عصر حاضر میں الحاد کا چیلنج اور ہماری ذمہ داری

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

الحادیاatheismسادہ لفظوں میں خداکے وجودکوتسلیم نہ کرنااوراس کودنیاکا خالق ومالک نہ مانناہے۔ دنیامیں ہمیشہ ہی کچھ لوگ ایسے پایے جاتے رہے ہیں مگررہے وہ ہمیشہ اقلیت میں۔ اوربعض یونانی فلسفیوں کوچھوڑکران کا الحادزیادہ ترایک آزادمنشی اورمذہبی قیودوحدودسے بے زاری پرمشتمل رہاہے مگردورجدیدمیں الحادنے باقاعدہ فلسفیانہ اورنظریاتی بنیادیں تراش لی ہیں۔ اوروہ جدیدسائنس وٹیکنالوجی کے tools کواستعمال کرکے جدیدتعلیم یافتوں میں تیز ی سے پھیل رہاہے۔ مسلمان نام رکھنے والے بہت سے پڑھے لکھے لوگ ملتے ہیں، ان کے ناموں سے پتہ نہیں چلتامگرجب ان سے بات کیجیے یاان کی کوئی تحریرپڑھیے تومعلوم ہوگاکہ وہ ملحدہیں۔ بعض لوگ باقاعدہ اپنے نام کے ساتھ ex MuslimیاAtheist کا لاحقہ بھی لگاتے ہیں۔ اوریہ مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہر کمیونٹی، ہرمذہب وملت میں ایسے افرادبڑی تعدادمیں موجود ہیں۔

یوں مذہب بیزاری موجودہ دورکا عمومی رویہ ہے۔ (ویسے مذہب کی طرف واپسی کا رجحان بھی دنیامیں دیکھنے میں آرہاہے، لیکن وہ انفرادی سطح پر ہے اوراکادکاواقعات ہی میں اس کا مظاہرہ ہورہاہے، عمومی کلچرخاص کرماڈرن تعلیم یافتوں میں مذہب بیزاری کا ہی ہے۔ )مذہب بیزاری کے بہت سے اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مذہب میں عام طورپر انسانی توہمات، دیومالااوررسمیات کا اضافہ ہوگیاہے۔ اورکسی مذہب کا بھی اس سے استثنانہیں۔ مذہب کی اس عوامی صورت میں جدیدذہن کے لیے کوئی Attraction نہیں ہے۔ اس کا دوسراسبب یہ ہے کہ مذہبی فکرصدیوں سے ایک جامدفکربن کررہ گئی ہے، اس میں کوئی ارتقاء نہیں ہورہاہے کیونکہ مذہب کے اجارہ دارکسی نئی بات، نئی تحقیق اورنئے تغیرکوقبول کرنے کے لیے تیارنہیں جبکہ زمانہ تیزی سے آگے بڑھتاجارہاہے۔ سائنس وٹیکنالوجی نے ایسی زبردست ترقیات کرلی ہیں کہ عقل حیرت زدہ ہے اوردنیاکی ان مادی ترقیات میں مذہب اوراہل مذہب کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تمام ترقیاں اورتحقیقات ان سائنس دانوں نے انجام دی ہیں جن کواہل مذہب کے ہاتھوں شدیدٹارچراورتعذیب کا نشانہ بنناپڑا۔ سائنس داں اورجدیدتعلیم یافتہ لوگ تمام مذاہب کوایک ہی پیمانہ سے ناپتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سبھی مذاہب کے ترجمان اورمذہی رہ نما ایک دوئی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ (مستثنیات کی بات دیگرہے )مسلمان علما بھی عصرجدیداوراس کی ترقیات سے لطف اندوزخوب ہوتے ہیں مگرساتھ ہی اس کوکفر،نظام کفراورطاغوت کا پیداکردہ بھی بتاتے ہیں، موجودہ زمانہ میں خودان کا کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہے۔ لہذامذہب سے جدیدتعلیم یافتوں کی بیزاری اوربڑھ جاتی ہے۔ جدیدذہن کوایڈریس کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اہل مذاہب تقلیدجامد،عقل دشمنی اوربے جاروایت پسندی کا رویہ ترک کریں، اپنی زندگیوں سے دوئی اوردوغلے پن کونکال دیں اورحقیقت پسندانہ ایپروچ اختیارکریں۔

جدیدمغربی ذہن تمام مذاہب کوایک ہی عینک سے دیکھتاہے ان کے نزدیک مذہب فی نفسہ ایک جامدروا یت Tradition  ہے۔ چنانچہ وہ مذاہب کا مطالعہ اسی نقطہ نظرسے کرتے ہیں اورمختلف مذاہب کوCrhrsitian Tradition,Judaic tradition Islamic traditionوغیرہ کہتے ہیں اوراسی لیے کہتے ہیں کہ اس لفظ سے ایک جمودگرفتہ چیز کا تصورپیداہوتاہے۔

تاہم اسلامی روایت جامدنہیں ہے۔ جدیدذہن کوایڈریس کرنے کے لیے اُس اسلامی روایت کوپوری تاریخیت،ایماندار ی، تحقیق ورسرچ کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اسلام کودخیل اجنبی اثرات سے پاک کرکے اُس کی اوریجنل صورت میں صرف قرآن وسنت کی روشنی میں عصری اسلوب میں یعنی سائنٹیفک طریقہ سے سامنے لانے کی شدیدضرورت ہے۔ تبھی ہم آج کے الحادکا سامنا کر سکیں گے۔

موجوہ زمانہ میں سائنس دانوں کی بہت بڑی تعدادمذہب کے معاملہ میں یاخداکے ثبوت کے سلسلہ میں نیوٹرل (  neutral)بنی ہوئی ہے۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم مذہب کا یاخداکا انکارنہیں کرتے مگرہمارے پاس اس کوثابت کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں۔ البتہ بعض یہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظربھی رکھتے ہیں کہ سائنس کا دائرہ کارمذہب کے دائرہ کارسے بالکل الگ ہے اس لیے ہم مادیات پر بات کرتے ہیں رسرچ وتحقیق کرتے ہیں مذہب اورروحانی یاوجدانی چیزیں ہمارے دائرے سے باہرکی چیزیں ہیں اس لیے ہم اس بارے میں گفتگونہیں کرسکتے۔ حالانکہ ایسے سائنس دانوں کی بھی کمی نہیں جویہ مانتے ہیں کہ قوانین طبیعی کے بارے میں جتنی رسرچ کی جارہی ہے وہ کائنات کے پیچھے ایک شعوری وجود( mind)کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ یعنی کائنات اتنی زیادہ منظم ہے کہ اس کے ڈھانچہ میں معمولی سی تبدیلی بھی نظام کائنات کودرہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ ’’مثال کے طورپرساری کائنات ایٹم سے بنی ہے اورہرایٹم نیوٹران اورپروٹان کا مجموعہ ہے۔ نیوٹران کسی قدروزنی ہوتاہے اورپروٹان کسی قدرہلکا۔ یہ تناسب بے حداہم ہے کیونکراگراس کا الٹاہو،یعنی پروٹان بھاری اورنیوٹرا ن ہلکا،تومعلوم قوانین کے مطابق ایٹم کا وجودہی نہ رہے گا۔ جب نیوکلیس نہ ہوگاتوایٹم بھی نہ ہوگااورجب ایٹم نہ ہوگاتوکیمسٹری بھی نہیں ہوگی اورجب کیمسٹری نہیں ہوگی توزندگی بھی نہ ہوگی۔ (مولاناوحیدالدین خاں اظہاردین،گڈورڈبکس 2014ص ۱۷)

حال ہی میں انتقال کرنے والے برطانیہ کے مشہورعالم ماہرطبیعیات اسٹیفن ہاکنگ نے جوسنگل اسٹرنگ تھیور ی دی یاسائنس دانوں کے ایک مشترکہ پروجیکٹ کے نتیجہ کے طورپر سامنے آنے والا’ گاڈپارٹیکل‘ سب وحدت ِخالق کی طر ف اشارہ کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اشارے کوایک سائنسی دلیل میں تبدیل کردیاجائے جس کوجھٹلانے کا کسی کے پاس موقع نہ ہو۔

قدیم متکلمین صنعت سے صانع کے وجودپر استدلال کرتے تھے جس کوآج ڈیزائن کاآرگومینٹ بھی کہتے ہیں کہ ڈیزائن ہے توکوئی ڈیزائنربھی ہوگا۔ آسان لفظوں میں یہ کہ اگرکوئی صنعت ہے توصانع بھی ہوگا،اگرکوئی کرسی ہے توکوئی اس کا بنانے والابھی ہوگاتواگرکائنات مادی وجودرکھتی ہے توکوئی اس کا خالق بھی ہوگا۔ یہ دلیل ہمیشہ سے دی جاتی رہی ہے اوراس کولاجیکل سمجھاجاتارہاہے مگرآج بہت سے سائنس داں اس لاجک کے منطقی نتیجہ کوالٹتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کائنات کوقوانین فطرت Laws of natureمنظم طورپر کنٹرول کررہے ہیں اوریہ قوانین کہیں باہرسے نہیں آئے بلکہ خودنیچرنے اپنے آپ ڈیولپ کیے ہیں دوسرے لفظوں میں کائنات نے خوداپنے آپ کوبنالیاہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگرایسانہ ماناجائے توپھرسوال ہوگاکہ چلیے مان لیجئے کہ کائنات کوکسی ڈیزائنر (خالق )نے بنایامگرخوداس ڈیزائنرکوکس نے بنایا؟یہ سوال جمیس بل، جولین ہکسلے اوربرٹرنڈرسل جیسے ذہین لوگوں نے اٹھایاہے۔ لیکن ان ملحدفلاسفہ اورسائنس دانوں سے یہ سوال کیاجاناچاہیے کہ آپ نے بلادلیل اورمفروضہ کی بنیادپر کائنات کوتوبغیرخالق کے مان لیامگرخالق کے وجودکوبغیراس کے خالق کے ماننے کے لیے کیوں تیارنہیں ؟اس سوال کا کوئی منطقی اورراست جواب ان کی طرف سے نہیں دیاجاتا۔ حالانکہ کئی بڑے سائنس داں عموماً حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ کائنات بامعنی ہے۔ اس کے پیچھے ایک اعلی شعورکام کررہاہے تاہم اپنی ذہنی کنڈیشنگ کے باعث وہ لفظ ’’خدا‘‘نہیں بولتے بلکہ دوسرے لفظوں سے اس کوتعبیرکرتے ہیں مثلاً:سرجیمس جینز(وفات 1717)نے اپنی کتاب The Introduction of Universe میں کہاہے کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (  mathematical mind) کی شہادت دیتی ہے۔ برٹش عالم فلکیات سرفریڈبائل ( 2001 )نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہ کر کیاکہ ہماری کائنات ایک ذہین کائنا ت ہے۔ امریکی سائنس داں پال ڈیویز نے اقرارکیاکہ کائنات کے پیچھے ایک باشعورہستی (  conscious mind) موجودہے۔ برٹش سائنس داں سرآرتھرایڈنگٹن ( 1744 ) نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہ کرکیاکہ کائنا ت کا مادہ ایک ذہین مادہ ہے۔ ( حوالہ ٔبالاص ۶۳)

ذہین تخلیق کوسائنس داں مان لیتے ہیں مگرذہین خالق ( Intelligent Creator)کونہیں مان رہے۔ ظاہرہے کہ یہ ایساہی جیسے آپ نے کسی پیچیدہ مشین کومان لیامگراس کے انجینئرکونہ مانا۔ مولاناوحیدالدین خاں نے ڈاکٹرفریڈبائل کے حوالہ سے لکھاہے کہ ایسااس لیے ہے کہ ’’سائنس کے ابتدائی دورمیں مسیحی چرچ نے سائنس دانوں کے خلاف جومتشددانہ کارروائی کی وہ ابھی تک لوگوں کویادہے، وہ ڈرتے ہیں کہ اگروہ یہ اعلان کردیں کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین خالق کے وجودکا ثبوت مل رہاہے توقدیم مذہبی تشدددوبارہ واپس آجائے گا۔  (حوالہ ٔبالا ص ۲۳)ظاہرہے کہ یہ کوئی منطقی اورلاجیکل بات نہ ہوئی یہ توایک بلاوجہ کا خوف ہے جوسچائی کے اعتراف میں مانع بن رہاہے۔

کائنات بہت بڑی ہے جس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے، خودسائنس داں کہتے ہیں کہ سار ی تحقیقات کے باوجودابھی تک ہم کائنات کے صرف چارفیصد( 4%)حصہ کوجان سکے ہیں، باقی سب ابھی Dark matter ہے۔ کائنات میں ملینوں کہکشائیں ہیں اورایک ایک کہکشاں میں بلینوں سیارے اورستارے ہیں تاہم زندگی انسان کے ابھی تک کے علم کے مطابق صرف زمین میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ اسٹیفن ہاکنگ اوردوسرے سانئس دانوں نے یہ خیال ظاہرکیاہے زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں میں بھی زندگی کا امکان موجودہے، خلاقی مخلوق aliens سے رابطہ کے امکان کی قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ کائنات میں ہماری زمین نقطہ کے ہزارویں حصہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتی مگراتنی حقیراورچھوٹی ہونے کے باوجوداس کی انوکھی صفت ہے کہ یہاں زندگی موجودہے اورزندگی کے اسباب بھی متناسب انداز میں موجودہیں۔ لائف سپورٹ سسٹم اورمتناسب لحاظ سے زندگی کے اسباب کی فراوانی بتاتی ہے کہ یہاں ایک ارادہ اور منصوبہ بندتخلیق کا رفرماہے اوراس کا وجودخودبتاتاہے کہ ارادہ کرنے والی اورصاحب تخلیق ہستی موجودہے۔ جولوگ کائنات میں غوروفکر کرتے ہیں وہ بے ساختہ پکاراٹھتے ہیں :ربنا ماخلقت ہذاباطلا،سبحانک(اے ہمارے رب تونے یہ سب بے کارپیدانہیں کیا،پاک وبرتر ہے تو!(آل عمران :۱۹۱ )

انسان کوجودکھ تکلیف دنیامیں ہوتی ہے اس کوبھی خداکے وجودمیں تشکیک کی وجہ ماناجاتاہے۔ رچرڈڈاکن جیسے ملحدماہرطبیعیات کہتے ہیں کہ اگرخداموجودہے اوروہ انصاف کرتاہے توجب انسان انسان پر ظلم کرتاہے توخداکہاں ہوتاہے؟وہ کہتے ہیں کہ اگردنیاکوخدانے بنایاہے تواس میں اتنی سفرنگ کیوں ہے ؟مشکلات اورناانصافیوں سے بھری دنیاخدانے کیوں بنائی ؟اس دنیامیں حادثات ہیں، بیماریاں، کرپشن، ظلم وزیادتی، نفرت تشدداوراستحصال کیوں ہے؟انسانی دنیامیں جرائم، فسادات، سرکشی اوردوسری برائیاں موجودہیں توکیوں ہیں ؟فلسفہ کی زبان میں اس کووہ Problem of evil کہتے ہیں۔ اگران باتوں کاجواب مذہب کی روشن میں یہ دیاجاتاہے کہ اس طرح انسان کی آزمائش مقصودہے توملحدفلاسفہ اورسائنسٹ کہیں گے کہ چلیے مان لیابالغ اوربڑے انسانوں کی آزمائش توسمجھ میں آتی ہے مگرچھوٹے اورمعصوم بچے بھی اذیتوں، شدیدبیماریوں اورتکلیفوں کا شکارہوتے ہیں توان کوخداکیوں تکلیف دیتاہے؟اس طرح کے سوالوں کا سامناکرنے کے لیے ہمیں تیاررہناچاہیے۔

ان atheistاوربے خدالوگوں سے بھی یہ سوال بنتاہے کہ پرابلم آف اول صرف اس دنیامیں کیوں ہے ؟اور کائنات میں صرف انسان کے اندرہی برائی کیوں ہے ؟دوسرے لفظوں میں کہیے توبات یہ بنتی ہے کہ یہ مسئلہ انسان کا اپناپیداکردہ ہے۔ کہیں وہ ماں باپ اور بزرگوں سے وراثت میں ملتاہے کہیں قبیلہ اورقوم سے اورکہیں اس کے اپنے عمل کا نتیجہ ہوتاہے اورانسان کی سفرنگ کبھی اس کے ماحول اوراس کی تاریخ اورعلاقہ کی پیداکردہ ہوتی ہے۔

کائنات کیاہے اس کی حقیقت کیاہے وہ کیسے وجودمیں آئی ؟اس پر انسان ہمیشہ سے غوروفکرکرتارہاہے، مذہبی فکرتوCreation کومان کران سوالات کوحل کرلیتی ہے مگرفلسفیانہ طرزفکرنے مزیدالجھاؤپیداکیاہے۔ ہاں ہوسکتاہے کہ سائنس کے مسلمات انسان کو شاید پھرCreation تک ہی پہنچادیں۔ طبیعیاتی میدان میں گزشتہ چارصدیوں میں تین بڑے نظریات ان سوالوں کے جواب میں آئے  ہیں۔ سب سے پہلے نیوٹن نے یہ مفروضہ پیش کیاکہ کائنا ت کی اساس مادہ matter پرہے۔ بیسویں صدی کا سب سے بڑاسائنس داں آئن اسٹائن ماناجاتاہے اس نے بتایاکہ کائنات کی تخلیق میں اصل جوہری فیکٹرتوانائی Energy ہے۔ آج نظریاتی سائنس میں بڑانام امریکی سائنس داں David Bohm کاہے،جس کی تحقیق میں تخلیق کائنا ت کی بنیادی اینٹ شعورconcousness ہے۔ ظاہرہے کہ یہ شعورکسی عظیم mindکے وجودکوبتاتاہے۔ وہ عظیم مائندمذہب کے نزدیک خداہے جوکائنات کا خالق ومالک ہے۔ اس طرح یوں کہاجاسکتاہے کہ سائنس ابھی لاالہٰ تک پہنچی ہے، الااللہ کہناباقی ہے۔ شایدکہ وہ دن بھی آئے جب سائنس پوراکلمہ پڑھ لے۔

موجودہ زمانہ میں سائنسی علم اورسائنسی طریقہ کارسب سے اہم، مصدقہ اورثابت شدہ ماناجاتاہے۔ انیسویں صدی کی سائنس میں جوغروروادعا،arrogance،اورتعلی تھی، اس کی بنیادپر ڈارون، فرائڈاورکارل مارکس کے نظریات کے باعث بعض مفکرین یہ کہنے لگے کہ ہم نے زندگی کے سب راز دریافت کرلیے۔ وہ یہ جسارت کربیٹھے کہ God is dead کا نعرہ مارنے لگے۔ وہ مفروضہ، مشاہدہ اورتجربہ پرمبنی سائنسی طریقہ کارسے ماوراء کسی علم کواہمیت دینے کے لیے تیارنہ تھے۔ اسی لیے وحی والہام کشف وانسانی وجدان سب کا انکارکرنے لگے اورسب کی بایولوجیکل یاحیاتیاتی توجیہ کی جانے لگی۔ مگربیسویں صدی میں آئن اسٹائن جیسے بڑے سائنسی دماغ نے یہ مان لیاکہ :No absolute frame of referene is exists۔ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کا نتیجہ یہ نکلاکہ انسان کا ہرعلم اضافی قرارپایانہ کہ حقیقی۔ لہٰذامبنی بروحی علم یاوجدان واشراق وکشف کا انکارکرنادرست نہیں۔ جب سائنس اس اعتراف تک آگئی ہے تواب مذہبی ذہن کے لیے یہ ممکن ہوگیاہے کہ وہ سائنسی حقائق اورتحقیقات کوخداکے وجودکے اثبات کے لیے کام میں لائے۔ اس سلسلہ میں مذہب کے نمائندوں میں عیسائیوں نے خداکے اثبات پر بہت ساکام کیاہے جبکہ مسلمانوں میں عبدالباری ندوی،ڈاکٹرمحمدرفیع الدین، وحیدالدین خاں، شہاب الدین ندوی وغیرہ اورترکی کے بعض اسکالروں کے کام کے علاوہ کوئی باضابطہ کوشش نظرنہیں آتی۔

نظریہ ارتقاء :کائنات میں ارتقاء ہواہے، اس طرح کائنات میں زندگی بھی مختلف ارتقائی مراحل سے گزری ہے۔ قرآن کی بعض آیات سے استدلال کرتے ہوئے مسلمان حکماء میں ابن مسکویہ اورصوفی شیخ جلال الدین رومی کا یہی مسلک ہے۔ البتہ انسان کی تخلیق کے بارے میں مذہب اورموجودسائنس دونوں ایک دوسرے کی متضادسمتوں میں کھڑے معلوم ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں کی بڑی اکثریت ڈارون کے نظریہ ارتقاء کومانتی ہے بلکہ اس کے لیے تعصب رکھتی ہے۔ کائنات اورزندگی کے ارتقاء سے Creation کی نفی نہیں ہوتی یہاں تک کہ ڈارون نے بھی نہیں کی۔ اس نے اپنی کتاب The Origine of Species کے آخرمیں لکھاہے کہ خدائی تخلیق کا یہ طریقہ کس قدرعجیب ہے۔ مگراس کے نظریہ ارتقاء کوملحدین اپنے لیے زبردست دلیل کے طورپراستعمال کرتے آرہے ہیں حالانکہ ارتقاء کی ڈاروینی تھیوری ابھی تک قیاسی ہے۔ جتنے شواہداس کے لیے ڈھونڈ ے گئے ہیں ان پر اعتراضات واردہوتے ہیں مگراس کوقریب قریب ایک حقیقت کے مان لیاگیاہے اوراس  کے لیے سائنس کمیونیٹی میں زبردست تعصب پایاجاتاہے اوردنیابھرکی یونیورسٹیوں میں اس کوایک مسلمہ کی طرح پڑھایاجاتاہے۔ اورجن سائنس دانوں نے اِس سے شدیداختلاف کیاہے ان کی آراء وافکارپر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔ جولین ہکسلے اوررچرڈڈاکن جیسے سائنسداں الحادکوپھیلانے اورخداکے عدم وجودپر استدلال کرنے کے لیے اس تھیوری کا استعمال کرتے ہیں۔ اورقریب قریب ایک ثابت شدہ حقیقت اس کوقراردیاجاتاہے۔ حالانکہ یہ قیاس سے ابھی آگے نہیں بڑھی۔ چونکہ اس تھیوری کی روسے کائنات میں مختلف قوانین فطرت کام کررہے ہیں اوراِنہی Laws of nature کے ظہورکے عمل کے نتیجہ میں زندگی کا وجوداورنشوونماہواپھراس میں درجہ بدرجہ ارتقاء ہوتاچلاگیااورآخرمیں ملینوں سال گزرنے کے بعدانسانی زندگی کا ظہور ہوگیا لہذاکسی creation اورخالق کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ تاہم یہ سوال ابھی بھی لاینحل بناہواہے کہ خودقوانین فطرت کس نے بنائے وہ کس طرح وجودمیں آئے۔ اس کے جواب میں سائنس داں یہ کہتے ہیں کہ قوانین فطرت بھی فطرت کے اپنے اندرسے پھوٹنے چاہییں نہ کہ کسی خارجی ایجنسی (مثلاخدا)کے ذریعہ وجودمیں آئیں۔ ظاہرہے کہ یہ ایک قیاس ہے جس کی کوئی دلیل نہیں لہذامذہب کا مقدمہ یہاں زیادہ بامعنی معلوم ہوتاہے کیونکہ خالق کومانے بغیراس کائنات کے وجودکی اورکوئی معقول توجیہ ممکن نہیں۔

فلاسفہ اوربڑے انسانی اذہان جنہوں نے جدیدمادی تہذیب پر بڑااثرڈالاہے،ہمیشہ آئڈیل کی تلاش میں رہے ہیں۔ افلاطون نے یوٹوپیاکا خواب دکھایاجس میں فلاسفرحکمراں ہوں گے اورکوئی برائی نہ ہوگی۔ موجودہ سائنس دانوں اورنظریہ سازوں نے دعوی کیاکہ مغرب کی موجودتہذیب اعلی انسانی تہذیب ہے جس کے بعدمزیدترقی کا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ ایلون ٹافلرنے 1970میں لکھی گئی اپنی کتاب ’’فیوچرشاک ‘‘میں بتایاکہ اب دنیاانڈسٹریل ایج سے نکل کرسپرانڈسٹریل ایج میں داخل ہورہی ہے۔ اب مکمل آٹومیشن کا دورآئے گااورپش بٹن کلچر(  Push butten culture)ہرطرف عام ہوجائے گا۔ جینیٹک انجینرنگ نے مصنوعی انسان پیداکرنے کی بات شروع کردی ہے۔ مغرب کے مفکرین میں فوکویانے کتاب لکھی :The End of History  (تاریخ کاخاتمہ )یعنی اب انسانی تاریخ اپنے نقطہ عروج کوپہنچ رہی ہے اورمغربی تہذیب کے بعدکوئی تہذیب نہ ہوگی۔ یہ تہذیب ہمیشہ غالب رہے گی۔ یہ سب کہاجارہاتھاکہ عین اسی اثناء میں گلوبل وارمنگ کا مسئلہ سامنے آگیا،لائف سپورٹ سسٹم کے ختم ہوجانے کی وارننگ سائنس داں دینے لگے۔ بعض نے تواس کی مدت کا تعین بھی کرڈالا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آئڈیل اکی انسان تمناکررہاہے وہ اس دنیامیں پوراہونے والانہیں۔ اس کی تکمیل کے لیے ایک دوسری دنیاکا ہوناضروری ہے جسے مذہب کی زبان میں آخرت کہتے ہیں اوراس کا تصوربغیرخداکے وجودکومانے ممکن نہیں۔ بے خداکائنات میں بہت بڑاخلاہے جبکہ باخداکائنات کاآغازبھی بامقصدہے اور انجام بھی بامعنی، اوریہی خداکے وجودکی دلیل ہے۔

ملحدین کے جوسوالات واشکالات عالمی سطح پر مذہب کے سامنے ہیں وہی اشکالات مشرق میں بھی ہیں۔ یہاں بھی جدیدتعلیم یافتہ اذہان عموماً وہی اشکالات پیش کرتے ہیں۔ مذہبی ذہن محض روایات ورسمیات سے ان کا جواب دیناچاہتاہے،جوکہ ناکام طریقہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل مذاہب اورخاص کرمسلمان موجوددورکے سائنسٹفک اسلو ب اورسائنسی ذہن کوسمجھیں۔ آج جینیٹک انجینرنگ جومسائل لے کرآرہی ہے اورsuper human یاPost human کا جوخواب دیکھاجارہاہے، سائنٹیفک ڈرگس سے انسان کی ماہیت بدلنے کی تیاری ہے اس کے جذبات واحساسات پر کنٹرول کی بات کی جارہی ہے۔ ایسے روبوٹ بنائے جارہے ہیں جوانسانی شعوربھی رکھتے ہوں۔ انسان کولازوال بننے اورموت پر قابوپانے کا شوق پیداہوگیاہے۔ اوراس طرح کے پرجیکٹوں پر کام ہورہاہے۔ کلوننگ کے نئے تجربات اب بھیڑبکریوں سے آگے بڑھ کرذات انسانی پر ہواچاہتے ہیں۔ یہ جوچیلنج آئے گااس کے مقابلہ کی کوئی تیاری مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ وہ آج بھی روایتی ذہن سے سوچتاہے۔ مسلمان علما آج بھی سائنس کوسنجیدگی سے لینے کے لیے تیارنہیں۔ اس لیے الحادجدیدکا مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں ہے اس کے لیے نئے افرادکارتیارکرنے ہوں گے۔

(نوٹ : اس مضمون کوتیارکرنے میں ڈاکٹرمحمدرفیع الدین کی کتاب :قرآن اورعلم جدید، مولاناوحیدالدین خاں کی کتاب اظہاردین،مذہب اورسائنس اورماہنامہ اشراق جولائی 2017  الموردلاہور سے خصوصی مددلی گئی ہے۔ )

تبصرے بند ہیں۔