ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ کی سیرت نگاری (آخری قسط)

 ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

گزشتہ سے پیوستہ

سنت صرف ظاہری اتباع (لباس وخدوخال) کا نام نہیں۔ بلکہ سنت باطنی خواص کے ظاہری اظہار کانام ہے۔ تبدیلی باطن میں پہلے واقع ہوگی اور بعد میں اس کا اظہار خدوخال پر ہوگااوروہ باطنی صفت جو یہ تمام تبدیلیاں رونما کرے گی تقویٰ ہے۔۔۔

سنت رسول ﷺ کی بلیغ اورجامع تشریح:

یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے نزدیک سنت رسول ﷺ عبادات واعمال کے صرف ظاہری خدوخال (رسمیات) اداکرنے کا نام نہیں  کہ عبادات میں خالی الذہن  یا تفکرات میں مشغول ہوکر مخصوص ہیئتیں یا حالتیں تبدیل کی جائیں یا الفاظ اداکئے جائیں بلکہ اس سے بہترین کردار سازی کی تمارین  مراد ہیں ، یہ باطنی وروحانی کیفیات اورصفات ہیں ۔جن کی بہت ہی بلیغ اورجامع تشریح آپ علیہ الرحمہ Islam to the Modern Mind  میں درج  The Inner Dimensions of the Sunnah کے تحت فرماتے ہیں :

"دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورآپﷺنے ہرلحاظ سے کامل واکمل نمونہ پیش فرمایالیکن ہم نے بدقسمتی سے دین اسلام کو چندمخصوص عبادتوں تک محدود کرلیا ہے۔یہ عبادات بلا شک وشبہ دین کا ایک بہت بڑا اوراہم حصہ ہیں ۔ لیکن اگر صحیح طریقہ  سے ادا کی جائیں نہ کہ روبوٹ کی طرح مشینی انداز سے ادا کی جائیں۔ جہاں تک "سنتِ رسول ﷺ” کا تعلق ہے تو یہ زندگی گزارنے کا وہ طریقہ ہے جس پر حضور ﷺ نے مداومت فرمائی۔ لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اسلام روحانیت پر زیادہ زور اور تاکید  کرتا ہے  نہ کہ جسمانی  اور ظاہری اظہار پر۔ یعنی بنیادی اہمیت روحانیت اور باطنیت کو حاصل ہے اور ثانوی ظاہری جسم کو۔جس سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ سنت صرف ظاہری اتباع  (لباس وخدوخال) کا نام نہیں۔ بلکہ سنت باطنی خواص کے  ظاہری اظہار کانام ہے۔ تبدیلی باطن میں پہلے واقع ہوگی اور بعد میں اس کا اظہار خدوخال پر ہوگااوروہ باطنی صفت جو یہ تمام تبدیلیاں رونما کرے گی تقویٰ ہے، جیسا کہ قرآن کریم  اوراحادیث مبارکہ میں کثرت سے اس کی صراحت آئی ہے۔یعنی فردہمیشہ رب کے حضور حاضری اور احتساب کو مدنظررکھے۔ہاں جب ایک بارباطنی اقدار متحقق ہوجائیں گی(مثلاً  وہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا ، جھوٹ نہیں بولتا ، گالی نہیں دیتا، سود خوری نہیں کرتا ،  ملاوٹ، دھوکہ دہی نہیں کرتا، رشوت نہیں لیتا،اوردیگر اخلاقی اقدار سے متصف ہوجاتاہے) اوراس فرد کا باطنی ڈھانچہ (مااستطعتم) اپنی استطاعت کے مطابق حضور ﷺ کی سیرت کی کامل اتباع  میں مصروف ہوجاتاہے تووہ باطنی تبدیلی اس کی  ظاہری شخصیت یعنی کردار اور خدوخال سے ضرورمنعکس ہوگی۔لیکن اہمیت بہرحال باطنی خواص یعنی تقویٰ کو حاصل ہے۔کیونکہ اگر دل میں ایمان اورتقویٰ  نہ ہو لیکن چہرے پر داڑھی سجائی ہوئی اور خاص قسم کا لباس زیب تن کیا ہوتو یہ ظاہری سجاوٹ صرف منافقت اوردھوکہ دہی کے زمرے میں داخل کی جائے گی۔بلکہ بعض اوقات تو یہ رویہ اسلام اورنبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ کی تحقیر کے زمرے میں داخل ہوگا۔

(It is an insult to Islam and to the practice of Holy Prophet)

Islam to the Modern Mind, (The Inner Dimensions of the Sunnah (ملخصاً)

اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے آپ علیہ الرحمہ ایک شاندار مثال پیش فرماتے ہیں:

"اگر ہم دیدہ زیب رنگوں سے مزین دیمک خوردہ لکڑی سے کچھ تعمیر کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ ڈھانچہ قائم نہ رہے گا اس کے برعکس اگرمضبوط اورٹھوس لکڑی سے ہم کچھ تعمیر کر نے کی کوشش کریں تو وہ قائم رہے گا  اگرچہ اس پر رنگ و روغن  بھی نہ کیا گیا ہو۔

اس تمام کا لب لباب ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ  ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:

کئی لوگوں سے میل جول کے بعد میں اس حتمی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر میں بحیثیت ایک روحانی استاد کسی شخص کو ظاہری صفات مثلاً داڑھی رکھنے کاکہوں تو میں اس کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں ناکام ہوجاتاہوں ۔ لیکن جب میں ان باطنی  اقدار جو ایک اچھے مسلمان کی صفات ہیں سے آغازاصلاح کروں اور ان سے کہوں کہ جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ” میرا بدن میری روح کی مرہون منت ہے  میری شناخت  بدن سے نہیں ۔ "اور یہ کہہ کر جب میں اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہوں تو خود بخود اس کی مکمل اصلاح ہوجاتی ہے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاح کا آغاز باطن سے کیا جائے نہ کہ خارج سے۔(ملخصاً)

جیسا کہ اس عبارت سے مترشح ہے کہ آپ علیہ الرحمہ اسلام،شریعت اسلام اوراس کے ظاہری خدوخال کا نفاذ بالقوۃ کے فلسفہ پر کاربند نہ تھے بلکہ قلب میں اسلام وایمان کا بیج ڈال کراس کی آبیاری کرتے ہوئے اس شخص کو باعمل لیکن شعوری مسلمان بنانے کے خواہاں تھے جس کے نتیجے میں  اس انسان کی شخصیت میں ظاہری انقلاب خودبخود رونماہوجائے گا۔

آپ علیہ الرحمہ اپنی کتاب "قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کاڈھانچہ” میں مسلمانوں کے میکانکی اور مشینی انداز میں سنت رسول پاک ﷺ کے صرف ظاہر  پر عمل پیرا ہونے پراظہار تاسف کرتے ہیں اوراسے "سنت کے نام پر رسمیات” کا عنوان دیتے ہیں:

"یہ مشاہدہ دل شکنی کا باعث ہے کہ  امرواجب  "سنت کی(کامل) اتباع” کے جس حقیقی تصور کو بنیادی طور پر واضح کیاگیا ہےوہ  مسلمانوں کے درمیان آہستہ آہستہ معدوم ہوتاجارہاہے ، جب کہ سنت کے نام پر ظاہری رسمیات کی رغبت اوروہ بھی اتنی زیادہ باضابطہ باریکیوں کے ساتھ”مذہبیت” کے نام پرنہاد روایت پرست پیروکاروں کے درمیان روزافزوں طورپراپنی جگہ بناتی جارہی ہے اوران سب کے نتیجے میں غیر متوازن اسلامی مذہبی شخصیات وجود میں آتی جارہی ہیں۔”

(قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کاڈھانچہ،ص 33)

نیزاسی کتاب میں سنت رسول پاک ﷺ پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرنے کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں:

"اگرسنت رسول پاک ﷺ کی باریکیوں کو ایک مسلمان بخوبی سمجھ لے تو ایک طرف تو یہ اسے بدعتوں میں آلودہ ہونے سے محفوظ کرتی ہیں اور دوسری طرف اس کے اندرقرآن پاک کے ذریعہ پیش کردہ اخلاقی مذہبی تصوریت کے مطابق اپنی شخصیت کو اپنی انتہائی بساط کے مطابق ڈھالنے کے لئے شدید جوش وجذبہ کوتحریک بھی دیتی ہیں۔

سنت رسول پاک ﷺ کو تفصیلی طور سے پیش کرنے کے لیے یہ کتاب ناکافی ہے، کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسی پاک ومقدس شخصیت سے ہے جو تاریخ کی سب سے زیادہ ثروت مند،سب سے زیادہ جید و عمیق اورسب سے زیادہ کامل شخصیت ہیں۔ تاہم صرف ایک بنیادی تصور فراہم کرنے کی غرض سے سرسری طور پر منتخبہ بعض پہلوؤں کو یہاں پیش کرسکتے ہیں۔وہ یہ ہیں:

1۔ خدائے باری تعالیٰ کی انتہائی اطاعت

2۔ زندگی کے ایک ایک لمحہ کو نتیجہ خیز طورپر اورمنصوبے اوروقار کے ساتھ گذارنا اورمہمل اورلاحصل باتوں میں وقت کو ضائع نہ کرنا۔ان سبھی پر زاہدانہ زندگی کی جفاکشی اورسختیوں کے بغیر عمل کرنا،بلکہ زندگی کو خداتعالیٰ کے احکامات کے تحت مثبت شعور وبیداری کے ساتھ گزارنا۔

3۔ انتہائی آزمائش اورہولناک حالات میں بھی صبروتحمل کو پر مسرت ضبط واستقلال اورانمٹ مسکراہٹ کے ساتھ برقراررکھنا

4۔ دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں نرمی اورپاس ولحاظ کا مظاہرہ کرنا

5۔ بدترین دشمنوں کے لئے بھی عفو ودرگزر؛

6۔ ہر طرح کے حلات میں رحمدلی ۔فتح مکہ اس کے اظہار کی انتہاء تھی؛

8۔ دوسروں کی بھلائی کے لئے ایثار وقربانی کاانتہائی جذبہ؛دوسروں کو کھانا کھلایا جبکہ خود بھوکے رہے،دوسروں کے جسم ڈھکے جبکہ خود موٹے کھردرے اورجگہ جگہ پیوند لگے کپڑے پہنے۔ اپنے لیے نہ تو نقد ،نہ ہی اجناس میں کوئی سرمایہ رکھا، بلکہ ہر روز غروب آفتاب سے پہلے اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا۔

9۔ کامل وقار کے ساتھ انتہائی عجزوانکساری؛

10۔بلند ترمعقول برداشت ورواداری؛

11۔سب کے لئے خیر خواہی ،بدخواہی کسی کے لئے نہیں؛

12۔کم کھانا،کم سونا اورکم بولنا؛

13۔جھگڑالو پن سے مکمل اجتناب؛

14۔جسم،لباس اورماحول کے لحاظ سے بے داغ صفائی ستھرائی ؛

15۔بلندترین سچائی ،ایمانداری،خیرخواہی اورضبط نفس پر عمل”

(قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کاڈھانچہ،ص 31 تا 33)

ہاں جیساکہ حضرت صاحب نے فرمایا : اگر ہم قرآن وسنت کی  تمام کیفیات (باطنی ، ظاہری خواص) کو سمجھتے ہوئے اوران  پر عمل  پیراہونے کے بعد ان کی طرف رجوع کرتے ہیں تو کچھ شک نہیں کہ ہم بھی ماضی کی گمشدہ شان و شوکت ،جاہ وجلال، حشمت و عظمت حاصل کرلیں گے۔ آپ علیہ الرحمہ  نے شاندارماضی کی اس حشمت وعظمت کو اپنی سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتاب  Muhammad: The Glory of the Ages میں مندرج فرمایا ہے۔

آپ نے اپنی کتاب میں عربوں کی قبل از اسلام حالت سے لے کر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کوبہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ سے قبل عرب  ظلم و ستم کے عادی جاہل ، وحشی اورخانہ بدوش تھے، ان میں درندگی، سفاکی، بہیمیت  ،چنگیزیت اورفرنگیت کی علامات تھیں ۔

قابل غور نکتہ:

عام طورپر اردوزبان میں ظلم کے اظہار کے لئے”بربریت” کالفظ استعمال کیا جاتا ہے۔جو کہ نامناسب ہے اس لئے کہ بربر ایک افریقی قوم ہے۔ جس کا افریقہ اوریورپ میں  اسلام کی اشاعت میں ایک بہت بڑا حصہ تھا۔ طارق بن زیاد علیہ الرحمہ اسی قوم کا ایک روشن چشم وچراغ تھا جس سے مغربی اقوام آج بھی خوفزدہ ہیں۔ شاید مغربی اقوام طارق بن زیاد اوربربراقوام کے ہاتھوں ملنے والی شکست کی ذلت ورسوائی آج تک نہ بھلاسکیں۔ اسی لئے انہوں نے  Barbarism  یعنی بربریت کی اصطلاح کو استعمال کیا۔لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں چاہئے کہ فرنگیوں اور چنگیزیوں کے مظالم کے روح فرساں مظالم کے اظہار کے لئے ” بربریت” کے بجائے "فرنگیت وچنگیزیت” کی اصطلاح استعمال کریں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ سے قبل عرب  ظلم و ستم کے عادی جاہل ، وحشی اورخانہ بدوش تھے، ان میں درندگی، سفاکی، بہیمیت  ،چنگیزیت اورفرنگیت کی علامات تھیں ۔ وہ رہزنی کے پیشہ سے وابستہ تھے  اور دوسروں کا مال ناحق غصب کرتے تھے۔وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ لیکن آپ ﷺ کے اعجاز  اور آپ ﷺکی سیرت پر عمل کرنے سے عرب کی زمین کے تمام گلشن وصحراء حق کے پیغام سے گونج اٹھے۔وہ شریعت و حقیقت سے آشنا ہوگئے ۔ان کی آنکھوں سے حجاب ہٹ گئے، اور قدرت کے وہ راز ان پر عیاں ہوئے جو اس سے پہلے وہ نہ جانتے تھے ۔آپ ﷺ نے انتہائی مختصر عرصے میں ان خانہ بدوش وحشی عربوں میں رحم و کرم ،حلم وتواضع ،عہدکی پابندی،معاہدے کی پاسداری،محنت وجدوجہدکی لگن، صدق وصداقت،عفوو درگزر ،حلم وبردباری، غلاموں سے اچھا برتاؤ،احکام کی تعمیل،تنظیم سازی،حصولِ تعلیم ، وغیرہ کی صفات پیدا کردیں اوروہ جامع عدالتی نظام  اورعسکری اداروں کے حامل بن گئے۔الغرض وہ بحرالعلوم،ماہر فنون اور علم و عرفان کے مینارۂ نور بن گئے اوربلندئ کردار کی اوج ثریا پر جامقیم ہوئے ۔اورایساکیوں نہ ہوتاجب کہ خود سدرۃ المنتہیٰ ان کے قائدِ اعظم، ہادی اعظم ﷺ کے قدموں تلے ہے۔

اس عروج کی اوراقِ ماضی میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ مغلوب ہونے کے باوجود جب بھی  مسلمان حضور ﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوئے تو ان کی لرزتی حکومت دوبارہ مستحکم ہوگئی۔ مثلاً منگولوں (چنگیزخان)سے بدترین شکست کھانے کے باوجود جب مسلمانوں نے سیرت رسول عربی اور قرآن پاک کو تھاما  وہ پستیوں سے نکل کر دوبارہ بلندی کی طرف گامزن ہوگئے۔اور ان پر بدترین مظالم ڈھانے والے ان کے حاکم (منگول) ہی خود مسلمان ہوکران کے محافظ بن گئے۔”پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے”۔

یہاں مشہور یورپین مستشرق  تھامس آرنلڈ کا استشہاد قطعاً غیرضروری نہ ہوگا ۔ تھامس آرنلڈ جو ابتداء میں دیگر مستشرقین کی طرح اسلام اورمسلمانوں سے معاندانہ رویہ ہی رکھتے تھے لیکن جیسے جیسے ان کا مطالعہ وسیع ہوتا گیا ان کے مزاج میں اعتدال آتا گیا۔ وہ اگرچہ قبول اسلام  کی سعادت سے تو بہرہ مند نہ ہوسکے مگرمداحین اسلام میں ضرور شمار ہونے لگے۔علامہ اقبال نے بھی آپ سے علمی استفادہ کیا۔سید سلیمان ندوی نے "یادرفتگاں” میں ان کاتذکرہ کیاہے۔ وہاس حقیقت کا ان الفاظ میں اقرارکرتاہے:

In spite of all difficulties, however, the Mongols and the savage tribes that followed in their wake (In the thirteenth century, three-fourths of the Mongol hosts were Turks) were at length brought to submit to the faith of those Muslim peoples whom they had crushed beneath their feet. Unfortunately history sheds little light on the progress of this missionary movement and only a few details relating to the conversion of the more prominent converts have been preserved to us. (The Preaching Of Islam A History Of The Propagation Of The Muslim Faith, T.W. Arnold Ma. C.I.F Professor Of Arabic, University Of London, University College, Pg 174, London Constable & Company Ltd. 1913)

"باوجود ان تمام مشکلات کے مغلوں اوردیگروحشی قبائل نے ، جوان کے ہمراہ تھے، بالآخر انہی مسلمانوں کے مذہب کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جن کو انہوں نے بے دردی سے پامال کیاتھا۔لیکن افسوس ہے کہ تاریخ اس تبلیغی تحریک پر بہت کم روشنی ڈالتی ہے اورہمیں صرف سربرآوردہ اشخاص کے قبول اسلام کے متعلق چند تفصیلات ملتی ہیں۔”(دعوت اسلام(The Preaching of Islam)، تھامس آرنلڈ، مترجم ڈاکٹرشیخ عنایت اللہ ، ص 256)

تیرھویں صدی میں تین چوتھائی مغلوں کی فوج ترکوں پر مشتمل تھی  (جو بعد میں مسلمان ہوکر ایک طویل عرصہ دنیائے اسلام پر حکومت کرتے ر ہے ہیں اورخادم ومحافظ حرمین شریفین بھی ر ہنے کا اعزاز حاصل کیا ۔

خلاصہ کلام:

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم ﷺ کے لیےفرمایا: "وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ”( سورہ الم نشرح:4)اورہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکربلندکیا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضور اکرم نورمجسم ﷺ کا ذکر اتنا بلند وارفع کیا جس کی کوئی حد نہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ تمام غلام جو آپ کی غلامی میں رہتے ہوئے آپ کے ذکر کی ترویج اشاعت میں مصروف ہوئے ،اللہ رب العزت نے ان کا ذکر بھی بلند کیا پھر ان غلاموں کے غلام اور اس طرح جو بھی شخص اس سلسلہ اور کڑی میں ملتا گیا وہ بھی اس ہی فیضان کے سبب شہرت کے بام عروج پرجاپہنچا۔ ان ہی غلاموں (جو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام  کے  تو غلام ہیں لیکن ہمارے سردار) میں سے ایک شخصیت  ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمٰن الانصاری علیہ الرحمہ کی تھی۔جنہیں غلامی رسولﷺ اوراتباع رسولﷺ کی وجہ سے وہ شہرت ملی کہ دنیا کے تمام براعظموں میں آپ کا نام عزت واحترام سے لیاجانے لگا۔

آپ علیہ الرحمہ کو ملنے والی شہرت سے مراد وقتی  ، عارضی اورفانی شہرت نہیں ہے۔ بلکہ یہ شہرت دائمی و ابدی ہے۔یہاں شہرت کی تعریف اور اس کی اقسام کاتذکرہ کرنا غیر ضروری نہ ہوگا تاکہ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی شہرت کی کیفیت مزید اجاگر ہوسکے:

"شہرت کی دوقسمیں ہیں ۔ایک شہرت طلب ،کوششوں اورآرزوؤں کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے کہ فرد کا اس کامتمنی ہوتاہے۔ شہرت کی یہ حیثیت آزمائش کی سی ہے کہ فرد کو اس کے نفس کے رحم وکرم پرچھوڑدیاجاتا ہے ، اس سے اس کانفس شاداں وفرحاں ہوتاہے۔اس شہرت کے نتیجہ میں جو کردار وجود میں آتاہے اس کی علامتیں یہ ہیں ،فرد عام لوگوں سے کٹ جاتاہے، بڑے لوگوں تک محصورہوجاتاہے ،اسے اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہوتی ہے، وہ پہروں میں رہنے لگتا ہے، وہ ذہنی نفسیاتی طور پر احساس برتری کا شکار ہوجاتاہے ، وہ بنگلوں میں رہتاہے۔آسائش کی زندگی گزارتا ہے ، وہ دولت سے کھیلنے لگتا ہے ۔ اس سے اللہ کے بندوں کا ملنا غیرمعمولی طورپر دشوار ہوتاہے ، وہ مزید شہرت کے لئے فکرمند رہتاہے اوراپنے متعلقین کے ذریعہ اس کی منصوبہ بندی کرتا رہتاہے۔ یہ شہرت آفت ہے ، جو فرد کو اپنی داخلی وباطنی بیماریوں کے ادراک سے محروم کردیتی ہے۔

دوسری شہرت اللہ کی طرف سے انعام ہوتی ہے  جو اللہ ،اپنے خاص الخاص دوستوں کو عطا فرماتارہتاہے ، اس شہرت سے مقصود یہ ہوتاہے کہ لوگ اللہ کے دوست سے محبت کرکے ، اس سے زیادہ سے زیادہ روحانی طورپراستفادہ کرسکیں،اس کے فیوض وبرکات سے بہرہ ور ہوکر،تقویٰ  اورتزکیہ کے مراحل طے کریں۔

اللہ کی طرف سے انعام کے طور پر حاصل ہونے والی اس شہرت کی علامتیں یہ ہیں۔  ایسا فرد عجز وانکساری کا مجسمہ ہوتاہے، اس پر فنائیت طاری ہوتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو لاشے تصورکرتا ہے۔ اس سے ملنا آسان ہوتاہے، اس کی طرزمعاشرت سادہ ہوتی ہے ۔ وہ زہد وفقر کا صاحب ہوتاہے اوردولت سے اپنا دامن بچانے کے لئے کوشاں ہوتاہے ۔ وہ ہرطرح کی برتری وہ چاہے علمی ہو یا روحانی ، اس طرح کے احساسات برتری سے محفوظ ہوتاہے۔ وہ اللہ کے بندوں کے لئے شفیق ہوتاہے۔قرآن نے اس طرح کے خوش نصیب افراد کے بارے میں فرمایا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(سورہ مریم:96)

جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل سرانجام دیئے اللہ ان کی محبت (مخلوقات کے دل میں) پیداکردے گا۔”

(ملفوظات علامہ محمد یوسف بنوریؒ)

اس اقتباس کے آخر میں جو آیت مبارکہ پیش کی گئی ہے اس  کی تفسیر میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی جاسکتی ہے۔

إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ۔( صحیح بخاری)

"جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے تو جبرئیل کوپکارتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے پس تم اس سے محبت کرو،پس جبریل علیہ السلام اہل سماء میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے پس تم اس سے محبت کرو،پس اہل سماء اس سے محبت کرتے ہیں پھر اس کی محبت کو زمین میں بھی قبول عام مل جاتاہے۔”

جب اللہ رب العزت کسی کی محبت مخلوقات کے دل میں پیداکردے اورجبرئیل علیہ السلام اس کی منادی کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شخص مرجع الخلائق نہ ہو۔اسی تناظر میں آپ علیہ الرحمہ کو ملنے والی شہرت پر غور کیا جائے تو آپ کی شہرت  طلب نہیں اسی محبت الٰہی کے سبب عطیہ خداوندی ہے، یہ آپ ؒ کے لئے بطورآزمائش نہیں بلکہ بطورانعام ہے،اس کی بنیاد امارت ومالداری  نہیں بلکہ الفقرفخری پر قائم ہے،اس کا نتیجہ عوام الناس سے  دوری نہیں بلکہ مرجع الخلائق کے منصب پر سرفرازی ہے،اس کی غرض اپنی اور اپنے متعلقین کی فکر نہیں بلکہ فکرِ تبلیغ اسلام ہے۔غمِ مال واقتدار نہیں بلکہ غمِ ملت ہے۔ یہی وہ شہرت ہے جوابدی، لافانی اورلازوال ہے۔ جس کا خاتمہ موت بھی نہیں کرسکتی ہے۔

آخرمیں یہاں دواشعار پیش خدمت ہیں جوجناب سیدنظرزیدی صاحب نے علامہ محمداقبال علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کئے ہیں لیکن یہ اشعارآپ علیہ الرحمہ پر بھی مِن وعن صادق آتےہیں:

خواجۂ یثرب نے جن ذروں کوبخشی آب  و تاب

آشنا    تھا    اُن  سے   تیرا  دیدۂ    بیدار   بھی

تو  بنا   اس   بزم    فاران   کی   عظمت   کا  نقیب

تیری تحریروں میں   دیکھے  ہم  نے  یہ  انوار بھی

آپ علیہ الرحمہ کی تحریروں وتقریروں کا توکیاکہنا آپؒ  کے طلباء میں بھی انوارصورتاً ومعناً پائے جاتے ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا گوہوں کہ وہ ہمیں جھوٹی شہرت ،حرص،ہوس اور اغراض کا بندہ بننے کے بجائے حضور اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ کی سیرت نگاری (آخری قسط)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔