القدس کی آزادی کا خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوگا؟

عادل فراز

ہمیشہ ہمارے ذہن میں یہ سوال کلبلاتارہتاہے کہ آخر القدس کی آزادی کا خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔آیا یہ ممکن ہے یا پھر القدس کی آزادی کے لئے برائے نام کوششیں کی جارہی ہیں۔اس سوچ پر ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتاہے کیونکہ سالہا سال سے فلسطینیوں کی جاری مزاحمت اور قربانیوں کا طویل سلسلہ،پوری دنیا میں القدس کے لئے ہونے والے احتجاجات اور مخلص مسلمانوں کا مسلسل القدس کی بازیابی کے تقاضے برائے نام تو نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ القدس کی عدم بازیابی کے پس پردہ عالم اسلام کی بے حسی اور مرگ آسا خاموشی ہے جس نے استعماری طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہمارا ضمیر پھر آواز دیتاہے اور کہتاہے ’القدس اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتاجب تک عالم اسلام متحد ہوکر اسکی آزادی کے لئے سینہ سپر نہ ہو‘۔تو کیا یہ ممکن ہے ؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے زمام اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح مسلمان ممالک خصوصاََ سعودی عرب اور اسکے اتحاد ی اسلام مخالفت طاقتوں کے ساتھ متحد ہوئے اس سے صاف ظاہر ہوگیا تھاکہ اب عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئی سازشیں اور منصوبہ بندیاں کی جائیں گی۔ ٹرمپ کا دورہ ٔ سعودی عرب عالمی میڈیا میں زیر بحث رہا کیونکہ عرب ممالک ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے اور عالم اسلام کو امریکہ و استعمار کا گرویدہ جتلانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے تھے۔ ٹرمپ کے اس دورے کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال دن بہ دن بدتر ہوتی گئی اور دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا گیا۔در اصل یہ دورہ مسلمان ممالک کی امریکہ نوازی، اظہار غلامی اور ایران و فلسطین کے خلاف متحدہ محاذ کے قیام کاواضح اعلان تھا۔سعودی عرب کے ۳۴ اتحادی مسلم ممالک نے یہ پیغام عام کرنے کی کوشش کی وہ ہر عالمی و علاقائی مسئلے میں امریکہ کی رائے کو اہمیت دیں گے۔ خواہ وہ مسئلہ فلسطین ہو یا ایران کے روزافزوں اثرات پر قابو پانے کی پالیسی ہو۔ اسکے بعد عالمی و علاقائی مسائل میں ان ۳۴ مسلم ممالک کا رویہ امید کے مطابق رہا۔ یعنی جس وقت امریکہ نےالقدس کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کا اعلان کیا اس وقت ان ۳۴ ممالک کی طرف سے کوئی ردعمل منظر عام پر نہیں آیا۔ خاص طورپر سعودی عرب پر مرگ آسا سکوت چھایا رہا۔ جبکہ سعودی عرب علاقے میں اپنی برتری کے لئے جی توڑ کوششیں کررہاہے اور اس برتری کے قیام اور اثبات کے لئے اس نے یمن اور شام جیسے اسلامی ملکوں کو امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔اگر سعودی عرب علاقے میں اپنی برتری چاہتاہے تو کیا مسئلۂ فلسطین پر امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مجرمانہ سمجھوتے کے ذریعہ ہی یہ کام ممکن ہے؟ اسلامی ملکوں کی تباہی و بربادی سے کونسی برتری حاصل ہورہی ہے۔ آج یمن ناقابل یقین بھکمری کا شکار ہے اور یمنی عوام جان لیوا امراض سے دن بہ دن موت کا لقمہ بن رہی ہے مگر سعودی عرب اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے آج بھی یمن کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ نئی محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ فلسطین میں آئے دن اسرائیلی جارحیت اور بربریت کا ننگا ناچ دیکھنے میں آتاہے مگر یہ اسلامی ملکوں کا ناپاک اتحاد خاموش تماشائی بناہواہے۔ ایسے پرآشوب اور ناگفتہ بہ حالات میں ہم القدس کی بازیابی اور فلسطینی سرزمین کی آزادی کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔

آج بھی فقط ایک ملک ایران ہے جو یمن، شام اور فسلطین کی تباہی و بربادی پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف واضح رد عمل دیتے ہوئے ان ۳۴ اسلامی ملکوں کے ناپاک اتحاد سے الگ تھلگ نظر آتاہے۔ ایران کومظلوموں اور مستضعفین کی اس حمایت کا خمیازہ اس طرح بھگتنا پڑرہاہے کہ امریکہ نے جوہری معاہدہ سے فرار کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر ایران پر یک طرفہ آمرانہ پابندیاں نافذ کردی ہیں جس کے نتیجہ میں ایران کا اقتصادی و معاشی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہواہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایران پر ایک وحشت ناک جنگ تھوپنے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ ایران کی اسلامی و خدا ترس حکومت کو ختم کرکے استعمار کے کسی زرخرید اور پالتو شخص کو مسلط کردیا جائے اور ایران بھی استعمارکی کالونی کا ایک حصہ بن جائے۔ اگر ایران آج بھی القدس، فلسطین اور یمن کی تباہی و بربادی پر آنکھیں موند لے اور استعمار کے ہر فیصلے پر غلاموں کی طرح سرتسلیم خم کئے رہے تو ایران پر عائد یک طرفہ پابندیاں بھی ختم کردی جائینگی اور عالمی سطح پرایران کی اقتصادیات اور معیشت تیزی کے ساتھ مضبوط ہوتی جائے گی لیکن ایران عالم اسلام اور القدس کے تقدس کو نیلام کرکے اس رسوائی آمیز غلامی کی خریداری کے حق میں نہیں ہے جس کے نتائج مستقبل میں بھی اسے اسی طرح بھگتنے پڑیں گے۔

مشرق وسطیٰ میں اسلامی ملکوں کی استعمار زدہ پالیسی اور القدس کی بازیابی سے بے پرواہی یہ ظاہرکرتی ہے کہ انہیں مسئلہ القدس سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ اسلامی ممالک متحد ضرور ہیں مگر یہ اتحاد فقط استعمارکی غلامی تک محدود ہے، اس اتحاد کا مسلمانوں کے مسائل کے حل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ آج تک مسلمانوں کے کسی مسئلے میں اس ناپاک اتحاد نے کوئی پیش رفت نہیں کی جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ اتحاداستعمار کی پالیسی کے تحت عالم وجود میں آیاہے۔ یہ پالیسی ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کوشش ہے اور القدس کو استعماری کالونی تسلیم کرنے کی مخفیانہ حکمت عملی ہے۔ ایسے تشویش ناک اور پرآشوب حالات میں القدس کی بازیابی کی امید کرنا دیوانے کے خواب کی طرح ہے۔

تبصرے بند ہیں۔