پانچ ریاستوں میں مسلمان روکیں گے بی جے پی کا راستہ؟

غوث سیوانی، نئی دہلی

GhAuS pIc

کیا پانچ ریاستوں میں مسلمان ووٹروں کا رول اہم ہے جس سے بی جے پی کی راہیں مشکل ہوگئی ہیں؟ کیا ان ریاستوں میں بی جے پی کی راہ کا سب سے بڑا روڑا مسلمان ہیں؟ کیا اس کے تمام کئے دھرے پر پانی پھیرنے کا کام مسلمان کریںگے؟ آج یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ ملک کی جن پانچ ریاستوں میں انتخابات چل رہے ہیں وہاں مسلم ووٹروں کی خاصی تعداد ہے اور وہ نہ صرف بھاجپا کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔اسی لئے یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ آسام میں کس کی سرکار بنے گی؟ مغربی بنگال پر کون راج کرے گا؟ کیرل میں کس کی جیت کا ڈنکا بجے گا؟ ان سوالوں کا جواب عنقریب مل جائے گا مگر ان ریاستوں میں ایک بات سمجھنا آسان ہے کہ ان کی قسمت مسلمان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں اور وہی طے کرینگے کہ اقتدار کس کے ہاتھ میں جائے گا؟ حالانکہ تمل ناڈو اور پانڈیچری میں بھی انتخابات ہورہے ہیں اور وہاں بھی مسلمان موجود ہیں مگر اعداد کے لحاظ سے وہ یہاں فیصلہ کن نہیں ہیںاور پانڈیچری تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کے بیشتر معاملات مرکز کے ہاتھ میں ہیں۔آئندہ اپریل، مئی میں ہونے والے پانچ ریاستوں کے انتخابات کئی لحاظ سے اہم ہیں۔ان کے رزلٹ سے پتہ چلے گا کہ ملک میںکس پارٹی کی کیا اوقات ہے؟ کانگریس کا احیاءنو ہوگا یا بی جے پی اپنا زور بنائے رہے گی؟ یا پھر علاقائی پارٹیوں میں کونسی پارٹی کس پر حاوی رہے گی؟ جن ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں وہاں بی جے پی کا کچھ بھی نہیں ہے مگر اس کے باووجودمودی سرکار کا وقار داﺅ پر لگا ہوا ہے کیونکہ اگر بی جے پی ان ریاستوں میں کم ووٹ پاتی ہے اور لوک سبھا میں جو کچھ پایا تھا اس سے بھی کم ووٹ ملتے ہیں تو مانا جائے گا کہ مودی سرکار عوام کے بیچ غیر مقبول ہوتی جارہی ہے۔

بی جے پی کا ٹیٹوا مسلمان کے ہاتھ میں

گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں شاندار جیت کے بعد امت شاہ اور نریندر مودی کی جوڑی کو ناقابل تسخیر سمجھا جانے لگا تھا مگر اب حالات مختلف ہیں اور سب سے زیادہ بری حالت بھاجپا کی ہورہی ہے۔ بہار اور دہلی کے اسمبلی انتخابات میں اسے کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا اور عوام نے بتادیا کہ وہ ایک بار اس جوڑی کے جھانسے میں آگئے ہیں اور اس کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرلیا ہے مگر بار بار ایک سراخ سے نہیں ڈسے جائیں گے۔ اب پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو مودی شاہ کی جوڑی کے لئے سب سے بڑا امتحان تصور کیا جا رہا ہے جن کی ابتدا ہوچکی ہے۔ ویسے تو تمام ریاستوں میں مقابلہ انتہائی سخت ہے، لیکن مغربی بنگال، آسام اور کیرالہ میں چیلنج انتہائی مشکل ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں جموں و کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ آسام میں 34 فیصد آبادی مسلم ہے جبکہ مغربی بنگال اور کیرالہ میں 27 فیصد سے زیادہ لوگ مذہب اسلام کے ماننے والے ہیں۔ یہ تینوں ریاستیں ویسے بھی بائیں بازو، ٹی ایم سی اور کانگریس کی گڑھ رہی ہیں۔ بی جے پی اس بار تینوں جگہ بڑے پیمانے پرجدوجہد کر رہی ہے لیکن مسلم ووٹرس اس کی راہ کا بڑا روڑا بن سکتے ہیں۔ اب تک کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے عموماً بی جے پی کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے بلکہ ایک سچائی تو یہ بھی ہے مسلمان ایسے امیدوار یا پارٹی کو ووٹ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو بی جے پی کو رو ک سکے۔ اب آسام، مغربی بنگال اور کیرل میں مسلمان بی جے پی کو اس کی اوقات بتانے کا کام کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں ان کی بڑی آبادی ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کچھ دلچسپ اعداد و شمارپر، اورگزشتہ اسمبلی انتخابات کے ووٹنگ ٹرینڈ پر۔

کیرل میں مسلم اور کمیونسٹ ووٹ کے سبب بی جے پی کی حالت پست

کیرالہ کے ہندووں کی اکثریت سیکولر ہے اور وہ بی جے پی کو ناپسند کرتے ہیں۔دوسری طرف ریاست میں انڈین یونین مسلم لیگ (IUML) مسلمانوں کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس کی تاسیس 1948 میں ہوئی تھی۔ IUML سالوں سے کانگریس کی قیادت والے UDF کو حمایت دیتی آئی ہے۔ یہاں تک کے بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھی IUML نے اپنی حمایت واپس نہیں لی تھی جب کہ عام مسلمان کانگریس سے ناراض تھے۔فی الحال کیرل میں کانگریس اور IUML کی سرکار ہے اور برسراقتدار پارٹی سے جو عوامی ناراضگی ہوتی ہے وہ دیکھنے کو بھی مل رہی ہے مگر اس کا کوئی فائدہ بی جے پی کو ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔اس کا فائدہ کمیونسٹوں کا لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (اےل ڈی ایف) اٹھا سکتا ہے جو شمالی کیرالہ کے مسلم علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کئے ہے۔ یہاں جو مسلمان کانگریس اور انڈین یونین مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیتے وہ کمیونسٹوں کو ووٹ دیتے ہیں۔

کیرالہ میں کل مسلم ابادی 27 فیصد سے زیادہ ہے اور ملا پورم کے علاقے میں سب سے زیادہ 70 فیصد مسلمان ہیں۔ ملا پورم کی 16 اسمبلی سیٹوں میں سے 14 سیٹیں کانگریس اور انڈین یونین مسلم لیگ کے اتحادیو ڈی ایف کے پاس ہیں جب کہ دو سیٹیں ایل ڈی ایف کے پاس ہیں۔جب کہ کوجھی کوڈ علاقے میں 39 فیصد مسلم ووٹر ہیں اور یہاں کی 13 اسمبلی سیٹوں میں سے 3 یوڈی ایف اور 9 اےل ڈی ایف کے پاس ہیں۔ کاسرگوڈ علاقے میں 37 فیصد مسلم آبادی ہے اور اس ضلع کی 5 اسمبلی نشستوں میں سے یو ڈی ایف کے پاس2 سیٹیں ہیں اور اےل ڈی ایف کے 3 رکن اسمبلی ہیں۔ کنور کے علاقے میں 29 فیصد مسلم آبادی ہے۔ کنور کے علاقے میں کل 11 اسمبلی سیٹیں ہیں جن میں سے4 یو ڈی ایف اور 7 اےل ڈی ایف کے قبضے میں ہیں۔ یونہی پلکڑ علاقے میں 29 فیصد مسلم آبادی ہے اور یہاں کی 12 اسمبلی سیٹوں میں اسے گزشتہ الیکشن میں یو ڈی ایف کو5 پانچ ملی تھیں جب کہ ایل ڈی ایف کے کھاتے میں7 سیٹیں گئی تھیں۔ یہاں بی جے پی کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا اور ریاست کو اس کے اثرات سے دور رکھنے کے لئے سب سے زیادہ ذمہ دار مسلمان ووٹر ہیں حالانکہ یہاں کے ہندو بھی کمیونسٹوں کے زیر اثر ہیں اور وہ فرقہ پرستی سے نفرت کرتے ہیں۔ کیرل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں عیسائیوں کی بھی خاصی آبادی ہے جو بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کیرل کی سیاسی قسمت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کے بااثر مسلم مذہبی لیڈروں میں ابوبکر مسلیار اور پی شہاب تھنگل کا شمار ہوتا ہے۔

آسام میں مسلم ووٹ بن گیا بی جے پی کی راہ کا روڑا

آسام میں کل مسلم آبادی 34 فیصد سے زیادہ ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ریاست میں 61.1 ہندو، 34 فیصد مسلم، 12 فیصد بوڈو اور 3.7 فیصد عیسائی ہیں۔ ریاست میں بارپےٹا، کریم گنج، موریگاﺅں، بوئی گاوں، ناگاﺅں، ڈھبری، ہےلاکنڈی، گولپارا اور ڈارنگ 9 مسلم اکثریتی آبادی والے ضلعے ہیں۔ان 9 اضلاع میں کل 53 اسمبلی سیٹیں ہیں۔ مسلم اکثریتی آبادی والے 9 اضلاع کے 39 اسمبلی حلقوں میں مسلم آبادی 35 فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ دیگر 14 وس علاقوں میں یہ تناسب 25-30 فیصد ہے۔ یہاں پہلے کانگریس کا دبدبہ رہتا تھا مگر گزشتہ کچھ برسوں سے مسلم ووٹوں کی دعویدار بن کرابھری ہے مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ۔ 2011 کے انتخابات میں کثیر مسلم آبادی والی 39 نشستوں میں سے 18 کانگریس نے جیتی تھیں جبکہ AIUDF نے 16 نشستیں جیتی تھیں۔

ریاست میں غیر قانونی طور سے رہ رہے بنگلہ دیشیوں کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے رہنے والے ہیں اور یہاں غیرقانونی طور پر آکر رہ رہے ہیں حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جو بنگلہ بولنے والے مسلمان ہیں جو آزادی کے بہت پہلے سے آسام میں رہتے آئے ہیں۔ یہ طبقہ بے حد غریب ہے اور مزدوری کرتا ہے۔بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کا مسئلہ بی جے پی زوردار طریقے سے اٹھا رہی ہے جب کہ اے آئی یو ڈی ایف انھیں ہندوستانی مانتی ہے۔ AIUDF ریاست کی اہم اپوزیشن پارٹی ہے، جس نے 2011 اسمبلی انتخابات میں 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔انتخابات میں کانگریس کے وزیر اعلی ترون گوگوئی اور اہم مسلم رہنما بدرالدین اجمل کے ساتھ ساتھ بی جے پی بھی اس مسئلے کو انتخابات میںزوردار طریقے سے اٹھارہی ہے۔یہاں ایک ایشو اور بھی ہے اور وہ ہے آسامی بولنے والوں کی تناسب میں آئی کمی۔ اعداد وشمار کے مطابق ریاست میں آسامی بولنے والے لوگوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ 2001 میں 48.8فیصد لوگ آسامی بولتے تھے جبکہ اب ان کی تعداد گھٹ کر 47 فیصد رہ گئی ہے۔

مغربی بنگال میں مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت

مغربی بنگال میں کل مسلم آبادی 27 فیصدہے۔ ریاست کی کل 294 اسمبلی سیٹوں میں سے 85 اسمبلی حلقوں میں 30 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ مرشدآباد میں 66.3 فیصد مسلم آبادی ہے۔ اس ضلع میں قریب 22 اسمبلی نشستیں آتی ہیں۔ 2011 اسمبلی انتخابات میں مرشدآباد علاقے میں کانگریس نے 14، لیفٹ نے 6 اور ٹی ایم سی نے 1 سیٹ پر جیت درج کی تھی۔ مالدہ ضلع میں 12 اسمبلی نشستیں آتی ہیں اور یہاں مسلم آبادی 51.3 فیصد ہے۔ مالدہ میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 8، لیفٹ نے 3 اور ٹی ایم سی نے 1 سیٹ پر جیت درج کی تھی۔ شمالی دیناج پور کے علاقے میں مسلم آبادی 49.9 فیصد ہے۔ اس ضلع میں 9 اسمبلی نشستیں آتی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں دیناج پور کے علاقے میں کانگریس نے3، لیفٹ نے3 اور ٹی ایم سی نے2 سیٹوں پر جیت درج کرنے میں کامیابی پائی تھی۔ بیربھوم میں مسلم آبادی 37.1 فیصد ہے۔اس ضلع میں 11 اسمبلی نشستیں ہیں۔ 2011 کے انتخابات کے دوران بیربھوم ضلع میں کانگریس نے 2، لیفٹ نے 3، ٹی ایم سی نے 6 سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ جنوبی 24 پرگنہ میں مسلم آبادی 35.6 فیصد ہے۔ اس علاقے میں 31 اسمبلی نشستیں آتی ہیں۔یہاں ٹی ایم سی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 26 نشستیں جیتی تھیں جبکہ لیفٹ 5 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔اب ٹی ایم سی نے جمعیة علماءہند کے مولانا صدیق اللہ چودھری اور فرفرہ شریف کے پیر طہٰ صدیقی کو اپنے ساتھ کرلیا ہے اور مسلم ووٹ پر ڈورے ڈال رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔