گستاخی: ہماری اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری

سلیمان سعود رشیدی

اقوام متحدہ کے ۱۹۴۸ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ ۱۸/ کے مطابق ہر آدمی اپنے خیال وضمیر اور مذہب کی آزادی رکھتا ہے، مگر اس آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر اول دوم کی دل آزاری کرے، لیکن بعض کم علم، کم فہم صہونیت زدہ اس آزادی کا فائدہ دل آزاری سے کررہے ہیں۔

اکٹوبر ۲۰۰۱ سے مسمسل شان رسالت میں گستاخی اورفعل قبیح میں درندگی کے ماہر سفاکی کے شہنشاہ لگے ہوے ہیں، جسکی ابتدا ڈینمارک کے یہودی اخبار "جیلنڈر پوسٹن”نے کی اسی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اٹلی، فرانس، جرمنی، ہایلنڈوغیرہ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے، آج پھر اسی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہویے ہالینڈکے چند باشندوں نے اپنی عاقبت اپنے ہاتھ لکھ لی، یہ لوگ اس شخصیت کی طرف دست درازی کی ہے جس سے عقیدت ومحبت مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر فرد بشر پر لازم ہے، اور محبت بھی ایسی کہ جس کے سامنے دنیا کی ہرعزیز ومحبوب شئ لایعنی لگے، اللہ کو جس ہستی سے محبت میں ذرابرابر بھی کوتاہی برداشت نہ ہواس ہستی کی محبت میں تنقیص وتجزی کرنے والا شخص کسی بھی زاویہ سے انسان کہلانے کے لائق نہیں، ایسا شخص تو اللہ کیطرف سے ایسی پکڑکا حقدار ہے جسکے کھیرے میں وہ آخرت میں تو آئے گا ہی بسا اوقات دنیا میں بھی انجام پاسکتا ہے۔

قرن اول سے:

اسلامی کی تا ریخ کے وہ اہم واقعات جس کے اندر مسلمانوں نے محبوب خدا کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والوں کو اس کے حقیقی ٹھکانہ تک پہنچایا، قرن اول میں گستاخ رسول کے چند واقعات رونما ہوئے تھے جن میں "کعب بن اشرف، عبداللہ بن ابئ، ابوعفک، خضر بن الحارث، عقبہ بن ابئ، حارث بن طلاطلا، مسلمہ کذاب، اسودعنسی "ان سب کو اس لیے واصل جہنم کیا گیا تھا، کہ یہ لوگ رحمت دوعالم ؐ کی شان اقدس میں گستاخی کرکے خالق کائنات اور مقصود کائنات کی عدالت میں ناقابل معافی مجرم قرارپائے تھے، نیز دنیا کا بھی قانون یہی ہے کہ دنیا کے ہر دین  ودھرم اور ملک ملت اپنے مقدس اور مقتدااشخاص کے بارے میں نہ گستاخی کرتے ہیں، اور نہ کسی اور کی طرف سے اسکو برداشت کرتے ہیں،

قرن آخر سے:

  یو تو گستاخی کا یہ سلسلہ زمانہ اول ہی سے ہے لیکن ورقی اور برقی میڈیا کی شکل اختیار کرکے انہوں نے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو تیار کیا، جنکے ذریعہ سے اسلام اور شعائرہ اسلام  اور شان رسالت میں  گستاخی کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رکھااور تا حال جاری ہے، گذشتہ سالوں میں پیش آئے گستاخانہ واقعات پر طائرانہ نظر ڈالیں توپتہ چلتا ہے کہ صہیونیت کے دریدہ دہن عناصر نے اس گھناؤنے عمل کو مستقل مشن بنا رکھا ہے، اکٹوبر 2001 کوایک ویب سائٹ پر حضور  ؐسے منسوب ۶؍تصاویر نہایت تمسخر آمیز مضامین کے ساتھ شائع کی گئیں، اور یہ تأثر دیا گیا کہ نعوذ باللہ آپؐ دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کے لئے آئے تھے، ستمبر 2005ء میں ایک” ڈینش "اخبار میں اہانتِ رسول کی گھناؤنی حرکت کامظاہر کیا گیا، پھر ایک سال نہیں گذرا کہ فروری 2006 ء میں مغربی ممالک کے کئی اخبارات نے ایک ساتھ توہین آمیز کارٹونوں کو شائع کیا جس پر سارے عالم میں بھونچال آگیا، انبیاء کی شان میں گستاخی اور مذہبی مقدسات کی توہین یہود و نصاری کی سرشت میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اس قسم کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں، گذشتہ دنوں ہالینڈ کے ایک اسلام دشمن قائد گیرٹ وائلڈرز نے ایک بار پھر خبثِ باطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ ماہ نومبر میں اہانتِ رسول ؐ پر مشتمل گستاخانہ خاکوں کے مقابلہ کا اعلان کردیا ہے، اور اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے اس مقابلہ میں ان خاکوں کو بھی شامل کیا جائیگا جو ای میل کے ذریعہ بھیجے جائیں گے، نیز یہ مقابلہ سوشل میڈیا پر راست نشر بھی کیا جائیگا۔

ان سب کے باوجودنہ کسی کی طرف سے کوئی پہل ہے، اورکئی ایک ایسے ہیں جنھیں پتہ تک نہیں کہ روئے زمین پر کیا ہوراہے،  بہت سارے مسائل میں مسلمان کوخوابیدہ پاکر دشمنان اسلام اورشیطان لعین کی روحانی ذریت، محسن انسانیت کی شان اقدس میں گستاخی کا گھناؤناارتکاب کیا، اب تک دسیوں مرتبہ خبث باطن کا برملا اظہار کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت کا امتحان لیا گیا۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے سوائے چند مقامات اورمخصوص اشخاص کے کسی کی طرف سے کوئی موثر ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا، حالانکہ اس قسم کے نازیباحرکات اگر کوئی انسان اپنی ذات اوروالدین اوراعزاءواقارب کے بارے میں سنتا اوردیکھتا ہے تو ہمارے جذبات میں فورا سے پہلے ایک ارتعاش آجاتا ہے، اس بےحسی صورت حال دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں ہماری جانیں اعزاواقارب اوردنیاوی مفادات حضوراقدس کی ذات سے زیادہ عزیز ہوچکے ہیں، آج کا مسلمان یہی سمجھتا ہے تو پھر یہ مسلمان نہ مسلمان ہے اورنہ یہ مسلمان کہلانے کا مستحق ہے، پھر ہمیں دنیا میں اپنی مظلومیت اورذلت اورپستی پر کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہوناچاہیئے کیونکہ یہ سب ہمارے بوئے کا پھل ہے۔

سلطنت برطانیہ سے:

مذہبی  ہم آہنگی کے معاملہ میں اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک سے اچھی تو سلطنت برطانیہ تھی، جس نے شاتم رسول راج پال کے قتل کے بعدمقدمے کے دوران ہی توہین رسالت کے لیےہندوستانی دستور میں دفعہ ، شامل کی، غازی علیم الدین کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران محمد علی جناح نے عدالت میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کی علیم الدین نے توہین رسالت پر مشتعل ہوکر راج پال کو قتل کیا، چناچہ ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اسکی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے ایک قانون تز ین  دینے کی ضرورت ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات رونما نہ ہوں، اس کے بعد عدالت میں ہونے والی بحث کی روشنی میں  ایک ایسا بھدا قانون بنایا گیا کہ توہین رسالت پر دوسال کی سزا یا جرمانہ دیکرکھلے عام پھرےلیکن پھر    ۲۰۰۷   میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد یمن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی تھی، جس کے ذریعہ سے مقدس ہستیوں بنیادی مذہبی عقائد اور مشاہیر کے خلاف توہین آمیز مواد کی مذمت کی گئ تھی اور رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں، جو اسلام کے خلاف نفرت انگیزاور غیر ذمدارانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ترکی نے اس قرار داد میں ایک ترمیم کی تجویز کی تھی، جس کے مطابق تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کی ناموس وتوقیر کی حفاظت کا عزم کیا گیا تھا اس ترمیم کے ساتھ یہ قرارداد ۲۰۰۷ میں منظور کرلی گئ تھی، تاہم یہ دستاویز قوت نافذہ سے محروم تھی، اور اسکی حثیت ایک درخواست اور سفارش سے زیادہ نہ تھی کہ نافذالعمل ہونے کے لیے اس کا سلامتی کونسل سے منظور ہونا ضروری تھا، جبکہ فرانس، امریکہ اور برطانیہ کھل کر کہہ چکے تھے، کہ اگر اسے سلامتی کونسل میں پیش کیا گیاتووہ اس قرار داد کو ویٹو کردیں گے، او آئی سی نے اقوام متحدہ سے اسکی منظوری ہی کو” بہت بڑی سیاسی  کامیابی”قرارا دیا تھا اسکے بعد سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل ہر سال اس عزم کی تجدید کرتی رہی، لیکن ۲۰۱۱ کے آغاز میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس "بے ضرر اور رسمی "سی کاروائی کو بھی ناقابل قبول قراردے دیا اور اوآئی سی نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے قرار داد پیش نہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔

ہرایک کی ذمداری:

اب یورپ کے مذہبی جنونیوں کے مقابلے کے لیے دنیا بھر کے اعتدال پسند اور انصاف دوست طبقہ کو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، مذہبی منافرت اور عدم برداشت کی یہ لہرعالمی امن کے لیے بے ضد نقصان دہ ہے، اس سلسلے میں پاپائے روم روم سمیت دنیا کے تمام مذہبی وسیاسی رہنماوں کے مابین گفت وشنید وقت کا اہم تقاضہ ہے، دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان ناموس رسالت کے معاملہ بے حد حساس ہیں اور تحفظ ناموس رسالت کے لیے قانون سازی نہ کی گئی تو تہذیبوں کے درمیان ایک خون ریز عالمی تصادم کا خطرہ ہے، اسلامی دنیا کی نظریاتی قیادت کو اس سلسلے میں داعیانہ کردار اداکرنا ہوگا، نفرت کی اس تحریک کودعوت کے ایک موقع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، ناشائستگی کے اس طوفان بدتمیزی کا مقابلہ "معذرتوں کے بند”باندھنے سے نہیں ہوگا، اس کا مقابلے پر صداقت وشرافت اور حضور اکرمؐ سے بے پناہ عقیدت کا جوابی طوفان اٹھانے کی ضرورت ہے مسلم دنیا کے سیکولر دانشوروں کی جانب سے برداشت وتحمل کے لیکچرزاور ہالینڈکے حملے فسطائیت قراردے کر یکطرفہ مذمت سے مسلمان قوم اتنی مہذب نہیں بن سکتی کہ اپنے نبی کی توہین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے، دور نبی میں کعب بن اشرف کے قتل سے لیکر پیرس کے حملے تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ امت اپنے رسول کی توہین برداشت کسی بھی صورت میں نہیں کرتی۔

ایسے نازک وقت میں ہر ایک کی  ذمداری ہے کہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اقدامات کریں، جن میں سے بعض کا تعلق ملکی سطح پر ہے اور بعض کا عالمی سطح پر(۱)عالمی عدالتوں جاکر ایسےمجرموں کو بین الاقوامی مجرم ثابت کرتے ہوئے سزائے موت دلوائے، اورجن ممالک باشندے اس گھناونے جرم کے مرتکب ہوںان ممالک پر سفارتی ڈباودالتے ہوئے ان مجرموں کو پھانسی تک پہنچائے، (۲)ان مجرموں کی تحویل کے لیے بھر پور کوشش کریں اور ایسا نمونہ عبرت بنائے کہ امت کے آزردہ دلوں کے ٹھنڈک ملے(۳) سارے مسلم ممالک ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کرلیں اور اپنے اپنے سفراء کو واپس بلوالیں(۴) ساتھ ہی ساتھ اقتصادی روابط کا خاتمہ کرلیں، جس میں تاجر طبقہ بھی کلیدی رول ادا کرسکتا ہے اگر سارا عالمِ اسلام ہالینڈ کا معاشی بائیکاٹ کر بیٹھے تو ہالینڈ اپنے ملک کے گستاخ قائد پر لگام کسنے پر مجبور ہوجائیگا، (۵)قانون سازی کے ذریعہ گستاخ رسول کی سزاکو سزائے موت قرار دیکر ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی ترمیم اور تخفیف سے بالاترقرار دیاجائے، جس طرح ملک کا قانون سازادارہ اس ملک کے وجود کے خلاف اور خاتمہ کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتااسی طرحگستاخ رسول کی سزا بھی ترمیم وتنسیخ سے بالاتر قرار دیں اس لیے کہ پوری دنیا کانقشہ مٹ جانا ناموس رسالت کے سامنےذرابرابربھی حیثیت نہیں رکھتا،ابھی دھمکیاں ملنی شروع ہوگی ہیں اور اگر اقوام عالم نے اپنی ذمدااری کااحساس نہ کیا تو پیرس جیسے افسوس ناک واقعات کوروکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔