم پیغام ہے اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہماری مبنی بر حق جدو جہد کا ایک ٹھوس ثمرہ حاصل ہو گا اور حل طلب مسئلے کا پُرامن سیاسی تصفیہ ہوگا، بشر طیکہ ہم خود کو خدا کے سامنے اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ انسان ثابت کرنے میں کامیاب رہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔