ڈاکٹر محمد مرسیؒ کا حراستی قتل: عالم اسلام خاموش کیوں؟

غازی سہیل خان

تاریخ کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق، باطل کے خلاف روزِ اول سے ہی بر سر پیکار ہے۔ کبھی حضرت ابراہیم ؑ کو حق کے پیغام کی خاطر دہکتی آگ میں جھونک دیاگیا تو کبھی موسی ؑکو فرعونیت کے انکارکی وجہ سے ستایا گیا، اسی طرح نبی مہربان حضرت محمد مصطفیﷺکو اسی دین کی خاطر کبھی طائف کی وادیوں میں پتھروں کی بارش سے لہو لہان کیا گیا، تو کبھی میدان اُحد میں دندانِ مبارک شہید گئے گئے اور کبھی شعب ابی طالب میں قید کیا گیا۔ اس سب کے بعد بھی جب عرب کے مشرکین کا جی نہیں بھرا تو محسنِ انسانیتﷺ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، تاہم اس قدر مظالم کے باوجود بھی رحمت للعاللمین ﷺکسی طرح کی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرتے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سے حضرت ابراہیم ؑاور حضرت موسٰی ؑنے بغیر کسی کمزوری کے مصائب و مشکلات جھیلنے برداشت کئے مگر دعوت حق سے دست بردار نہیں ہوئے۔چوں کہ اللہ تعالیٰ کو تمام ادیان ومذاہب پر اسلام کو غالب کرنا ہے جس کے لئے وہ چند پاک نفوس کا بار بار انتخاب عمل میں لاتا آرہا ہے، جن کا مقصد صرف ’’اللہ کی زمین پر بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانا رہا ہے۔جو بھی پاک نفوس اس مشن کے لئے آج تک اُٹھے اُن کو وقت کے فرعونوں، نمرودوں، بو جہلوں سے سامنا ہونا اس مشن عظیم کا جُز ولاینفک ہے۔ وقت کے فرعون ہٹ دھرمی اور اپنی ظاہری کامیابی کے لیے ہر ایک حربہ آزماتے رہے ہیں تا کہ یہ پاک نفوس حق کی دعوت سے منحرف ہوں، اُنہوں نے کبھی مظلوم کو ’’ملک دشمن‘‘ قرار دیا تو کبھی بغل میں چھری لیے ہوئے رام رام کہنے والے کو حاکم بنا کر قتل عام کی روش اختیار کرنے کی جوا زیت پیش کی۔ کبھی خفیہ طریقے سے ٹارگٹ کلنگ کی تو کبھی با ضابطہ عدالتوں کے ذریعے سے بے گناہوں کا قتل عام کرنے میں پہل۔اس پر بھی طرہ یہ کہ ان پاک نفوس پر مظالم اور ان کے قتل کے بعد لواحقین سے درد و غم کا اظہار کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔

فی الوقت ہم ان کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح عالمی سطح پر اسلام پسندوں کو کُچلا جا رہا ہے۔ کبھی بنگلہ دیش میں نام نہاد ٹربونل بنا کر مخصوص جماعتِ مومنین کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے تو کبھی مصر میں نبی ﷺ کے محبوں کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ احتجاج کے دوران لاشوں کے انبار لگا دئے گئے۔ گزشتہ ہفتہ بھی عالم اسلام کو ایک کربناک خبر ملی جس میں مصر کے پہلے منتخب صدرڈاکٹر محمد مرسی ؒکو طاغوت اور اپنوں کی سازش کے ذریعے ہم سے چھین لیا۔محمد مرسی ؒ عالم اسلام کے ایک ایسے قائد و رہنما تھے جس نے بغیر کسی کمزوری اور لچک کے وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ دیا کہ ’’جو کوئی بھی محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کرے گا میں اس کے ساتھ محبت کروں گا اور جو کوئی نبی مہربان کے ساتھ نفرت کرے گا میں بھی اُس کے ساتھ نفرت کروں گا۔‘‘ اُمت کے اسی غمخوار کو وقت کے فرعونوں نے عشق نبیﷺ کی پادائش میں گزشتہ چھے سالوں سے اپنے دیگر ساتھوں سمیت زینت زنداں بنایا۔ محمد مرسیؒ ان پاک نفوس کی جماعت میں شامل تھا جنہوں نے مغرب اور سعودی بادشاہوں کو دکھا دیاکہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ ہم بھی پر امن ذرائع اور جمہوری طریقے سے دنیا کو امن دے سکتے ہیں، مظلوموں کی مدد،بے کسوں کا سہارا، یتیموں اور بچھڑے ہوئے مظلوموں کے غموں کا مداوا کر سکتے ہیں، لیکن ان کو یہ راس نہ آیا اور منتخب حکومت کو پلک جھپکتے ہی ختم کر دیا۔

محمد مرسی ؒ مشرق وسطی کی ایک ایسی تحریک کے ساتھ وابستہ ہو کر عرصے دراز سے مظلوم انسانیت کے لئے لڑ رہے تھے جس تحریک کے حصے میں عزیمت کی لازوال تاریخ درج ہے۔ ’’اخواان المسلمون‘‘ کے قیام کے بعد ہی سے اس سے وابستہ سرفروشوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے، کبھی جمال عبدالناصر جیسے نمرود کے ساتھ اخوان کی پنجہ آزمائی ہوئی تو کبھی انوارسادات جیسے لوگوں کو انہوں نے للکارا، اسی طرح سے مسلسل ۶۰ سال تک مصر کی عوام حُسنی مبارک کے مظالم میں پستی رہی۔ ٹھیک انبیاء علیہ السلام کی سُنت کے مطابق ان اخوانیوں نے دردناک مظالم سہنے برداشت کئے لیکن اسلام کی عظمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ حُسنی مبارک کی استعماری حکومت سے مصر کی عوام کو یہ اللہ کے چہیتے بندے بیدار کرتے رہے کہ اسلام امن کا دین ہے، اسلام کا اپنا سیاسی، معاشی اور سماجی نظا م ہے جس کی نتیجے میں ۲۰۱۱ ء میں مصر کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری طریقے سے اخوانی رہنما ڈاکٹر محمد مرسی کو عوام کی بھاری اکثریت نے صدارت کی کرسی کے لئے منتخب کیا۔دنیا میں مظلوم مسلمانوں کی جان میں جان آگئی، فلسطین میں خوشیوں کے ترانے بجائے گئے، عراق کی لُٹی انسانیت کو سہارا مل گیا، شام میں بشارالسد کے درناک مظام سے عوام نے بچنے کا سہارا پایا،افغانستان پر امریکی بم اور بارودسے زخمی عوام کو نویدِ سحر کی خشبو آنے لگی، غرض مصر کے ساتھ ساتھ دنیا میں مظلوم ومحکوم انسانوں کے دلوں میں جینے کی تمنا جاگ اُٹھی جس کے لیے وقت کے فرعونوں نے اپنوں کی شکل میں ایسے مہرے تیار کیے کہ ایک مختصر مدت کے بعد ہی اخوان سے یہ حکومت جبراً چھین لی گئی۔ اپنوں کے ساتھ مل کر عالم کفر نے اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ اُلٹ کراس سے وابستہ رہنمائوں اور کارکنوں کو کال کوٹھریوں میں ڈال دیا۔مصر میں جمہوری حکومت کو گرانے میں سب سے زیادہ اہم کردار تین ممالک امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے علاوہ حُسنی مبارک کے ٹکڑوں پر پلنے والی وہاں کی مقامی جماعت ’’النور پارٹی‘‘ اس سازش کا حصہ رہی۔ چونکہ اخوان نے 1948ء میں سب سے پہلے فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑی، محمد مرسی نے صدارت کی کرسی کے بعد حماس کی ہمت بندھائی اور یہ وعدہ کیا کہ ہم ان کی بھر پور مدد کریں گے۔ غرض اخوان کی حکومت اسرائیل کے وجود کے لئے موت تھی۔ یہ امریکہ کو کیسے برداشت ہوتا، اسی طرح شام میں بشار السد کی بدترین ڈکٹیٹر شپ اور انسانوں کے قتل عام کا اب حساب لگنا تھا، سب سے اہم جو سعودی عرب کے حکمرانوں کو اپنے باپ دادا کی وراستی کرسی کے چھن جانے کا ڈر بھی ستانے لگاتھی، کیوں کہ سعودی عرب میں خلافت کے نام پر بدترین قسم کی خاندانی بادشاہی یعنی ڈکٹیٹر شپ کا نظام رائج ہے اور اس نظام کے خلاف کسی کو بات کرنے تک کی اجازت نہیں، جہاں صحافیوں کی بے باکی پر اُن کو قتل کیا جاتا ہے، اسلامی نظام حکومت سے وابستہ افراد کو پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جسے اس وقت کے امریکی صد باراک اوبامہ نے اخوان کی جیت کے بعد اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اگر اخوان سو فی صد ووٹ لے کر بھی حکومت بناتی ہے تو ہمیں پھر بھی ان کی حکومت قبول نہیں ہوگی۔‘‘تجزیہ نگاروں کے مطابق جہاں مغرب کو جمہوری حکومت راس نہیں آتی وہاں وہ نام نہاد مسلم لیڈروں کی مدد سے ڈکٹیٹر شپ کو ہر حال میں نافظ کروا دیتے ہیں اور پھر دنیا کے سامنے یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ مسلمان جمہورت پسند نہیں ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بیچ سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل نے آستین کے سانپ اور فرعونی صفت والے جنرل السیسی پر ڈالروں کی برسات کر دی، اسے تیارکیا کہ وہ کسی طریقے مصر کی اس حکومت کوختم کر دیں۔ 13جولائی 2013ء کو’’السیسی‘‘ نے النور پارٹی کی مدد سے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، جس کے ردعمل میں رابعہ کے میدان میں پُرامن طور احتجاج کر رہی معصو م اور نہتی عوام کو طاقت کے نشے میں چور ہو کر بے دردی کے ساتھ ٹینکوں اور گاڑیوں کے نیچے روند کر موت کے گھاٹ اُتار دیاگیا اور ایک ایک کر کے اخوانی رہنماوں کو جیل میں ڈال کر من گھڑت مقدمات کی نذر کر دیا گیا۔گزشتہ چھے برسوں سے ڈاکٹر محمد مرسی کو قید تنہائی میں انتہائی اذیت ناک مراحل سے گُزارا گیا، بی، بی، سی کے ایک رپورٹ کے مطابق علاج تو دور کی بات محمد مرسی ؒ کو بُنیادی ادویات سے بھی محروم رکھا گیا۔ قیدتنہائی کے چھے سالوں میں صرف چار بار اُن کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت دی گئی، محمد مرسی کی شہادت سے قبل آٹھ ماہ اہل خانہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ محمد مرسی مصر کی تاریخ کے ابھی تک کے واحد رہنما تھے جو کہ جمہوری طریقے سے صدرمنتخب ہوئے، پیشے کے لحاظ سے میکنیکل انجینئر اور حافظ قرآن تھے۔ جی ہاں یہ وہی مرسی تھے کہ جب کبھی بھی اپنی تقریر کے دوران اذان ہوتی تو وہ اذان کا جواب زور زور سے دیتے چوں کہ مصرمیں حکمرانوں کے لئے عالی شان محلات بنائے گئے ہیں مرسی وہ واحد صدر تھے جس نے ان محلات میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ ایک کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ محمد مرسی کو lowest paid leaderکہا جاتا ہے جس میں محمد مرسی کوایک سال کی تنخواہ 10ہزار ڈالر تھی اور وہ بھی کبھی نہیں لی۔ اپنے دور اقتدار میں اکثر عوام میں رہتے تھے اور اکثر نمازیں عام لوگوں کے ساتھ مساجد میں ادا کرتے تھے۔ اس دوران کبھی بھی نماز فجر قضا نہیں ہوئی۔صدارتی دفتر سے ساری تصویریں ہٹا دیں گئی اور ایک اللہ کا نام فریم میں لگا دیا گیا۔اپنے دور اقتدار میں ایک بار اُن کی بہن شدید بیمار ہو گئی،دوستوں نے اُن سے اصرار کیا کہ ان کو یورپ کے کسی بڑے ہسپتال میں لے جایا جائے تا کہ وہ صحتیاب ہو جائے، ان کی یہی بہن مقامی سرکاری ہسپتال میں انتقال کر گئیں حالاں کہ اگر محمد مرسی ؒ چاہتے تو بحیثیت صدر ایک دستخط پر کچھ بھی ہو سکتا تھا، الغرض اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی بھی اور کرسی کو اپنی ذاتی میراث نہ سمجھ کرمحمد مرسی ؒ عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔

بھلا اس کردار کے مالک بے باک قائد کو عالم کفراور گدی نشین بادشاہ کیسے قبول کرتے؟محمد مرسی کی شہادت کو عالم اسلام ایک قتل مانتی ہے خاص طور سے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ صدر مرسی کی موت ایک سازشی قتل ہے اور میں اس کو عالمی عدالت میں لے جاوں گا۔ یہ طاغوت بڑی سازشیں رچاکر اسلام پسندوں کا قافیہ حیات تنگ کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔ لیکن یہ جانتے نہیں اللہ تعالی سب چالوں کو جانتا ہے  ’’ومکروا ومکر اللہ، واللہ خیر المٰکرین‘‘ ‘‘ (آل عمران:۵۴) یہود اپنے رسول عیسیٰؑ پر ایمان نہیں لائے، اس کے بجاے اُنہوں نے اُس کے خلاف لمبی چوڑی سازشیں کی۔ اُنہوں نے عیسیٰؑ پر تہمت لگائی، انہوں نے اُن کی ماں مریمؑ پرسنگین الزام لگائے۔اور اُسکے بعد ہمارے نبی مہربان ﷺ پر بھی مشرکین اور منافقین مکہ نے گھناؤنے انداز میں بہتان تراشیاں کی، اتنا ہی نہیں بلکہ مجنون اور جادو گرتک کہہ دیا۔انبیاؑ کی طرح حق پر چلنے والوں پربھی اسی طرح الزامات اور بہتان تراشی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ محمد مرسیؒ اور اخوان کے کارکنوں پر الزام اوربھتان باندھے گئے مثلا محمد مرسی پر اایک الزام یہ لگایا گیا کہ وہ حماس سے ہمدردی رکھتے ہیں، کیا کسی مظلوم کی مدد کرنا جرم ہے ؟ یہ ساری دُنیا بھی جانتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ نام نہاد مسلم حکمران اور اپنے آپ کو مولوی کہنے والے محمد مرسی کے مظلومانا قتل کو غلط نہیں سمجھتے بلکہ یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ دیگر کارکنوں کو بھی اسی طرح قتل کیا جائے تاکہ یہ دین کی جدوجہد سے انحراف کریں۔ خاک ان کے منہ میں، کیا یہ جانتے نہیں کہ جس تحریک سے جڑے سرفروشوں نے دین اسلام کے شمع کو روشن رکھنے کے لیے اپنے دل جلائے ہیں، اپنے گھروں کو جلتے دیکھا ہے اپنے بچوں کو قربان ہوتے دیکھا ہے، جس تحریک سے جڑے افراد نے اپنا گرم گرم لہو دے کر اسلام کے باغ کو سینچا ہو، ایسی تحریک جس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لے چاہے کتنی ہی کوششیں طاغوت کریں ان کو ناکامی ہی ہاتھ آئے گی۔ السیسی اس طرح کے مظلومانہ اقدام سے اخوانی عزائم کو ختم نہیں کر سکتا۔ اور وہ دن بھی اب دور نہیں جب قابض جنرل السیسی بھی اپنے انجام کو پہنچ پائے گااور روز آخرت پر اس کو ہر ایک قتلِ ناحق کا حساب دینا پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کو بغیر کسی تعصب کے اس پر غور کرنا چاہیئے کہ حق کیا ہے اور حق کو ہی مٹانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے اور اس حق کا ساتھ دینے کی کتنی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی محمد مرسی شہید ؒ کی مظلومانہ شہادت کو قبو ل فرما کر جنرل السیسی اور اس کے حواریوں کو اپنے انجام تک پہنچا دے۔

تبصرے بند ہیں۔